بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

”توکل“ خلیل اللہ کی صفت

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کے ”خلیل“ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام...اور آپ کے ”صحابہ کرام“ نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا...اور اللہ تعالی پر ”توکل“ کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے...چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام...اور آپ کے صحابہ کرام ان مقامات پر کامیاب ہوئے جہاں بظاہر کامیابی ناممکن تھی......قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنا ”خلیل“ بنایا...”خلیل“ کہتے ہیں خاص ترین دوست کو...وہ دوست جو ”محبت“ کے سب سے اونچے درجے پر ہو...

حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:-

ان اللہ اتخذنی خلیلاً کما اتخذ ابراہیم خلیلاً (صحیح مسلم)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے مجھے بھی ویسے ہی اپنا ”خلیل“ بنایا..جیسے اس نے ابراہیم کو خلیل بنایا...

”عمدۃ القاری“ میں ہے:

”خلیل اللہ“ وہ ہے جو تمام دنیا سے کٹ کر اللہ جل شانہ کی طرف ہو جائے...اور وہ اپنی تمام حاجات صرف اور صرف اللہ تعالی کے حضور پیش کرتا ہو...

امام نووی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

”الخلیل معناہ المحب الکامل“

یعنی ”خلیل“ کا معنی ہے کامل محبت کرنے والا...ایسی محبت جسمیں محب اور محبوب دونوں کی طرف سے کوئی کمی نہ ہو...

شیخ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

”خلیل وہ ہے جو اپنے دل میں محبوب کے سوا کسی کو جگہ نہ دے“...

علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل

ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

صیغہ ”تَوَكَّلْنَا“ کی تیسری آیت.....سورہ الممتحنہ میں ہے جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کرام....اپنی کافر قوم اور رشتہ داروں کے مقابلے میں ”ایمان“ کا علم تھامے اعلان کر رہے ہیں:-

”رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ“

اے ہمارے رب ہم نے آپ ہی پر ”توکل“ کیا ہے اور ہم آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمارا لوٹنا ہے...مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن مرحبا!

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله