بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

تَوَكَّلْتُ....تَوَكَّلْنَا

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی پر ہم نے بھروسہ کیا...اردو کے اس جملے کو ”عربی“ میں بولنا ہو تو کہیں گے”تَوَكَّلْنَا“...یہ جمع متکلم کا صیغہ ہے...اور قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے...اور یہ چاروں مقامات...”توکّل“ کی چار دعائیں ہیں...

بے انتہا مؤثر اور طاقتور دعائیں...کیونکہ ہم جب کہتے ہیں”تَوَكَّلْنَا“ کہ ہم نے اللہ تعالی پر ”توکّل“ کیا تو دراصل...یہ ہم اللہ تعالی سے مدد مانگ رہے ہوتے ہیں...ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یا اللہ میں تو کمزور اور بے بس ہوں...مگر آپ میرا سہارا ہیں...مجھے نہ اپنی طاقت پر بھروسہ ہے...نہ اپنی سمجھ اور فراست پر...میرا اعتماد اور بھروسہ صرف آپ پر ہے...اگر اکیلا آدمی کہے کہ میں نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا تو اس کے لئے...عربی میں ”تَوَكَّلْتُ“ آئے گا...جو کہ قرآن مجید میں سات جگہ پر آیا ہے...اس بار ہماری مہم میں جو ”دعاء“ چل رہی ہے اسمیں بھی ”تَوَكَّلْتُ“ کا لفظ ہے...

”بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله“

خلاصہ یہ ہوا کہ اگر اپنے اور اپنے رفقاء کے لئے دعاء کرنی ہو تو کہیں گے ”تَوَكَّلْنَا“ اور صرف اپنے لئے کرنی ہو تو کہیں گے ”تَوَكَّلْتُ“......

ہم پہلے ”تَوَكَّلْنَا“ والی چار آیات پر بات کریں گے...اس کے بعد ان شاءاللہ ”تَوَكَّلْتُ“ والی سات آیات پر...کوئی سوچ سکتا ہے کہ ”تَوَكَّلْنَا“ میں تو اطلاع ہے اور اعلان ہے کہ ہم نے ”توکل“ کیا...اس میں کچھ مانگا نہیں گیا تو پھر یہ دعاء کیسے بن گئی...

اس کا آسان جواب ایک مثال سے سمجھیں...آپ پر اچانک کوئی کام آ پڑا...کوئی پریشانی آگری...اب دل پریشان...ذہن پریشان...پریشانی اتنی کہ بخار ہو گیا...دل دھڑکنے لگا کہ یہ کیسے ہو گا...اچانک آپ کو خیال آیا کہ...اللہ تعالی موجود ہے...وہ کارساز ہے...پہلے بھی ہر کام اللہ تعالی نے ہی کرایا ہے...بس اب آپ نے اس خیال کو مضبوط کرنا شروع کیا اور فوراً کہا...تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ...میں نے اللہ تعالی پر بھروسہ کر لیا ہے...بس اسی وقت بخار ختم، دل کی حالت تبدیل...اور کام کے اسباب بننا شروع...یعنی ”تَوَكَّلْتُ“ یا ”تَوَكَّلْنَا“ کہہ کر ہم نے اللہ تعالی سے مدد مانگ لی...اور اپنا کام ان کے سپرد کر دیا...اور ان کو اپنے کام کا ”وکیل“ بنا دیا...”وکیل“ یعنی کام بنانے والا کارساز...اس بارے پہلے ایک مکتوب میں تفصیل آچکی ہے...اب ”تَوَكَّلْنَا“ والی چار آیات کا بیان ہوگا ان شاءاللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

دھمکیوں کے جواب میں

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی نے اپنے نبی...حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو...کمال درجے کی فصاحت عطاء فرمائی تھی...اسی لئے حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ”خطیب الانبیاء“ بھی کہا جاتا ہے...قرآن مجید میں بتایا گیا کہ...حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ”اہل مدین“ کی طرف بھیجا گیا...

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا (الاعراف ۸۵)

جب کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آپ کی قوم کا نام ”اصحاب ایکہ“ مذکور ہے...اب سؤال یہ ہے کہ ”اصحاب مدین“ اور ”اصحاب ایکہ“ ایک ہی قوم ہیں..یا الگ الگ دو قومیں ہیں؟...یہ ایک تفسیری بحث ہے جسے فی الحال چھوڑ دیتے ہیں...

یہ ایک قوم یا دونوں قومیں....سرمایہ کاری کے جنون میں مبتلا تھیں...تجارتی خیانت...تجارتی حیلے...ناپ تول میں کمی...اور مال جمع کرنے کا حد سے بڑھا ہوا جنون......

ان کی تجارتی ذہنیت آج کل کے سرمایہ داروں سے ملتی جلتی تھی...اور مال جمع کرنا ہی ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی تھی....ایکطرف ان کا کفر...اور دوسری طرف مال سے ان کی بے حد محبت...ان دو خرابیوں نے جمع ہو کر ان کو ”حیوان“ بنا دیا تھا...حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو توحید کی دعوت دی...اور تجارت میں امانت داری کی بھی تلقین فرمائی...قوم کے لوگ کافر تھے...سرمایہ دار تھے...اور گردن تک مال کی محبت میں دھنسے ہوئے تھے...انہوں نے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیا...اس دوران چند خوش قسمت افراد نے دل کے کانوں سے نبی کی بات سنی اور ایمان قبول کر لیا...تب قوم کی کافر، سرمایہ دار اشرافیہ دلیل چھوڑ کر...طاقت آزمانے پر اتر آئی...انہوں نے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ پر ایمان لانے والے افراد کو دھمکی دی...

لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا (الاعراف ۸۸)

ترجمہ: اے شعیب ہم آپ کو اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکال دیں گے یا یہ کہ آپ سب لوگ واپس ہمارے دین پر آجاؤ...

تب حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ”نعرۂ توکّل“ بلند فرمایا...

”عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا“

اس کا بیان اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

نظریہ......اور.....معاملہ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی مسلمانوں کو یقین اور ”توکل“ کے ذریعہ کامیاب فرماتے ہیں...مکہ مکرمہ میں مسلمانوں نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا ہجرت پر نکلے...اللہ تعالی نے ان کو ”مدینہ منورہ“ عطاء فرما دیا...پھر انہوں نے اللہ تعالی پر یقین اور توکل کیا ”جہاد“ پر نکلے تو پورے جزیرۃ العرب کا نقشہ پلٹ گیا....مکہ کے حاکم کفار....ذلیل و ناکام ہو گئے...مدینہ منورہ کی منافق اشرافیہ ذلیل و رسوا ہو گئی...زمانہ دراز سے لوگوں کو اپنے مال سے غلام بنانے اور آپسمیں لڑوانے والے یہودی...ذلیل و رسوا ہو گئے...پورے ملک عرب میں اسلام چھا گیا...مسلمان غالب آگئے...

اگر یہ مسلمان زمانے کے حالات دیکھتے رہتے...دنیا کے ساتھ چلنے کی باتیں کرتے رہتے...کفر کی حکومت میں اپنے لئے عافیت کے گوشے ڈھونڈتے رہتے تو اسلام آگے نہ بڑھتا...مسلمان غالب نہ ہوتے...انہوں نے کفار و منافقین سے دشمنی مول لی...اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا...اللہ تعالی پر کامل یقین اور بھروسہ کیا...اور اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل اعتبار کیا...تب مکہ مکرمہ بھی واپس مل گیا...اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف تیس سال میں...اسلام دنیا پر چھا گیا...اور مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئے...خلاصہ ان مبارک آیات کا یہ ہوا کہ...کفار کو کبھی کامیاب نہیں سمجھنا...کفار کی کبھی فرمانبرداری نہیں کرنا...منافقین کے ستانے سے اپنا دین اور جہاد نہیں چھوڑنا...کفار و منافقین کی ظاہری ترقی دیکھ کر کبھی مرعوب اور متاثر نہیں ہونا...یہ تو ہوا نظریہ اور عقیدہ...باقی رہا کفار کے ساتھ معاملہ تو وہ حالات کے تحت مختلف ہوگا...جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں...گستاخیاں کرتے ہیں...سازشیں اور شرارتیں کرتے ہیں تو ان سے سخت نفرت اور دشمنی رکھنی لازمی ہوگی...جو کفارمسلمانوں سے  نہیں لڑتے کوئی اور شرارت یا سازش بھی نہیں کرتے تو ان کے ساتھ حسن سلوک اس نیت سے ہوگا کہ وہ اسلام قبول کر لیں...جو کافر طاقتور ہیں، مالدار ہیں...ان کے سامنے مستغنی، باعزت اور باوقار رہنا ہوگا...جو غریب ہیں اور مسلمانوں کے لئے بےضرر ہیں ان کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرنا ہوگا تاکہ وہ...کفر کی ذلت و ناکامی سے نکل کر اسلام کی عزت اور کامیابی میں آجائیں....اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ”توکل“ کی عظیم نعمت نصیب فرمائیں...حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ”سراپا توکل“ تھے...پھر بھی قرآن میں ان کو بار بار ”توکل“ کی یاددہانی کرائی جا رہی ہے...جبکہ ایک ہم ہیں...شاید ”توکل“ کی خوشبو سے بھی محروم...

(گزارش) الحمدللہ”تَوَكَّلُوْۤا“ اور ”تَوَکَّل٘“....دو صیغوں کی آیات مکمل ہو گئیں...اگلے مکتوب سے ان شاءاللہ ”تَوَكَّلْنَا“ کی آیات پر بات ہوگی...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

بھروسہ کے لائق صرف اللہ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ (المؤمنون ۱۱۷)

ترجمہ: یہ پکی اور یقینی بات ہے کہ کافر کامیاب نہیں ہوتے...

اور ارشاد باری تعالی ہے:-

فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ (البقرہ ۸۹)

ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہے کافروں پر...

قرآن مجید میں اس موضوع کی آیات سینکڑوں کی تعداد میں ہیں...پھر اللہ تعالی نے ان مسلمانوں کی تعریف فرمائی ہے جو کفار سے لڑتے ہیں...یا ان کے بارے میں سخت ہیں...اب اتنی آیات کے بعد بھی مسلمان اگر کافروں اور منافقوں سے یاریاں کریں...ان کو اپنا آئیڈیل سمجھیں...ان کو ”معزز“ سمجھیں...ان کو ”فرسٹ ورلڈ“ قرار دیں...تو یہ سب بہت خسارے کی بات ہے...بے شک اللہ تعالی کافروں کو دنیا میں طاقت، عیش اور قوت دیتے ہیں...مگر انہیں عزت، بقاء اور کامیابی نہیں دیتے...جبکہ مسلمانوں کو دنیا میں ”یقین“ اور ”توکل“ عطاء فرماتے ہیں...اور ”توکل“ کی طاقت سے مسلمان دنیا پر بھی چھا جاتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتے ہیں...سورہ احزاب کی ”توکل“ والی دو آیات پر ”تفسیر عثمانی“ کی تقریر ملاحظہ کریں:-

یعنی جیسے اب تک معمول رہا ہے...آئندہ بھی ہمیشہ ایک اللہ سے ڈرتے رہیے...اور کافروں اور منافقوں کا کبھی کہا نہ مانئے...یہ سب مل کر خواہ کتنا ہی بڑا جتھا (یعنی اتحادی لشکر، عسکری، مالی، سیاسی اتحاد) بنالیں، سازشیں کریں، جھوٹے مطالبات منوانا چاہیں... عیارانہ مشورے دیں، اپنی طرف جھکانا چاہیں...آپ اصلاً پروا نہ کیجئے اور اللہ تعالی کے سوا کسی کا ڈر پاس نہ آنے دیجئے...اسی اکیلے پروردگار کی بات مانیے...اسی کے آگے جھکیے خواہ ساری مخلوق اکٹھی ہو کر  آجائے...اس کے خلاف ہرگز کسی کی بات نہ سنیں...جب تم اس کے حکم پر چلتے رہو گے اور اسی پر بھروسہ رکھو گے...تمہارے سارے کام اپنی قدرت سے بنا دے گا...تنہا اسی کی ذات بھروسہ کرنے کے لائق ہے...حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں...کافر چاہتے تھے اپنی طرف نرم کرنا اور منافق چاہتے تھے اپنی چال سکھانا اور پیغمبر کو صرف اللہ پر بھروسہ ہے... اس سے زیادہ دانا کون؟...(تفسیر عثمانی)

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

کوئی کافر کامیاب نہیں

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی قسمیں کھا کر بتاتے ہیں کہ...قیامت ضرور آئے گی...آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے...دنیا فانی ہے...دنیا کی زندگی دھوکے کا گھر ہے...اور ایمان والوں کو آخرت میں دائمی نعمتیں ملیں گی...مگر اپنے رب کے بار بار فرمانے اور سمجھانے کے باوجود...ہمارے دلوں سے نہ دنیا نکلتی ہے...اور نہ آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے...روز جنازے اٹھتے ہیں...قبرستانوں میں جگہ تنگ پڑ گئی ہے...اخبار کے ایک ایک صفحے پر روز سینکڑوں افراد کے مرنے کی خبر ہوتی ہے...مگر مجال ہے کہ ہم پر اس کا کچھ اثر ہو اور ہم اپنے دنیا کے منصوبے کم کر کے آخرت کی تیاری اور فکر کریں...

اب دنیا میں اللہ تعالی کا قانون یہ ہے کہ...دنیا آخرت کے مقابلے میں بالکل بے قیمت اور بے قدر ہے...دنیا کی قیمت اللہ تعالی کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالی یہاں کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ دیتے...مگر چونکہ دنیا بے قیمت ہے، بے قدر ہے تو یہ کافروں کو زیادہ ملتی ہے.....ان کے لئے آخرت میں سوائے عذاب کے کچھ نہیں تو دنیا میں وہ عیش و عشرت پاتے ہیں...جو کہ...آخرت کی زندگی کے مقابلے میں چند منٹ کے بھی نہیں...لیکن مسلمانوں میں سے جو لوگ اللہ تعالی پر کامل یقین اور توکل نہیں رکھتے وہ.......کافروں کے ظاہری عیش و آرام کو دیکھ کر انہیں کامیاب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں...جب وہ انہیں کامیاب سمجھتے ہیں تو پھر ان کی باتوں کو بھی مانتے ہیں...اور یوں وہ دین اسلام کی برکتوں اور بلندیوں سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں...کافروں کے پاس تو ہر زمانے میں دنیا بہت ہوتی ہے...حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے...دنیا کی ساری حکومت اور دولت کافروں کے پاس تھی...صرف چند غریب افراد حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے...مگر اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہی چند افراد.....کامیاب تھے...اب بھی کامیابی میں ہیں...اور آخرت میں دائمی کامیابی پائیں گے...جبکہ اہل حکومت، اہل دولت کافر ناکام تھے...ناکام مرے...ناکام پڑے ہیں...اور دائمی ناکامی میں گریں گے...چنانچہ کسی مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ کسی بھی کافر کو کبھی کامیاب سمجھے...یا اس سے متاثر ہو...یا اس کے طور طریقوں کو اپنائے...یا دین کے بارے میں اس کی باتوں کو مانے....

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مسلمانوں کو ضروری ہدایت

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

(1) وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا (الاحزاب ۳)

ترجمہ: اور (اے محبوب نبی) آپ بھروسہ رکھیں اللہ تعالی پر اور اللہ تعالی کافی ہے کام بنانے والا......

(۲) وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا (الاحزاب ٤٨)

ترجمہ: اور آپ کہنا نہ مانیے منکروں کا اور دغا بازوں کا اور پروا نہ کیجئے ان کے ستانے کی...اور اللہ تعالی ہی پر بھروسہ کیجئے اور اللہ تعالی اس کے لئے کافی ہیں کہ اپنے سارے معاملات ان کے سپرد کئے جائیں......

(گزارش) آپ سب سے عاجزانہ اور درد مندانہ گزارش ہے کہ...ان دو آیات پر اچھی طرح غور کریں...ان کو سمجھیں...اور ان کو اپنے دل کا نظریہ بنائیں...کیونکہ آج امت مسلمہ کی اکثریت ان آیات پر عمل چھوڑ چکی ہے...اور اب تو ایسے طبقے بھی وجود میں آچکے ہیں جو مسلمانوں کو باقاعدہ کفار اور منافقین کی فرمانبرداری کی دعوت دیتے ہیں....

(سمجھنے کا طریقہ) ان دونوں آیات کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دونوں آیات کے سیاق و سباق کو دیکھیں...یعنی ان سے پہلے اور بعد والی چند آیات بھی ساتھ پڑھیں...حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی کافروں اور منافقوں کی بات ماننے والے نہیں تھے...دراصل یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے امت کو دیا جا رہا ہے...اور اس حکم میں مسلمانوں کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے...آج جو امت پر ہر طرح سے زوال نظر آرہا ہے...اسکی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ کافروں اور منافقوں کی سنی جا رہی ہے، مانی جا رہی ہے...اور اللہ تعالی پر توکل اور بھروسے کا نام و نشان نہیں ہے...کافروں کو ہی سب کچھ سمجھا جا رہا ہے (نعوذباللہ)

(ہم کیا کر سکتے ہیں؟) لوگ پوچھتے ہیں کہ اب تو کفار غالب آچکے ہیں...اور دنیا میں اپنا قانون نافذ کر چکے ہیں...ساری دنیا ان کی اور ان کے مالیاتی اداروں کی غلام ہے تو ہم اکیلے کیا کر سکتے ہیں؟...جواب یہی ہے کہ...ہم اپنے دل و دماغ سے کفار کی طاقت کا رعب نکالیں...اللہ تعالی کی قدرت اور طاقت کا یقین دل میں بھریں...اور اللہ تعالی پر یقین اور بھروسہ رکھتے ہوئے...کفر کی غلامی سے نکلنے کا سلسلہ شروع کریں...تب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ...طاقت کچھ نہیں تھی صرف شیطانی رعب اور ھوّا تھا...جبکہ اصل قدرت و طاقت اللہ تعالی کی ہے...مگر اس قدرت کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو اس پر یقین اور توکل رکھتے ہیں...ان دو آیات کی باقی تفسیر اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ...مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن مرحبا!

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

ثمرات

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی پر ”توکل“ کرنا...اس وقت جب مقابلہ کفار اور منافقین سے ہو...یہ ”توکل“ کا اہم ترین مقام اور موقع ہوتا ہے...اور اس ”توکل“ کے بہت وسیع اور حیران کن نتائج ظاہر ہوتے ہیں...ایک دو روز قبل امریکہ کے نامور مصنف، مشہور صحافی اور سابق پادری...جیفری شان کنگ اور ان کی اہلیہ محترمہ نے اسلام قبول کیا ہے...وہ کہتے ہیں کہ غزہ والوں کی قربانی اور استقامت دیکھ کر اسلام ہمارے دل میں اتر گیا.....اہل غزہ نے کفار کے مقابلے میں...اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا تو اس کے نتائج آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے...

یہ اللہ تعالی پر اعتماد، توکل اور بھروسے کے ثمرات ہیں کہ...یہودی سو سال پیچھے جا گرے ہیں...کھربوں ڈالر سے تیار کردہ ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں...بے شمار لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں...اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں نئی جان پڑ گئی ہے...قرآن مجید کی سورہ الاحزاب میں دو جگہ...حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرما کر ”توکل“  کا حکم سنایا گیا...اور دونوں مقامات پر یہ ”توکل“ کفار اور منافقین کے مقابلے میں آیا ہے...کفار اور منافقین کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام سے ہٹا دیں...لیکن یہ کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوتی...تب انکی کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو پورا اور مکمل مسلمان نہ رہنے دیں...اور ان کے اندر سے ”دینی غیرت“ نکال دیں...اس کے لئے وہ ہر سطح پر دباؤ بنانے کی کوشش کرتے ہیں...وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان دین کی بعض باتوں کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پورے اور پکے مسلمان نہ رہیں...پھر ایسے مسلمانوں کو دبانا، غلام بنانا اور اپنے نیچے لگانا ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے...اسی لئے قرآن مجید نے بار بار تنبیہ فرمائی کہ...اے مسلمانو! تم کفار اور منافقین کی بات نہ مانو...ان سے نہ دبو...ان سے دوستی اور یاری نہ کرو...سورہ احزاب کا تو آغاز ہی اسی حکم سے ہوا ہے...سورہ احزاب میں ”توکل“ کے حکم پر مشتمل دونوں آیات اگلے مکتوب میں آئیں گی ان شاءاللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله