بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

”توکل“ خلیل اللہ کی صفت

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کے ”خلیل“ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام...اور آپ کے ”صحابہ کرام“ نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا...اور اللہ تعالی پر ”توکل“ کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے...چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام...اور آپ کے صحابہ کرام ان مقامات پر کامیاب ہوئے جہاں بظاہر کامیابی ناممکن تھی......قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنا ”خلیل“ بنایا...”خلیل“ کہتے ہیں خاص ترین دوست کو...وہ دوست جو ”محبت“ کے سب سے اونچے درجے پر ہو...

حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:-

ان اللہ اتخذنی خلیلاً کما اتخذ ابراہیم خلیلاً (صحیح مسلم)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے مجھے بھی ویسے ہی اپنا ”خلیل“ بنایا..جیسے اس نے ابراہیم کو خلیل بنایا...

”عمدۃ القاری“ میں ہے:

”خلیل اللہ“ وہ ہے جو تمام دنیا سے کٹ کر اللہ جل شانہ کی طرف ہو جائے...اور وہ اپنی تمام حاجات صرف اور صرف اللہ تعالی کے حضور پیش کرتا ہو...

امام نووی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

”الخلیل معناہ المحب الکامل“

یعنی ”خلیل“ کا معنی ہے کامل محبت کرنے والا...ایسی محبت جسمیں محب اور محبوب دونوں کی طرف سے کوئی کمی نہ ہو...

شیخ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

”خلیل وہ ہے جو اپنے دل میں محبوب کے سوا کسی کو جگہ نہ دے“...

علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل

ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

صیغہ ”تَوَكَّلْنَا“ کی تیسری آیت.....سورہ الممتحنہ میں ہے جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کرام....اپنی کافر قوم اور رشتہ داروں کے مقابلے میں ”ایمان“ کا علم تھامے اعلان کر رہے ہیں:-

”رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ“

اے ہمارے رب ہم نے آپ ہی پر ”توکل“ کیا ہے اور ہم آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمارا لوٹنا ہے...مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن مرحبا!

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 27.03.2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

”مقابلہ بدر“ میں کامیابی کا اصول

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی سے فریاد ہے کہ وہ ہمیں......سچا ”توکل“ نصیب فرما دیں...کاش ہم اپنے دلوں میں ”توکل“ کی خوشبو پائیں...”توکل“ ہوتا ہے تو زمین پر ”غزوہ بدر“ برپا ہوتا ہے...”توکل“ ہوتا ہے تو ”فتح مکہ“ کا غزوہ رمضان المبارک میں اترتا ہے...”توکل“ ہوتا ہے تو اللہ تعالی کی نصرت اور مدد زمین پر اترتی ہے.....اہل علم نے ”غزوہ بدر“ پر ہزاروں، لاکھوں صفحات لکھے ہیں...”غزوہ بدر“ کی شان ہی ایسی ہے کہ اس پر لکھنا بھی سعادت ہے...اور قیامت تک خوش نصیب افراد ”غزوہ بدر“ کے موتی چنتے اور لکھتے رہیں گے...”غزوہ بدر“ جس رمضان المبارک کے مہینے میں ہوا تھا...وہ ”رمضان“ بھی آج کل کی طرح ”مارچ“ کے مہینے میں آیا تھا...اس لئے غزوہ بدر کی تاریخ یوں بنتی ہے.....

”۱۷ رمضان ۲ھ بمطابق 13 مارچ 624ء“

اہل علم نے لکھا ہے کہ.....غزوہ بدر میں مسلمانوں کے لئے بہت سے اسباق ہیں...بہت سے اشارات ہیں...اور بہت سی نشانیاں ہیں...”غزوہ بدر“ کے اہم ترین اسباق میں سے ایک سبق ”توکل علی اللہ“ ہے...یعنی اللہ تعالی کی طاقت اور نصرت کا یقین دل میں بھر لو.....اور پھر اس کی برکت سے اللہ تعالی کی نصرت حاصل کر لو...

”عسکری ماہرین“ کے مطابق غزوہ بدر میں مشرکین کی فتح کے امکانات سو فیصد تھے...جبکہ مسلمانوں کی فتح کے امکانات ایک فیصد بھی نہیں تھے...ایک یا دو گھوڑے...ایک سو گھوڑوں کے مقابلے میں کیا کر سکتے ہیں؟...مسلمانوں کے لشکر کی تعداد دشمنوں کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھی...اور یہ تین سو تیرہ مسلمان بھی مکمل طور پر مسلّح نہیں تھے.....وہ چاہتے تو قریشی قافلے کے نکلنے کی خبر سن کر واپس ”مدینہ منورہ“ آجاتے...مگر انہوں نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا اور اللہ تعالی نے ان کی ایسی لاج رکھی کہ...”مجاہدین بدر“ زمین و آسمان میں...دنیا و آخرت میں...اور دل و جان میں محبت اور عظمت کا تابندہ نشان بن گئے.....دنیا میں نہ کوئی بزدل باقی رہتا ہے نہ کوئی بہادر...ہر کوئی یہاں سے اپنے اپنے وقت پر چلا جاتا ہے...مگر ”اہل توکل“ بہادر...ہر جگہ زندہ رہتے ہیں...آج کل ہم اسی محبوب صفت یعنی ”توکل علی اللہ“ کی تلاش میں قرآن مجید کی ”آیات توکل“ پڑھ رہے ہیں...صیغہ ”توکلنا“ کی دو آیات ہو چکی ہیں...تیسری آنے والی تھی کہ غزوہ بدر کی تاریخ آگئی...اور یوں ”توکل“ کے ساتھ ”اہل توکل“ کا تذکرہ بھی نصیب ہو گیا...بے شک جو اللہ تعالی پر جتنا ”یقین“ اور ”توکل“ کرتا ہے...وہ اسیقدر اللہ تعالی کی نصرت اور مدد پاتا ہے...”مبارک مہم“ کے ”مقابلہ بدر“ میں کامیابی کے لئے اسی اصول کو یاد رکھیں...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مغلوب مسلمانوں کے لئے تحفہ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..
اللہ تعالی ہمیں اپنے ”عذاب“ سے بچائیں...عظیم دعاء (رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ) کا ایک مفہوم تو ہم نے گزشتہ مکتوبات میں پڑھ لیا...اس کا دوسرا مفہوم حضرت امام مجاہد رحمہ اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا ہے:
”لاَ تُعَذِّبْنَا بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِکَ“
یا اللہ ہمیں اپنی طرف سے کسی عذاب میں مبتلا نہ فرمائیں
”فَیَقُوْلُ قَوْمُ فِرْعَوْنَ لَوْ کَانُوْا عَلَی الْحَقِّ لَمَا عُذِّبُوْا“
کہ پھر فرعون اور اس کی قوم والے یہ کہیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ان پر عذاب نہ آتا
”وَیَظُنُّوْا اَنَّھُمْ خَیْرٌ مِّنَّا فَیَفْتَتِنُوْا“
اور وہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بہتر ہیں چنانچہ وہ فتنے میں پڑ جائیں..یعنی اپنے کفر اور ظلم پر پکے ہو جائیں...امام مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول تفسیر ابن کثیر اور بغوی وغیرہ میں موجود ہے...اب دونوں اقوال ہمارے سامنے آگئے تو دعاء کا مفہوم ایک بار پھر دہرا لیتے ہیں:-
”عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ“
(مفہوم) ہم نے اللہ تعالی ہی کو اپنا کارساز بنا لیا ہے...ہم نے ہر خوف اور ہر وسوسہ دل سے نکال کر اللہ تعالی کی طاقت، مدد اور نصرت کا یقین دل میں بھر لیا ہے...اے ہمارے رب ہم پر اس ظالم قوم کو ایسا مسلط نہ فرما کہ وہ ہمیں تختۂ مشق بنا لیں اور ہماری مظلومیت اور بے بسی اور اپنے زور کو دیکھ کر خود کو مکمل برحق سمجھنے لگیں (جیسا کہ آج کل انڈیا کے متعصب ہندو سمجھ رہے ہیں)...اور یا اللہ ہمیں اپنی طرف سے بھی کسی عذاب اور مصیبت میں ایسا مبتلا نہ فرما...کہ ہماری حالت دیکھ کر کافر خود کو افضل، بہتر اور برحق سمجھنے لگیں اور اسلام قبول کرنے کا خیال ہی ان کے دل سے نکل جائے...اور یا اللہ ہمیں ان کافروں کی حکومت اور غلبے سے نجات عطاء فرما......
کاش ہندوستان، کشمیر اور برما کے مسلمان...اور باقی ساری دنیا کے مغلوب مسلمان اس قرآنی، معجزاتی، کراماتی دعاء کو سمجھیں...اپنائیں اور اس دعاء میں موجود سوچ، فکر اور جذبے کو اپنے اندر لائیں...تب اس دعاء کی قوت اور برکت ان کو نصیب ہوگی...اہل فلسطین اس دعاء کے بہت قریب ہیں...انہوں نے اس دعاء کی پہلی منزل یعنی ”توکل“ کو اختیار کر رکھا ہے...باقی دعاء بھی ان کے حق میں اللہ تعالی قبول فرمائیں...
کاش مسلمانوں کے دل میں....جذبہ آزادی پیدا ہو...وہ اسلام کے غلبے کی محنت کریں...اور کسی بھی جگہ کفر اور شرک کی حکومت اور اقتدار کو برداشت نہ کریں....تب یہ دعاء بھی موجود ہے اور اس کے پیچھے نصرت اور غلبہ بھی...
والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

حالات کی گھڑی

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں...ہدایت عطاء فرماتے ہیں...

ہمارے دین میں کسی کو زبردستی ”مسلمان“ کرنے کی اجازت نہیں ہے...اور ”زبردستی“ والا اسلام اللہ تعالی کے ہاں قبول بھی نہیں ہے...ایمان اور اسلام تو ہوتا ہی وہی ہے جو دل کی تصدیق اور خوشی سے قبول کیا جائے...دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے دل میں...ہدایت اور گمراہی دونوں کی صلاحیت رکھی ہے...اس لئے دنیا کے ہر کافر کے دل میں اپنے کفر پر بے چینی اور اسلام کی طرف کچھ نہ کچھ کشش ضرور موجود ہوتی ہے...پھر اگر مسلمان طاقتور ہوں...غالب ہوں...اور اسلام کے عادلانہ نظام کو نافذ کرتے ہوں تو ”کفار“ کی...اسلام کی جانب کشش بہت بڑھ جاتی ہے...اور وہ فوج در فوج مسلمان ہوتے ہیں...لیکن اگر مسلمان کمزور، مغلوب اور نعوذباللہ حقیر سمجھے جاتے ہوں تو...کفار کے دل سے اسلام کی کشش کم ہو جاتی ہے...

فرعون اور اس کے حواری ”بنی اسرائیل“ پر ہر ستم ڈھا رہے تھے...وہ گھروں میں گھستے...بچوں کو اٹھاتے...اور ماں باپ کے سامنے انہیں مرغیوں کی طرح ذبح کر کے پھینک جاتے...وہ بچیوں کو چھانٹتے اور گھر کی نوکری کے لئے ساتھ لے جاتے...اس دوران انہیں نہ کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا...اور نہ بنی اسرائیل میں کوئی غصے یا انتقام کی بات کرتا...اور یوں فرعون اور اس کے حواری خود کو خدا اور برحق سمجھنے لگے...اب جو بنی اسرائیل کے افراد مسلمان ہوئے تو انہوں نے.....اپنا دل بدل لیا...دل میں خوف کی جگہ ”توکل“ کو بھر لیا...اور انجام سے بے فکر..ہو کر...اسلام پر پکے رہنے کا عزم کر لیا...اور انہوں نے اللہ تعالی سے دعاء مانگی کہ یا اللہ...اپنی طاقت پر یقین عطاء فرما اور ہمیں اتنا کمزور، بے حوصلہ اور بے بس نہ فرما کہ...یہ ظالم اپنے ظلم اور کفر کو ”حق“ سمجھنے لگ جائیں...اور یا اللہ ہمیں ان سے نجات عطاء فرما.......”توکل“ آگیا...توکل کے ساتھ دعاء بھی آگئی تو اب حالات کی گھڑی نے الٹا چلنا شروع کر دیا....فرعونی کمزور ہونے لگے اور بنی اسرائیل کو طاقت ملنے لگی...ہمت ملنے لگی...اور پھر وہ دن آگیا کہ انہوں نے ہجرت کی ہمت کر ڈالی...اور اپنے دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موت کے منہ میں پہنچا دیا...

خلاصہ یہ ہوا کہ...”ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا“ کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ہمیں کافروں کے لئے تختۂ مشق نہ بنا...ہمیں کافروں کے لئے نشانۂ ستم نہ بنا...ہمیں کافروں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنا.....اور ایسا تب ہوتا ہے جب مسلمان...قوت کے ساتھ ساتھ ہمت بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں...تو اس دعاء میں اللہ تعالی سے قوت بھی مانگی گئی ہے اور ہمت بھی....دعاء کی مزید تشریح اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مسلمان کی کمزوری کا نقصان

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں ظالموں کے لئے ”فتنہ“ نہ بنائیں...اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ قرآن مجید کی معجزاتی، کراماتی دعاء میں بھی یہی الفاظ ہیں...آج ہم اس دعاء کا ترجمہ اور مفہوم سمجھنے کی کوشش کریں گے..........

عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا o رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْن o وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ...

(عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا) اس کا مفہوم تو بیان ہو چکا ہے کہ ہم نے اللہ تعالی ہی پر بھروسہ کیا ہے...

(رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ) اے ہمارے رب نہ بنا ہمیں ”فتنہ“ ظالم قوم کے لئے...

مطلب اس کا یہ ہے کہ...یا اللہ ہمیں ظالموں کے سامنے ایسا بے بس اور کمزور نہ بنا کہ وہ ہمارے ساتھ جو چاہیں کرتے رہیں...اگر آپ نے ہمیں ظالموں کے سامنے بے بس فرما دیا تو ان ظالموں کو یقین ہو جائے گا کہ وہ برحق ہیں...اس طرح وہ اپنے کفر اور اپنے ظلم پر پکے ہو جائیں گے...اور کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے....یہ ہے ظالموں کا فتنے میں پڑنا...کہ انہیں اپنے کفر اور ظلم پر  ایسا اطمینان ہو جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کا سوچیں بھی نہ...دراصل مسلمان اہل حق جب کمزور ہوتے ہیں تو انکی اس کمزوری کا انہیں تو نقصان ہوتا ہی ہے...مگر کافروں کو بھی نقصان ہوتا ہے کہ...وہ کثرت کے ساتھ مسلمان ہونا چھوڑ دیتے ہیں...اس کے برعکس جب مسلمان مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں تو...کفار بہت کثرت سے مسلمان ہوتے ہیں...اور جہنم کی آگ سے بچتے ہیں...قرآن مجید کی سورہ ”النصر“ پڑھ لیجئے...اس میں یہی بتایا گیا کہ جب اللہ تعالی کی مدد اور فتح مسلمانوں کو ملتی ہے تو وہ دیکھتے ہیں کہ...کفار فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں...اسیطرح حدیث صحیح میں آیا ہے کہ...اللہ تعالی ان لوگوں پر بہت خوش ہوتے ہیں جو زنجیروں میں باندھ کر جنت میں ڈالے جائیں گے...مطلب یہ کہ وہ کفار جو مسلمانوں کی طاقت دیکھ کر پہلے مجبوراً مسلمان ہوئے...پھر اسلام میں آکر ان کو اخلاص اور حقیقی اسلام بھی نصیب ہو گیا.......مگر ان کے آنے کا آغاز بظاہر مسلمانوں کی قوت کی وجہ سے ہوا تو گویا کہ وہ........زنجیروں میں باندھ کر کامیابی اور جنت میں لائے گئے.......دراصل فتح اور فتوحات کی بڑی برکات ہوتی ہیں...جہاد افغانستان کے حالات و واقعات دیکھ  اور سن کر...امریکہ اور یورپ میں تیس ہزار سے زائد افراد مسلمان ہوئے...اور اب اہل فلسطین کی ہمت، جرأت اور توکل کو دیکھ کر روزانہ کئی افراد دین اسلام قبول کر رہے ہیں...اور دائمی عذاب اور خسارے سے بچ رہے ہیں...کراماتی دعاء کی باقی تشریح اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مُشَاھَدہْ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کے حکم سے...حضرت سیدنا موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے...اپنے صحابہ کرام کو ”توکل“ کی ترغیب دی...ایمان والوں نے یہ ترغیب مان لی اور اعلان کر دیا.......

”عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا“

کہ ہم نے اللہ تعالی کو اپنا وکیل اور کارساز بنا لیا ہے...ہم نے اللہ تعالی پر بھروسہ کر لیا ہے...ہم نے فرعون اور اس کی طاقت کا خوف اپنے دل سے نکال دیا ہے...

”عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا“

اب ہماری نظر اللہ تعالی کی طاقت اور قدرت پر ہے...اور ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالی پر ہے...اور اب ہم فرعون سے ”بے خوف“ ہو چکے ہیں...

”عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا“

بندہ جب مکمل یقین کے ساتھ...اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے...تو اس کے دل سے دشمن کا خوف نکل جاتا ہے...دل سے دشمن کا خوف نکلتا ہے تو وہ دشمن خود بخود کمزور ہونے لگتا ہے...یہ اللہ تعالی کا غیبی اور تکوینی نظام ہے کہ...دشمن کو ہمارے ”خوف“ سے طاقت ملتی ہے...ہم دشمن سے ڈرنا چھوڑ دیں تو وہ کمزور ہونے لگتا ہے...اور بالآخر مغلوب ہو جاتا ہے.....

بنی اسرائیل نے ”توکل“ کی دعاء ان الفاظ میں مانگی؛

عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ (یونس ۸٦،٨٥)

ترجمہ: ہم نے اللہ تعالی ہی پر ”توکل“ کیا ہے...اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے لئے فتنہ (یعنی امتحان) نہ بنا...اور اپنی رحمت کے ذریعہ ہمیں کافروں سے نجات عطاء فرما.........

یہ وہ دعاء ہے جو عجیب کراماتی تأثیر رکھتی ہے...اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس دعاء کی تأثیر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سعادت بخشی...ایک وقت تھا مشرکین کے مظالم تھے...بڑی سخت بے بسی اور مظلومیت تھی...توجہ اس دعاء کی طرف ہوئی...اور پھر یہ ”ورد“ بن گئی...تب حالات بدلنا شروع ہوئے...ظالموں کی شدت اور غلبہ کم ہونے لگا...پھر کم ہوتے ہوتے...ایسا ختم ہوا کہ وہ مغلوب اور مجبور ہو گئے...اور مظلوم قیدی ان کی جھکی گردن دیکھ کر مسکراتے ہوئے.....جہاز سے اسلامی سرزمین پر اتر گئے.....

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

”توکل“ بہادروں کا شیوہ ہے

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی پر ”توکل“ آسان کام نہیں ہے...خصوصاً اس وقت جب کہ ”اسباب“ بالکل موجود ہی نہ ہوں...دور دور تک اندھیرا...دور دور تک مایوسی...مصر میں فرعون کی طاقتور حکومت قائم تھی...فرعون خود بہت مضبوط اور صحتمند انسان تھا...اس فرعونی ریاست کے پاس نہ وسائل کی کمی تھی نہ افراد کی...ان کی فوج اتنی بڑی اور اسقدر مسلح تھی کہ وہ...چھ لاکھ بنی اسرائیل کو نہایت حقارت سے:-

”شِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَ“

یعنی ”مٹھی بھر لوگ“ کہہ رہے تھے...اس ریاست میں فرعون صرف بادشاہ ہی نہیں مانا جاتا تھا بلکہ اسے (نعوذ باللہ) خدا کا درجہ دیا جاتا تھا...اس کی باقاعدہ عبادت ہوتی تھی...اور اسے سجدے کئے جاتے تھے...اس لئے اس کی حکومت کو کسی ”بغاوت“ کا بھی کوئی خطرہ نہیں تھا...اور خود فرعون کی وجاہت اور ذہانت کا یہ عالم تھا کہ جس مجلس میں وہ بیٹھتا تو باقی سب لوگ خود کو اس کے مقابلے میں واقعی حقیر اور ہلکا سمجھنے پر مجبور ہو جاتے...اللہ تعالی کی دی ہوئی ان صلاحیتوں کو اس بد نصیب نے غلط استعمال کیا اور نعرہ لگا دیا کہ میں ہی (نعوذ باللہ) تمہارا بڑا رب ہوں........اب ان حالات میں ”بنی اسرائیل“ کے مسلمان نوجوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ......اللہ تعالی پر بھروسہ کرو...یعنی اللہ تعالی پر اس بات کا یقین رکھو کہ وہ تمہیں فرعون سے نجات عطاء فرمائے گا...اور فرعون کی طاقت کو تباہ و برباد فرمائے گا...اور اس یقین کی بنیاد پر دین میں مضبوط رہو...کیا اپنے دل کو اس ”یقین“ پر لانا آسان کام تھا؟ نہیں بالکل نہیں...اسی لئے تو ”توکل“ باب ”تفعّل“ سے ہے کہ...بہت زور لگا کر اور بہت محنت و تکلف کر کے دل کو یقین پر لایا جاتا ہے...

”توکل“ آسان کام ہوتا تو.....ترکی کی طاقتور فوج اسرائیل پر حملہ کر چکی ہوتی...اتنے پڑوس میں تیس ہزار مسلمان ذبح ہو گئے...مگر اندیشوں اور وسوسوں نے ہر مسلمان حکمران کو ایسا گھیرا ہوا ہے کہ...گویا اس نے کبھی ”کلمہ طیبہ“ پڑھا ہی نہیں...یا نعوذ باللہ اسرائیل کی طاقت...اللہ تعالی کی طاقت سے بڑھ چکی ہے...پاکستان جیسا ملک جس کے پاس ایٹم بم اور لاکھوں فوج....اور لاکھوں غیور عوام ہیں...اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا...اسی لئے کسی شاعر نے بالکل درست کہا...

”توکل“ نر بود اندیشہ مادہ

چرا غم مے خواری اے مرد سادہ

”توکل“ نر ہوتا ہے...اور اندیشہ مادہ...اے سادہ انسان کیوں فکر میں گھلے جا رہے ہیں...مردوں کی طرح اللہ تعالی پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے...کاش آج کوئی ایک اسلامی ملک اللہ تعالی پر ”توکل“ کر لیتا...اور اسرائیل کی طرف پہلی گولی چلا دیتا...یقین جانیں دنیا ہی بدل جاتی...مگر یہاں تو سب حکومتیں......اپنے فلسطینی بھائیوں کو صرف ”کفن“ بھیج کر فخر کر رہی ہیں...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله