بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ماہ جنوری
ایک بشارت
اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ’’بشارت‘‘ ارشاد فرمائی… یہ بشارت حضرت امام
بخاری رحمۃ اللہ وبرکاتہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں نقل فرمائی ہے…
حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 194ھ بمطابق 810ء بخارا میں ہوئی… اور
آپ نے تقریبا 62 سال کی عمر میں 256ھ ’’خرتنگ‘‘ کے مقام پر وفات پائی۔
حضرت امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ نے ’’بخاری شریف‘‘ کی ’’کتاب التفسیر‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت لائی ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے
کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
’’لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ
الثُّرَيَّا، لَنَالَهٗ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ
مِّنْ هَٓؤُلَاءِ‘‘
’’اگر ایمان (بلند ستارے) ثریا کے پاس بھی
ہوگا تو ان فارس والوں میں سے کچھ لوگ یا ایک آدمی اسے ضرور پالے گا۔‘‘
[ صحیح بخاری۔ حديث رقم:۴۸۹۷ ، ط:دار الکتب العلمیہ]
بعض روایات میں ’’ایمان‘‘
کی جگہ علم اور دین کے الفاظ ہیں۔
حدیث شریف کی تشریح کرنے
والے اکثر محدثین کے نزدیک اس حدیث شریف کی بشارت کا مصداق… حضرت امام ابو حنیفہ…
ہیں۔
الحمدللہ! مسلمانوں نے
دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں اور سلطنتیں چلائیں… یہ سب حکومتیں ’’فقہ حنفی‘‘ پر عمل
کرتی تھیں… سلجوقی ہوں یا عثمانی… خوارزمی ہوں یا مغل… حضرت سلطان محمد الپ ارسلان
ہوں یا سلطان بایزید یلدرم… حضرت سلطان احمد سنجر ہوں یا حضرت اورنگزیب عالمگیر…
یہ سب حنفی تھے… یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی میں قرآن و سنت پر عمل کرتے
تھے… والحمدللہ رب العالمین… یہ وہ حضرات تھے جن کے زمانے میں کروڑوں افراد، بڑی
بڑی قومیں اور ہزاروں میل تک پھیلی زمین نے اسلام کو جانا، اسلام کو پہچانا… اور
اسلام کو مانا… پھر ہر روز نئے نئے فتنوں اور فرقوں کی کیا گنجائش ہے؟… اور ان کے
دامن میں اسلام کی کونسی فتح رقم ہے؟
01/01/2022
حضرت امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی
سمجھ عطاء فرمائیں… حضرت امام اعظم ابو حنیفہ
رحمۃ اللہ علیہ نے پچپن 55 بار ’’حج بیت اللہ‘‘ کی سعادت حاصل کی… اور ہر
مرتبہ مدینہ طیبہ بھی حاضری دی… آپ کا پہلا حج 96ھ میں ہوا… یعنی عمر مبارک کے
سولہویں سال… اسی حج کے دوران آپ کو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم…
حضرت سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ
کی زیارت اور ملاقات نصیب ہوئی… اور آپ نے ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا یہ فرمان مبارک سنا:
’’مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِيْنِ اللهِ كَفَاهُ
اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ‘‘
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کی فقہ (یعنی
پوری سمجھ) حاصل کی تو اللہ تعالیٰ ہر فکر و پریشانی میں اس کے لئے کافی ہو جائیں
گے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطاء فرمائیں گے جہاں سے اسے گمان تک نہ ہوگا‘‘
[مسند الإمام أبي حنيفة رواية أبي نعيم۔ ج:۱، ص:۲۵، ط:مكتبة الكوثر، الرياض]
حدیث مبارک سنتے ہی آپ
کا رخ ’’فقہ‘‘ کی طرف ہوگیا… اور ’’فقہ‘‘ کہتے ہیں قرآن و حدیث کی سمجھ کو…
چنانچہ آپ نے کمال درجے میں قرآن مجید اور حدیث شریف کا علم حاصل کیا… اور ایسے
مقام تک جا پہنچے کہ… ’’فقہ دین‘‘ کے ستون اور مینار بن گئے… اور ہر عقل والے نے
آپ کی فضیلت، علم اور مقام کو تسلیم کیا… اور الحمدللہ صدیوں بعد بھی آپ کا فیض
جاری و ساری ہے۔
ایک بار چین سے آئے ہوئے
حج کے وفد سے ملاقات ہوئی… ان میں ایک بزرگ عالم دین بھی تھے… ان سے پوچھا کہ آپ
کس ’’فقہ‘‘ پر عمل کرتے ہیں؟… انہوں نے عقیدت اور محبت میں ڈوب کر فرمایا:
حضرت
امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۔
ان کے الفاظ آج تک دل و
دماغ میں مٹھاس گھولتے ہیں… سوچا کہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں کوئی گمراہ
انجینیئر،ڈاکٹر یا پروفیسر نہیں ملا… وہ کم عقل لوگ جو کہتے ہیں کہ… امام ابو
حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو حدیث شریف نہیں آتی تھی… یہ لوگ دراصل مسلمانوں کو ان
مسائل میں الجھانا چاہتے ہیں… جن مسائل کا صدیوں پہلے فیصلہ ہو چکا ہے… کافروں کی
سازش ہے کہ… مسلمان انہی مسائل میں الجھے رہیں اور غلامی میں پھنستے چلے جائیں۔
وہ دیکھو! افغانستان کے
طالبان… پکے اور مطمئن سنی اور حنفی… وہ
مسائل میں نہیں الجھے بلکہ جہاد میں اترے اور عالمی اتحاد کو شکست دے دی… اور یوں
حضرت سیدنا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب علم، صاحب عقل اور صاحب جہاد
’’مقلدین‘‘ نے… ایک اور عظیم کارنامہ سر انجام دے دیا۔
02/01/2022
اللہ تعالیٰ
نے ’’علم‘‘ والوں کو بڑے درجے عطاء فرمائے ہیں
اللہ تعالیٰ نے ’’علم‘‘ والوں کو بڑے
درجے عطاء فرمائے ہیں… آج ہم امت کے مقبول اہل علم حضرات کے بعض مستند اقوال
پڑھیں گے۔
۱ حضرت
امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ میں نے حدیث کے معاملے میں امام ابو حنیفہ
جیسا محتاط کسی کو نہیں پایا… امام ابو حنیفہ نے اپنی ’’کتاب الآثار‘‘ کا انتخاب
چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔‘‘
۲ حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص فقہ (یعنی دین کی گہری سمجھ) حاصل
کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے
کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔‘‘
۳ حضرت
امام ابو عاصم النبیل رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے
استاذ ہیں) سے پوچھا گیا کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بڑے فقیہ ہیں یا حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
؟… انہوں نے فرمایا:
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد
اور غلام بھی فقہ میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘
۴ حضرت
یزید بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے متقی،
پاک صاف، زاہد و عالم، نہایت سچے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔‘‘
۵ مشہور زمانہ مجاہد… بلکہ امام المجاہدین…
عظیم محدث، فقیہ اور ولی حضرت امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت امام
اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے…فرماتے ہیں:
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کتاب
اللہ‘‘ اور ’’سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی دلیل کے بغیر کوئی مسئلہ بیان
نہیں فرمایا۔‘‘
آخر میں ایک مشہور بزرگ کا یہ شعر
ملاحظہ فرمائیں…
ترجمہ:
’’ہمارے سامنے نعمان (یعنی امام ابو حنیفہ
رحمۃ اللہ علیہ) کا تذکرہ بار بار کیا کرو کیونکہ ان کا تذکرہ مشک کی طرح ہے کہ
اسے جتنا دہرایا جائے خوشبو زیادہ پھیلتی ہے۔‘‘
03/01/2022
روایات
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے… آج کی مجلس
میں چند ’’احادیث مبارکہ‘‘ پڑھتے ہیں… یہ ’’احادیث مبارکہ‘‘ حضرت امام اعظم ابو
حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود روایت فرمائی ہیں:
۱ حضرت
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بھلائی (خیر) کی طرف کسی کی رہنمائی کرنے
والااس بھلائی پر عمل کرنے والے جیسا ہے۔‘‘
۲ حضرت
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی
رضی اللہ عنہ سے سنا… انہوں نے فرمایا کہ… میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائی اگرچہ
وہ پرندے کے گھونسلے جیسی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘
۳ حضرت
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا جابر
بن عبداللہ رضی اللہ عنھماسے روایت کرتے ہیں کہ:
’’انصار میں سے ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کبھی اولاد نصیب نہیں
ہوئی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آپ زیادہ استغفار اور زیادہ صدقہ کیوں نہیں کرتے کہ اس کی برکت سے آپ کو
اولاد ملے… پھر وہ شخص زیادہ صدقہ اور زیادہ استغفار کرنے لگے، حضرت جابر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ان کے نو بیٹے پیدا
ہوئے۔‘‘
۴ حضرت
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں
نے حضرت سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اپنے (مسلمان) بھائی کی مصیبت (اور
تکلیف) پر خوشی کا اظہار نہ کرو… ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مصیبت سے عافیت دے دیں گے
اور تمہیں اسمیں مبتلا فرما دیں گے۔‘‘
۵ حضرت
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
میں نے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے فرمایا کہ میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے شاندار
جزائے خیر عطاء فرمائیں… دور حاضر میں ان کے دامن سے وابستہ ہونا… بہت سے فتنوں کا
علاج ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’’مرویات‘‘ میں سے ان پانچ روایات پر چھ
مکتوبات کا یہ سلسلہ مکمل ہوا… والحمدللہ رب العالمین۔
04/01/2022
اللہ تعالیٰ ایمان و عمل میں ترقی اور
برکت نصیب فرمائیں… آج ’’مغرب‘‘ سے نئے مہینے کا آغاز ہے… ھجری قمری سال 1443 کے
چھٹے مہینے ’’جمادی الأخریٰ‘‘ کی آمد ہے ان شاءاللہ… چاند رات کے اعمال کی
یاددہانی ہے۔
05/01/2022
مکتوبات
میراث:
’’قانونِ میراث‘‘ کی
ضرورت
اللہ تعالیٰ ہمیں
’’قناعت‘‘ نصیب فرمائیں… دوسروں کا مال ناحق کھانے اور قبضہ کرنے سے ہماری حفاظت
فرمائیں۔
ہمارے شاندار مذہب… یعنی
دین اسلام نے ہمیں… ’’قانونِ میراث‘‘ عطاء فرمایا ہے… ایک شاندار، ایماندار قانون۔
ہر آدمی نے ضرور مرنا
ہے… اور جو بھی مرتا ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور چھوڑ جاتا ہے… اب مرے ہوئے آدمی کے
چھوڑے ہوئے مال اور سامان کا کیا ہوگا ؟ ماضی میں کتنے لوگ مرے ہوئے آدمی کے مال
پر آپس میں لڑتے ہوئے مارے جاتے تھے… اور پھر ان کے چھوڑے ہوئے مال پر اور لوگ
لڑنے لگ جاتے تھے۔
بعض قوموں نے اس لڑائی کو
روکنے کے لیے کچھ قوانین بنا لیے، مگر یہ قوانین چونکہ ’’وحی‘‘ کی روشنی سے محروم
تھے… اسلئے ’’ظالمانہ‘‘ تھے… مثلاً یہودیوں نے قانون بنایا کہ میراث کا مالک صرف
بڑا بیٹا ہوگا… قریش نے قانون بنایا کہ میراث کے مالک صرف وہ جوان اور طاقتور رشتہ
دار ہوں گے جو لڑ سکتے ہوں اور دفاع کر سکتے ہوں… ہندوؤں نے قانون بنایا کہ میراث
کے مالک صرف مرد رشتہ دار ہوں گے عورتیں بالکل نہیں… ان غلط اور ظالمانہ قوانین نے
معاشروں کو ’’انصاف‘‘ سے محروم کردیا… دین اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے… اللہ
تعالیٰ کا احسان دیکھیں کہ… اللہ تعالیٰ نے خود ’’ورثاء‘‘ کے حصے مقرر فرمادئیے۔
پیدا کرنے والے رب سے
بہتر کون جانتا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انصاف کون کر سکتا ہے؟
ایک مومن کو چاہیے کہ وہ
دیگر احکامات کی طرح ’’میراث‘‘ کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانے… تب
وہ ایسی رحمتیں، نعمتیں اور برکتیں دیکھے گا کہ جو اس سے پہلے اس کے وہم و گمان
میں بھی نہیں ہوں گی۔
بہت پہلے عرض کیا تھا کہ
’’علمِ میراث‘‘ کا خلاصہ مکتوب کے ذریعے بیان کیا جائے گا… بس وہی سلسلہ آج سے
شروع کرنے کا ارادہ ہے ان شاء اللہ۔
یا اللہ آسان فرما… قبول
فرما۔
06/01/2022
’’علمِ میراث‘‘ کی
اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں ”قانون میراث“ نازل فرمایا… اہلِ علم فرماتے ہیں کہ:
”قرآن مجید میں جتنی تفصیل اور وضاحت کے
ساتھ ”قانونِ میراث“ کو بیان کیا گیا ہے… نماز روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے
ساتھ ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔“
یعنی میراث کی ”جزئیات“
تک خود قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں… ویسے تو نماز روزہ کی آیات… میراث کی آیات
سے بہت زیادہ ہیں… قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود وارثوں کے حصے بیان فرمائے
اور ارشاد فرمایا کہ… اس تقسیم کی حکمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، تم لوگ
پوری طرح نہیں سمجھ سکتے… اور فرمایا کہ جو لوگ ہمارے ان احکامات کی تعمیل کریں گے
ہم ان کو جنت میں جگہ دیں گے… اور جو لوگ ہماری بات کو نہیں مانیں گے وہ جہنم کے
مستحق ہوں گے۔
آج کل دنیا میں جو
”حکومت“ کا قانون توڑتا ہے وہ مجرم کہلاتا ہے… جبکہ میراث کے احکامات تو اللہ جل
شانہ کا ”قانون“ ہیں… اس قانون کی اہمیت کا اندازہ ہر مؤمن، مسلمان خود لگا سکتا
ہے… اس لئے ”علمِ میراث“ بہت اہم اور عالی شان علم ہے… اور ہم مسلمانوں کو حکم دیا
گیا ہے کہ ہم اسے سیکھیں، دوسروں کو سکھائیں… اور اس پر پورا پورا عمل کریں۔
عجیب بات یہ ہے کہ ”علمِ
میراث“ بہت آسان علم ہے… تھوڑا بہت حساب جاننے والا کوئی بھی مسلمان… صرف ایک
ہفتے میں یہ پورا علم سیکھ سکتا ہے… خصوصاً جب وہ کسی ماہر استاذ کی نگرانی میں
ہو… مگر اس کے باوجود اکثر مسلمان اس علم سے محروم ہیں۔
در اصل یہ بہت قسمت والا
علم ہے، شان والا علم ہے… اور قیامت کے قرب میں یہ علم اٹھا لیا جائے گا… اسی لئے
بہت کم اور خوش نصیب افراد یہ علم حاصل کرتے ہیں… جبکہ حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کا یہ حال تھا کہ… حضرت
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے
گورنر کو لکھا کہ تمہیں جب بھی کھیل کود کی خواہش ہو تو صرف تیر اندازی کیا کرو…
اور جب بات چیت اور گپ شپ کی خواہش ہو تو صرف ”علمِ میراث“ کی باتیں کیا کرو۔
میراث میں غلطی کی وجہ سے
حرام مال پھیلتا ہے… اور شیطان یہی چاہتا ہے کہ حرام مال پھیل جائے تاکہ مسلمان
ترقی نہ کر سکیں اور ان کے اعمال بھی قبول نہ ہوں… اس لئے وہ پورا زور لگاتا ہے کہ
”علمِ میراث“ کو نہ کوئی سیکھے اور نہ کوئی اس پر عمل کرے۔
07/01/2022
’’علمِ میراث‘‘ دین کا
اہم حصہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ”علمِ
میراث“ کی نعمت نصیب فرمائیں۔
۱ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم ”علمِ میراث“ سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ
کہ یہ نصف علم ہے، یہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے اٹھا
لیا جائے گا۔“
[سنن ابن ماجہ۔ حديث رقم:۲۷۱۹ ، ط:دار الکتب العلمیہ
بیروت]
۲ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’تم علم سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ… تم
”علمِ میراث“ سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ تم قرآن سیکھو اور لوگوں کو بھی
سکھاؤ، کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں… اور عنقریب علم گھٹا دیا جائے گا اور فتنے
ظاہر ہوں گے… یہاں تک کہ دو آدمی میراث کے حصہ میں اختلاف کریں گے اور کوئی ایسا
شخص نہیں پائیں گے جو ان کے درمیان فیصلہ کرسکے۔‘‘
[سنن الدارمی۔ حدیث رقم:۲۲۷، ط:دار المغني للنشر
والتوزيع، المملكة العربية السعودية]
۳
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”وہ عالم جو علمِ میراث نہ جانتا ہو‘‘ وہ
ایسی ٹوپی کی طرح ہے جس کے لئے کوئی سر نہ ہو۔‘‘
[جامع الاصول فی احادیث الرسول۔ حديث رقم:۵۸۲۹، ط:مکتبۃ دارالبیان بشیر
عیون]
یعنی اس کا علم بے رونق، بے برکت اور
بے شان ہوگا۔
۴
رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس شخص نے کسی ایسی میراث کو روکے رکھا جو
اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے حصے کو روک دیں گے۔‘‘
[ شعب الایمان للبیہقی۔ حدیث رقم:۷۵۹۴، ط:مكتبة الرشد للنشر
والتوزيع بالرياض]
اس موضوع پر احادیث مبارکہ اور بھی
ہیں… دراصل ”علمِ میراث“ ہمارے دین کا اہم حصہ ہے اور اس علم کا کمزور ہونا
”علاماتِ قیامت“ میں سے ہے… اس لئے پکا ارادہ کریں کہ ان شاءاللہ یہ علم سیکھیں
گے… مسلمانوں کو سکھائیں گے… اور خود بھی اس پر عمل کریں گے… کل سے ان شاءاللہ
مکتوب میں میراث کا باقاعدہ سبق شروع ہو جائے گا… آسان اور مختصر ان شاءاللہ
تعالیٰ۔
08/01/2022
’’میراث‘‘ کی تعریف اور
اس کا ’’لازمی‘‘ ہونا
اللہ تعالیٰ ”شرح صدر“
نصیب فرمائیں۔
”علمِ میراث “ کے پہلے سبق میں دو باتیں ہیں…
ان کو یاد کر لیں۔
۱ ”میراث“
اس مال کو کہتے ہیں جو مرنے والااپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے… معلوم ہوا کہ ”میراث“ کے
لئے ”موت“ ضروری ہے… جب تک موت نہ آئے ” میراث “ نہیں بنتی… چنانچہ ”زندہ شخص“ کا
مال خود اسکی اپنی ملکیت ہوتا ہے… اس کی مرضی کہ تقسیم کردے یا تقسیم نہ کرے… اس
کی مرضی کسی کو دے یا نہ دے… اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنا مال تقسیم کرنا
چاہتا ہے تو اس میں ”میراث“ کے شرعی حصوں کا اہتمام کرنا ضروری نہیں ہے… بہتر تو
یہی ہے کہ وہ… اگر اپنی اولاد میں مال تقسیم کررہا ہے تو انصاف اور برابری کرے…
لیکن اگر وہ دینداری یا کسی اور معقول وجہ سے… بعض اولاد کو کم اور بعض کو زیادہ
دے تو اسے اسکی اجازت ہے… جب تک ”مرض الوفات “ شروع نہ ہو… ہر شخص کو اپنے سارے
مال پر پورا اختیار ہوتا ہے… اور اس کے مال پر ”میراث“ کا کوئی حکم یا قانون جاری
نہیں ہوتا… اور نہ اس کی اولاد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس سے اپنا حصہ
مانگیں… ہاں! اس مال پر دیگر شرعی حقوق مثلاً زکوٰۃ… اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ
ہوتے ہیں۔
۲ ”میراث“
کا معاملہ اختیاری نہیں ہے… بلکہ لازمی ہے… جیسے ہی کوئی مرتا ہے اس کا مال خود
بخود اسکی ملکیت سے نکل کر… اس کے شرعی وارثوں کا ہو جاتا ہے… مرنے والاکسی کو حصہ
دینا چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مثلاً کوئی چاہتا ہے کہ…
میرے مرنے کے بعد میرے فلاں بیٹے یا بیٹی کو یا میری بیوی کو میری میراث میں سے
کوئی حصہ نہ ملے تو… اس کے چاہنے کا اعتبار نہیں ہو گا… حصہ اس کے شرعی وارث کا
خود بخود ہو جائے گا… اگر وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو ”عاق“ کردے تو اس کا بھی
کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
اسی طرح ہر شرعی وارث کو…
میراث میں سے اس کا حصہ خود بخود مل جاتا ہے… کوئی وارث لینا چاہے… یا نہ لینا
چاہے… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… ہاں اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنا حصہ وصول کرکے پھر
کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے… خلاصہ یہ کہ… میراث کے احکامات اللہ تعالیٰ کی
طرف سے خود بخود نافذ ہو جاتےہیں… اس میں بندوں کا کوئی اختیار نہیں ہے… کسی کے
مرتے ہی اس کا سارا مال اس کے شرعی وارثوں کا ہو جاتا ہے… اپنے اپنے شرعی حصوں کے
مطابق۔
ہاں کوئی شخص اپنی زندگی
میں صرف اپنے تہائی مال یعنی مال کے تیسرے حصے کے بارے میں وصیت کر سکتا ہے… اس کا
بیان اگلے سبق میں ان شاءاللہ۔
09/01/2022
وصیت
اللہ تعالیٰ ”نور“ نصیب
فرمائیں۔
ہم نے دو باتیں یاد
کرلیں:
۱ میراث
کے سارے احکامات کسی کے مرنے کے بعد شروع ہوتے ہیں… زندگی میں ہر شخص کا مال صرف
خود اسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
۲ میراث
کے حصے اللہ تعالیٰ نے فرض اور مقرر فرما دیئے ہیں… کوئی دینا چاہے یا نہ دینا
چاہے، کوئی لینا چاہے یا نہ لینا چاہے… کوئی نیک ہو یا بد… کوئی فرمانبردار ہو یا
نا فرمان… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… کسی کے مرتے ہی اس کے شرعی وارث اپنے اپنے
حصہ کے مطابق اس کے مال کے مالک بن جاتے ہیں… ان دو باتوں کے بعد آج بات کریں گے
”وصیت“ کی۔
زندگی میں ہر شخص اپنے
مال کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہے کر سکتا ہے… حتی کہ اگر وہ اپنا سارا مال نیکی کے
راستے میں لگانا چاہے تو اسے اختیار ہے… لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے اہل و اولاد
کے لئے بھی ان کی ضرورت کے بقدر چھوڑ دے… اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی
اپنا مال اپنی اولاد یا رشتہ داروں میں تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے… مگر تقسیم
کرنے یا دینے کا مطلب ہے کہ وہ جس کو دے رہا ہے اس کو مکمل مالک بنا کر دے دے… یہ
نہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کو دیا جائے… یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد میرا
اتنا مال فلاں کو دے دیا جائے… یہ ”وصیت“ کہلاتا ہے… اور وصیت میں دو باتیں ضروری
ہیں۔
۱وصیت
صرف اپنے مال کی تہائی یعنی تیسرے حصے کی کرے…
مثلاً ایک شخص کے سارے مال کی قیمت
تیس ہزار ہے تو وہ صرف دس ہزار کی وصیت کر سکتا ہے… اگر وہ اپنے سارے مال کے بارے
میں ”وصیت“ کرگیا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی وصیت مال کے صرف تیسرے حصے پر جاری
ہوگی… باقی پر نہیں۔
۲ کوئی
شخص کسی ایسے شخص کے لئے ”وصیت“ نہیں کر سکتا… جو شخص اس کا شرعی وارث ہو… مثلاً
یہ وصیت کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیٹے کو میری گاڑی دے دی جائے… یا میری بیوی کو
میرا مکان دے دیا جائے… یہ وصیت درست نہیں کیونکہ بیٹا اور بیوی اس کے مال کے شرعی
وارث ہیں… چنانچہ ان کے لئے کی گئی ”وصیت“ کا اعتبار نہیں ہوگا… اور وہ گاڑی اور
مکان سب ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوں گے۔
خلاصہ یہ کہ… اگر کوئی
شخص اپنے مال کے بارے میں ”وصیت“ کرنا چاہتا ہو تو وصیت صرف تہائی مال میں کرے اور
ان افراد کے لئے کرے جن کو اس کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا… چنانچہ وہ آدمی
جس کی اولاد، بیٹے اور بیٹیاں موجود ہوں… چونکہ اس کے بھائی کو اس کی میراث میں سے
حصہ نہیں ملے گا تو وہ اپنے بھائی کے لئے وصیت کر سکتا ہے… اسی طرح کسی نیک کام کی
وصیت بھی تہائی مال میں کر سکتا ہے کہ… میرے مرنے کے بعد میرا تہائی مال جہاد میں
دے دیا جائے یا مسجد بنائی جائے… یا میرا حج بدل اداء کرایا جائے… یا میری نمازوں،
روزوں کا فدیہ دیا جائے وغیرہ… ایسی وصیت جائز اور نافذ ہوگی۔
10/01/2022
تجہیز و
تکفین
اللہ تعالیٰ”علم نافع “
عطاء فرمائیں… جب کوئی مسلمان وفات پا جائے تو پیچھے رہ جانے والے لوگ… اس کے مال
اور چھوڑی ہوئی چیزوں کو بالکل استعمال نہ کریں… اور نہ فوراً ”ورثاء“ میں تقسیم
کریں… سب سے پہلے اس مال سے تین کام کئے جائیں گے… ان تین کاموں کو کرنے کے بعد
اگر ”مال“ بچ گیا تو ”ورثاء“ میں تقسیم ہو گا… اور اگر سارا مال ان کاموں میں ہی
خرچ ہو گیا تو پھر ”ورثاء“ کو کچھ نہیں ملے گا… میت کے چھوڑے ہوئے مال میں سے سب
سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جائے گا… یعنی کفن، دفن، غسل وغیرہ کے
اخراجات… یہ ہوا پہلا کام… اگر میت کا سارا مال اس کے کفن دفن میں خرچ ہو گیا تو
بس معاملہ ختم… لیکن اگر کفن دفن کے بعد بھی مال بچ گیا تو اب اس سے ”میت“ کے قرضے
اداء کئے جائیں گے… قرضے اداء کرنے کے بعد اگر مال بچ جائے تو اب دیکھا جائے گا کہ
”میت“ نے کچھ ”وصیت“ بھی کی ہے یا نہیں۔
اگر اس نے کوئی ”وصیت“ کی
ہو تو مال کے تہائی حصہ سے یہ وصیت پوری کی جائے گی… وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال
بچے گا وہ میت کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا… خلاصہ یہ ہوا کہ… میت کے
چھوڑے ہوئے مال سے ترتیب کے ساتھ یہ کام کرنے ہیں۔
۱
تجہیز
و تکفین۔
۲
قرض کی
ادائیگی۔
۳
وصیت کی
تکمیل۔
۴
ورثاء
میں تقسیم۔
اب ہم ان چار کاموں کی مختصر تشریح
کریں گے:
(تجہیز و تکفین)
شریعت کے مطابق کفن… نہ
بہت قیمتی ہو نہ بہت ادنیٰ… قبر سادہ اور کچی… پھر غسل دینے اور قبر کھودنے والوں
کی اجرت معروف کے مطابق… اگر مفت قبر نہ ملے تو قبر خریدنے کی قیمت… بس یہ ہیں
تجہیز وتکفین کےاخراجات۔
ان اخراجات میں اسراف کی
اجازت نہیں… نہ رسومات میں خرچ کی اجازت ہے… نہ امام صاحب کو مصلیٰ دینے کی اور نہ
کچھ صدقہ خیرات کرنے کی۔
عورت کا اگر خاوند موجود
ہو تو عورت کا کفن دفن اس کے ذمہ واجب ہے… عورت کے مال میں سے نہ لیا جائے… لیکن
اگر خاوند نہیں ہے تو مرنے والی کے ”ترکہ“ یعنی چھوڑے ہوئے مال میں سے اس کے کفن،
دفن کا انتظام کیا جائے گا… اگر کوئی شخص وفات پا گیا اور اس نے اتنا مال نہیں
چھوڑا کہ اس کے کفن ، دفن کا انتظام ہو سکے تو اس کے ”ورثاء“ سے ”چندہ“ کیا
جائےگا… جس ”وارث“ کو اس کی میراث میں سے زیادہ حصہ ملنا تھا اس سے زیادہ چندہ…
اور جس کو کم ملنا تھا اس سے کم چندہ لیا جائے گا… اور اگر اسکے ”ورثاء“ موجود نہ
ہوں… یا وہ چندہ دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو پھر… اس کے کفن، دفن کا انتظام
”اسلامی حکومت“ کے ذمہ ہو گا… اور اگر ”اسلامی حکومت“ بھی موجود نہ ہو تو… کفن، دفن
کا انتظام اس کے ”اہلِ محلہ“ یا ”اہلِ شہر“ میں سے ان مسلمانوں پر واجب ہو گا جو
اس ”میت“ کے حال سے واقف ہوں۔
11/01/2022
’’قرض‘‘ کی ادائیگی
اللہ تعالیٰ ہم سب
کو’’قرضہ‘‘ سے حفاظت اور خلاصی عطاء فرمائیں…
’’کفن دفن‘‘ کے بعد اگر ’’میت‘‘ کا کچھ مال
بچ جائے تو… اس سے ’’میت‘‘ کے ’’ قرضے‘‘ اداء کئے جائیں گے۔
۱ اگر
’’میت‘‘ کے ذمہ کوئی ’’قرضہ‘‘ نہ ہو تو… بہت اچھا… پھر تیسرے کام یعنی ’’وصیت‘‘ کی
طرف متوجہ ہوں گے۔
۲
اگر
’’میت‘‘ کے ذمہ ’’قرضہ‘‘ ہو… اور اس کا چھوڑا ہوا سارا مال اس قرض کی ادائیگی میں
لگ رہا ہو تو… فوراً لگا دیا جائے… قرض اتار دیا جائے تاکہ… اس کی روح آزاد ہو
جائے… آخرت آسان ہو جائے۔
۳ اگر
’’قرض‘‘ زیادہ ہو… اور چھوڑا ہوا مال کم ہو تو دیکھا جائے گا کہ… قرض صرف ایک
آدمی کا ہے یا زیادہ کا… اگر ایک آدمی کا ہو تو سارا مال اسے دے دیا جائے… اور
اگر کئی افراد کا ہو تو ان کے قرضے کے تناسب سے ان میں مال تقسیم کردیا جائے۔
۴ قرض
زیادہ تھا اور مال تھوڑا… چنانچہ کسی کا قرضہ پورا اداء نہ ہوا… اب قرض خواہوں کی
مرضی کہ وہ باقی قرضہ معاف کر دیں… اور اجر کے مستحق بنیں… یا معاف نہ کریں اور
اپنا معاملہ قیامت پر چھوڑ دیں… جہاں اللہ تعالیٰ نیکیوں اور گناہوں کے ادلے بدلے
سے ان کا قرض اس مقروض آدمی سے دلوائیں گے ان شاء اللہ۔
۵
قرض
خواہوں کا قرضہ… صرف میت کے مال سے ہی اداء ہوگا… ورثاء کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ اپنے
مال سے اسکا قرضہ اداء کریں… اور نہ قرض خواہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ’’ورثاء‘‘ سے
مانگے… ہاں! اگر ’’ورثاء‘‘ احسان کرتے ہوئے اپنے مال سے اس کا قرضہ اداء کردیں تو
یہ بڑے اجر اور صلہ رحمی والاعمل ہے۔
۶ میت
کے مال میں سے سب سے پہلے اس کے وہ قرضے اداء کئے جائیں گے… جو اس نے ’’مرض
الوفات‘‘ سے پہلے کسی سے لئے… یا جن کا اس نے اقرار کیا… یا جو اس کے ذمے شرعاً
لازم ہوئے… بیوی کا مہر بھی اسی قسم کا ’’قرض‘‘ ہے… اگر زندگی میں اداء نہ کیا تو
مرنے کے بعد اس کے مال میں سے اداء کیا جائے گا۔
۷
اگر یہ
واضح قرضے اداء کرنے کے بعد بھی مال بچ رہا ہو تو پھر وہ قرضے اداء کئے جائیں گے
جن کا میت نے اپنے ’’مرض الوفات‘‘ میں اقرار کیا… مثلاً کسی کا مال دھوکے وغیرہ سے
لے لیا تھا یا چھپا لیا تھا جب مرنے لگا تو اقرار کرلیا… کہ میں نے فلاں کا اتنا
حق دینا ہے… واضح قرضے اداء کرنے کے بعد
ایسے قرضے اداء کئے جائیں گے۔
۸ میت
کے ذمہ اللہ تعالیٰ کے جو قرضے ہیں… مثلاً فرض زکوٰۃ نہیں دی، فرض حج اداء نہیں
کیا… روزے چھوڑے، انکا فدیہ اداء نہیں کیا وغیرہ… ایسے قرضے میت کے تہائی مال میں
سے تب اداء کئے جائیں گے… جب وہ ان کی وصیت کرے… اگر اس نے وصیت نہیں کی تو ورثاء
کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ… میت کے مال میں سے یہ قرضے اداء کریں۔
۹ میت
نے بالکل کچھ مال نہیں چھوڑا… یا جتنا چھوڑا تھا وہ سارا کفن دفن میں لگ گیا… اور
اس کے ذمے لوگوں کے قرضے بھی ہیں تو اب حکم یہ ہے کہ… قرض لینے والوں کی مرضی کہ
وہ اسے اپنے قرضے معاف کردیں… اور بڑا اجر کمائیں… یا اپنا معاملہ قیامت کے فیصلے
پر چھوڑ دیں۔
۱۰ قرض
کا معاملہ سخت ہے… ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے قرض کی تفصیلات ہمیشہ لکھ کر ایسی
جگہ رکھا کرے جہاں یہ تحریر محفوظ رہے… اور اس کے مرنے کے بعد ورثاء کے علم میں آ
جائے۔
12/01/2022
’’وصیت‘‘ کی تفصیل و
احکامات
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
آج ’’وصیت‘‘ پر بات ہوگی ان شاءاللہ۔
کفن، دفن اور قرض کی
ادائیگی کے بعد اگر مال بچ جائے تو اس… بچے ہوئے مال کے تیسرے حصے سے ’’میت‘‘ کی
’’وصیت‘‘ پوری کی جائے گی۔
۱ ’’وصیت‘‘
کا اختیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے پر بڑا انعام اور احسان ہے کہ… وہ مرنے
کے بعد بھی اپنے مال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے… نیکیاں کرسکتا ہے اور اپنی کوتاہیوں
کی تلافی کر سکتا ہے۔
۲
جس
آدمی پر کوئی قرضہ نہ ہو اور نہ ہی اس کے کوئی شرعی وارث ہوں تو ایسا آدمی اپنے
سارے مال کی وصیت بھی کر سکتا ہے کہ… فلاں کام میں لگا دیا جائے… یا فلاں کو دے
دیا جائے وغیرہ۔
۳
جس
آدمی کے ’’ورثاء‘‘ موجود ہوں… وہ اپنے سارے مال کی ’’وصیت‘‘ نہیں کر سکتا… صرف
ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے… اگر وہ اپنے سارے مال کی وصیت کرے گا تو اس کے
مرنے کے بعد وصیت صرف تہائی مال میں ہی جاری ہو گی… ہاں! اگر اس کے ’’ورثاء‘‘
اجازت دے دیں تو باقی مال میں بھی وصیت جاری ہو گی مگر شرط یہ ہے کہ سارے
’’ورثاء‘‘ عاقل بالغ اور موجود ہوں… نابالغ وارث کی اجازت معتبر نہیں ہے… اور غیر
موجود وارث کا پتا نہیں کہ اجازت دے گا یا نہیں۔
۴
کوئی
شخص ان افراد کے لئے وصیت نہیں کر سکتا جن کو اس کی ’’میراث‘‘ میں سے حصہ ملنا ہے…
حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’وارث‘‘ کے لئے ’’وصیت‘‘ نہیں ہو سکتی… اس کا حصہ تو
اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے… چنانچہ کوئی شخص اگر اپنے وارث کے لئے وصیت کرے
گا تو اس وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا… ہاں! اگر باقی ورثاء جو عاقل بالغ ہوں
خوشی سے اجازت دے دیں تو اس وصیت کو نافذ کر سکتے ہیں۔
۵
جس
آدمی کے ذمے فرض حج، فرض زکوٰۃ، روزوں کا فدیہ وغیرہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہوں تو
اس پر لازم ہے کہ وہ… ان کی وصیت کر جائے… کیونکہ اگر وہ ان کی وصیت نہیں کرے گا
تو ’’ورثاء‘‘ پر ضروری نہیں کہ وہ اس کے مال سے اس کے ان فرائض کو اداء کریں…
انہیں حق حاصل ہو گا کہ وہ کفن دفن… اور لوگوں کے قرضے اداء کرنے کے بعد سارا مال
آپس میں شرعی ترتیب سے تقسیم کر لیں… اس لئے ہر وہ شخص جو مالدار ہو وہ ان امور
کی وصیت کر جائے تاکہ وہ گناہ گار نہ ہو۔
وصیت کے باقی احکامات
اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ۔
13/01/2022
بقیہ
’’وصیت‘‘ کی تفصیل و احکامات
اللہ تعالیٰ کا احسان کہ…
’’وصیت‘‘ کا خیر والادروازہ کھلا رکھا۔
(لیجئے وصیت کے باقی احکامات)
۱
وصیت
کے ذریعے انسان اپنے لئے صدقات جاریہ کا انتظام بھی کر سکتا ہے… اور بڑی عظیم
نیکیاں بھی کما سکتا ہے… مثلاً کسی آدمی کے کئی بیٹے ہیں:
ایک بیٹے کا اسکی زندگی
میں انتقال ہو گیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے پیچھے رہ گئے… اب اس آدمی کی
میراث میں سے اس کے یتیم پوتے پوتیوں کو کچھ نہیں ملے گا… کیونکہ اس کے اور بیٹے
موجود ہیں… اور بیٹا موجود ہو تو پوتے کو میراث نہیں ملتی… اب یہ شخص اپنے پوتے
پوتیوں کے لئے کچھ مال کی وصیت کر جائے تو کتنی بڑی نیکی اور صلہ رحمی ہو گی۔
۲
کوئی
شخص زندگی میں بخل کا شکار رہا اب اگر وہ وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کے بعد میرا
تہائی مال جہاد میں دیا جائے… مسجد بنائی جائے، کنواں کھدوایا جائے تو اس نے مرنے
کے بعد اپنے مال سے وہ کما لیا جو زندگی میں نہ کما سکا۔
۳
جس
آدمی کا مال کم ہو اور اس کے بچے چھوٹے یا ضرورت مند ہوں تو ایسے شخص کو چاہیے کہ
کوئی وصیت نہ کرے… کیونکہ وصیت کرے گا تو بچوں کی میراث اور کم ہو جائے گی… جبکہ
اپنے بچوں کو کھلانا پلانا بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے… اس لئے وصیت صرف وہ کرے جو
زیادہ مال چھوڑ کر جا رہا ہو… یا جس کے ورثاء (بچے، بیوی، والدین وغیرہ) زیادہ
ضرورت مند نہ ہوں… یا اس کے ذمے فرائض ہوں۔
۴
وصیت
اپنے مال، جائیداد کے بارے میں کی جا سکتی ہے… اپنے ’’اعضاء‘‘ کے بارے میں نہیں
کہ… میرے مرنے کے بعد میری آنکھیں فلاں کو دے دی جائیں… ہمارے پاس یہ ’’اعضاء‘‘
اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں… یہ ہماری ملکیت نہیں ہیں کہ ہم ان کے ساتھ جو چاہیں
کریں۔
۵
کسی
گناہ کے کام کی وصیت بڑا گناہ ہے… ’’ورثاء‘‘ کو چاہیے کہ ایسی وصیت پر ہرگز عمل نہ
کریں۔
۶
وصیت
کرنے والے کو اپنی زندگی میں… اپنی وصیت تبدیل کرنے یا ختم کرنے کا پورا اختیار
ہوتا ہے… اگر اس نے لوگوں کے سامنے کوئی وصیت کی ہو… اور پھر اس وصیت کو ختم کرنا
یا بدلنا چاہتا ہو تو لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کرے… اور اگر وصیت چپکے سے لکھ
کر رکھی ہے تو جب چاہے اپنی زندگی میں اسے ختم کر سکتا ہے… یا بدل سکتا ہے۔
۷
اپنے
کسی وارث کو عاق کرنے کی وصیت… یا کسی وارث کو حصہ نہ دینے کی وصیت باطل اور فضول
ہے… دس اخباروں میں اشتہار دے دے تب بھی کسی کو عاق نہیں کر سکتا… اس کے مرنے کے
بعد ہر وارث کو پورا حصہ ملے گا… اگر وارث واقعی بہت برے ہیں تو اپنا سارا مال
اپنی زندگی میں ہی اچھے کاموں میں لگا دے… یا اچھے لوگوں میں تقسیم کر دے۔
۸
اگر کسی کے ذمے لوگوں کے قرضے ہوں… یا اس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں… یا اس کے
پاس اجتماعی اموال ہوں تو ایسے آدمی پر لازم ہے کہ… ان قرضوں، امانتوں کی تفصیل
لکھ کر رکھے… اس پر ایسی دو راتیں نہیں گزرنی چاہییں کہ اس نے یہ سب لکھ کر نہ
رکھا ہو… اگر وہ نہیں لکھے گا تو اپنی آخرت کو خطرے میں ڈالے گا۔
۹
کسی نے
اپنے مال کے بارے میں کئی وصیتیں کیں… اس کے تہائی مال سے یہ ساری وصیتیں پوری
نہیں ہو سکتیں تو ان وصیتوں کو پہلے پورا کیا جائے گا جو زیادہ ضروری ہیں مثلاً
فرائض کی ادائیگی۔
14/01/2022
’’وراثت‘‘ سے محروم
کرنے والی چیزیں
اللہ تعالیٰ ہمارا سینہ
اسلام کے لئے کھول دیں۔
میت کے مال سے پہلا خرچہ
کفن دفن… دوسرا خرچہ قرضوں کی ادائیگی… تیسرا خرچہ وصیت پوری کرنا… یہ تینوں کام
کرنے کے بعد بھی مال بچ جائے تو وہ ’’ورثاء‘‘ میں تقسیم ہوگا… اور یہیں سے اصل
’’علمِ میراث‘‘ شروع ہوتا ہے کہ… وراثت کا مال کن ’’ورثاء‘‘ میں تقسیم ہوگا… اور
کتنا کتنا تقسیم ہوگا… مگر اس سے پہلے ایک ضروری بات سمجھ لیں… تین چیزیں ایسی ہیں
جو کسی بھی وارث کو وراثت سے محروم کر دیتی ہیں۔
۱ قتل۔
۲ کفر۔
۳ غلامی۔
• قاتل کو مقتول کے مال میں سے وراثت نہیں
ملے گی… یہ قتل کرنا جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے… قتل کرنے والی چیز سے قتل کیا ہو…
یا کسی اور چھوٹی موٹی چیز سے… قتل کرنے والے کو اپنے مقتول کے مال سے کچھ حصہ
نہیں ملے گا خواہ یہ اس کا بیٹا ہو… البتہ! قتل کی دو صورتیں اس سے مستثنٰی ہیں،
ایک اپنے دفاع میں قتل کرنا اور دوسرا سرکاری ڈیوٹی کے طور پر قتل کرنا مثلاً کوئی
اسلامی حکومت میں جلاد ہو۔
• مسلمان کو کافر کے مال میں سے اور کافر کو
مسلمان کے مال میں سے وراثت نہیں ملتی۔
• غلام کو وراثت سے کچھ نہیں ملتا۔
ایک اور چیز وراثت سے
محروم کرنے والی ہے… ’’اختلافِ دار‘‘… یعنی دو افراد، دو الگ الگ ریاستوں میں ہوں…
اور ان دو ریاستوں کے درمیان دشمنی ہو… یہ مسئلہ مسلمانوں کے لئے نہیں ہے… مسلمان
رشتہ دار خواہ کتنے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہوں… ان کے درمیان وراثت جاری ہوگی… البتہ!
وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملکوں میں رہتے ہیں… اور اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق
اپنی میراث تقسیم کرتے ہیں… ان کے ان ’’ورثاء‘‘ کو ان کے مال سے کچھ حصہ نہیں ملے
گا جو… دوسری مخالف ریاست میں رہتے ہیں۔
15/01/2022
معاشرے کا
ظلم
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت پر عمل کرنے
کی توفیق عطاء فرمائیں۔
’’ورثاء‘‘ اور ان کے حصوں کی تفصیل سے پہلے
ایک اور بات بھی سمجھ لیں۔
وراثت سے محرومی والی چیزیں بس وہی
تین ہیں جو کل ہم نے پڑھیں۔
۱ قتل ۲ کفر ۳ غلامی۔
مگر ہمارے معاشرے میں کچھ
اور اسباب کی وجہ سے بھی وراثت سے محروم کیا جاتا ہے… جو کہ بڑا ظلم اور گناہ ہے۔
۱
عورت
ہونا اور عورت کا دوسرا نکاح کرنا… اسلام نے عورت کو وراثت میں پورا اور مقرر حق
دیا ہے… مگر لوگ اس میں غفلت اور ظلم کرتے ہیں… وہ کہتے ہیں اس کی شادی پر ہم نے
خرچ کر دیا تھا وغیرہ… یاد رکھیں زندگی میں آپ کسی پر جتنا خرچ کر لیں… اس کا اثر
میراث پر نہیں پڑتا… میراث میں سے پورا حصہ دینا ہوگا… نہیں دیں گے تو اس کا جو
حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوچکا ہے اس پر قبضہ کرنے والے… حرام مال پر قبضہ کرنے
والے ہوں گے… اسی طرح اگر عورت اپنے خاوند کی وفات کے بعد عدت گزار کر دوسری شادی
کر لے تو بھی اسے اپنے پہلے خاوند کی میراث میں سے حصہ ملے گا… جو لوگ نہیں دیتے
وہ بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔
۲ چھوٹا
بچہ ہونا… اس کی وجہ سے کئی لوگ بچوں کو میراث نہیں دیتے یہ گناہ اور ظلم ہے… کسی
کا ایک بیٹا عالم فاضل ہو اور دوسرا ایک دن کا دودھ پیتا بچہ… دونوں کو میراث میں
سے برابر حصہ ملے گا… حتی کہ جو بچہ حمل میں ہوگا اس کو بھی میراث میں سے پورا حصہ
ملے گا۔
۳
نافرمان
اور گناہ گار ہونا۔
کئی جگہ ان ورثاء کو
میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے جو نافرمان یا گناہ گار ہوں… یہ بالکل غلط ہے… ایک
شخص نے دو بیٹے چھوڑے… ایک تہجد گزار ہے اور اس نے ساری عمر والد کی خدمت کی ہے…
جبکہ دوسرا فاسق و فاجر ہے اور زندگی میں باپ کو ستاتا رہا ہے… میراث میں دونوں کو
برابر حق اور حصہ ملے گا… آپ سوچیں گے کہ یہ ’’انصاف‘‘ تو نہ ہوا!… جواب یہ ہے
کہ… اگر شریعت مختلف وجوہات کی وجہ سے… میراث کے قانون میں تبدیلی کی اجازت
دے دے تو لوگ… اس قانون کو کھلونا بنا لیں
گے… کوئی کسی کو فرمانبردار قرار دے گا تو کسی کو نافرمان… کوئی کسی کے نزدیک نیک
ہوگا مگر دوسروں کے نزدیک گناہ گار… اور یوں کبھی فیصلہ نہیں ہوسکے گا… نیکی اور
خدمت کا صلہ دینا ہے تو… ہر شخص اپنی زندگی میں دے سکتا ہے… میراث کا قانون تو
مضبوط بنیادوں پر نافذ ہوگا… اور مضبوط بنیاد ہے… بیٹا ہونا… رشتہ دار ہونا۔
16/01/2022
تعیین
وارث، ترکہ اور پانچ یقینی ورثاء
اللہ تعالی ہمیں ”جنت“ کا
وارث بنائے..آج تین باتیں یاد فرما لیں۔
۱ ’’مُؤرِّث‘‘
کی موت کے وقت اس کا جو جو وارث زندہ ہوگا… صرف اسے میراث ملے گی… مثلاً ایک شخص
کے تین بیٹے ہیں… اس کی زندگی میں اس کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا… جبکہ دو بیٹے
اس کی وفات کے وقت تک زندہ تھے… تو میراث ان دو بیٹوں کو ملے گی… جو بیٹا پہلے
وفات پا گیا اس کو کچھ نہیں ملے گا… اسی طرح ’’مُؤرِّث‘‘ کی موت کے وقت جو بیوی
اس کے نکاح میں ہوگی… اسے میراث ملے گی… اور جن کو پہلے طلاق دے چکا ان کو کچھ
نہیں ملے گا… خلاصہ یہ کہ کسی کی موت کے وقت اس کے جو وارث زندہ ہوں گے… یا اس کے
نکاح میں ہوں گے ان کو وراثت میں حصہ ملے گا… پھر اگر میراث تقسیم ہونے سے پہلے ان
وارثوں میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو وہ اپنے حصے کا مالک شمار ہوگا… اور اس کا
حصہ اس کے وارثوں کو ملے گا۔
۲ ’’میت‘‘
کا ہر وہ مال جو موت کے وقت اس کی ملکیت میں ہو گا… اس میں وراثت جاری ہوگی… روپیہ
پیسہ ہو یا زمین زیور… کسی کو دیا ہوا قرضہ ہو یا کمیٹی وغیرہ میں اداء کیا ہوا
مال… سابقہ پینشن کے واجبات ہوں یا قسطوں پر لی گئی چیز کی اداء کی ہوئی قسطیں… اس
کی جیب میں موجود الائچی تک شریعت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کرنا لازم ہے… سابقہ
پینشن کی جو رقم اکٹھی ملے وہ بھی وراثت میں چلے گی… ہاں! آئندہ کے لئے اگر پینشن
جاری ہوئی تو وہ صرف اسی کی ہوگی جس کے نام سرکاری طور پر جاری ہوئی ہے… وراثت کے
مال کو جلد تقسیم کرنا چاہیے…تاخیر کی جائے تو خاندان میں جھگڑے اور بے برکتی
آجاتی ہے… اور ورثاء میں سے کسی کی وفات بھی ہو سکتی ہے… تب اس کا حصہ اس کے
ورثاء تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے… وراثت کی تقسیم میں ورثاء کو چاہیے کہ حرص و
لالچ سے بچیں اور ایک دوسرے کا اکرام ملحوظ رکھیں… اگر مرے ہوئے شخص کا مال بھی
ہمیں اپنی موت یاد نہیں دلارہا تو خطرے کی بات ہے۔
۳
ہر شخص
کے پانچ رشتہ دار ایسے ہیں… جو اگر اس کی موت کے وقت زندہ ہوں تو انہیں ضرور وراثت
ملتی ہے۔
مرد کے لئے:
۱ باپ ۲ ماں ۳ بیوی ۴ بیٹا ۵ بیٹی۔
عورت کے لئے:
۱ خاوند ۲ باپ ۳ ماں ۴ بیٹا ۵ بیٹی۔
ان پانچ رشتہ داروں کے
علاوہ باقی رشتہ داروں کو بعض صورتوں میں وراثت ملتی ہے اور بعض حالات میں نہیں…
اس کی تفصیل آگے آئے گی ان شاءاللہ۔
17/01/2022
’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ
دار
اللہ تعالیٰ ہمیں… شریعت
کے ہر حکم کے ساتھ قلبی محبت نصیب فرمائیں… ’’میراث‘‘ کی تقسیم شروع ہو رہی ہے… جو
کہ بالکل آسان ہے… ہم نے تقریباً پینتیس (۳۵) قسم کے رشتہ دار یاد رکھنے ہیں… اور یہ یاد
رکھنا ہے کہ کس رشتہ دار کو کتنا حصہ ملے گا… اور کس رشتہ دار کے ہوتے ہوئے کس
رشتہ دار کو وراثت نہیں ملے گی… مثلاً دو رشتہ دار ہیں ایک باپ اور ایک دادا… اس
میں ہم نے باپ کے حصے یاد کرنے ہیں… اور دادا کے حصے بھی اور یہ بات بھی یاد رکھنی
ہے کہ… باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو کچھ نہیں ملے گا… لیجئے شروع کرتے ہیں… شرعی
اعتبار سے رشتہ دار تین قسم کے ہیں:
۱
ذوی الفروض…یعنی مقرر حصوں والے… یہ وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے شریعت نے خود مقرر
فرما دیئے ہیں… یہ کل بارہ رشتہ دار ہیں چار مرد اور آٹھ عورتیں۔
چار مرد یہ ہیں :
۱ باپ
۲ دادا ۳ ماں
شریک بھائی ۴ خاوند۔
اور آٹھ عورتیں یہ ہیں:
۱ بیوی ۲ ماں ۳ بیٹی ۴ پوتی ۵ حقیقی
بہن
۶ باپ
شریک بہن ۷ ماں
شریک بہن ۸ دادی
اور نانی۔
ان میں سے بعض رشتہ داروں
کو تو ہر حال میں حصہ ملتا ہے… جیسا کہ کل کے مکتوب میں گزر چکا… جبکہ بعض کو کبھی
ملتا ہے… کبھی نہیں… تفصیل آگے آتی رہے گی ان شاءاللہ… ایک گزارش یہ ہے کہ… نئے
افراد کے ذہن میں ہر مکتوب کے بعد سوالات آسکتے ہیں… وہ پریشان نہ ہوں… جیسے جیسے
تفصیل آتی جائے گی… ان کو جوابات خود ملتے جائیں گے ان شاءاللہ۔
18/01/2022
’’عصبہ‘‘ رشتہ دار
اللہ تعالیٰ ہمیں اچھی
زندگی اور حسن خاتمہ نصیب فرمائیں۔
رشتہ داروں کی پہلی قسم
’’ذوی الفروض‘‘ ہے… یہ کل بارہ قسم کے رشتہ دار ہیں جو ہم نے کل پڑھ لئے… رشتہ
داروں کی دوسری قسم ’’عصبات نسبی‘‘ ہیں… یعنی میت کے وہ خونی رشتہ دار جو خود بھی
مرد ہوں اور ان کی میت کے ساتھ رشتہ داری بھی کسی مرد کے واسطے سے ہو… عورت کے
واسطے سے نہ… مثلاً ’’پوتا‘‘… یہ مرد رشتہ دار ہے… اور اس کے ساتھ رشتہ داری ایک
مرد یعنی اپنے بیٹے کے واسطہ سے ہے… اس میں بارہ طرح کے رشتہ دار آ جاتے ہیں۔
۱ بیٹا ۲ پوتا ۳ باپ ۴ دادا ۵ حقیقی
بھائی ۶ باپ
شریک بھائی ۷ حقیقی
بھائی کے بیٹے ۸ باپ
شریک بھائی کے بیٹے ۹ حقیقی
چچا ۱۰ باپ
شریک چچا یعنی اپنے والد کا باپ شریک بھائی
۱۱ حقیقی
چچا کے بیٹے ۱۲ باپ
شریک چچا کے بیٹے۔
’’عصبات‘‘ کا شریعت میں کوئی حصہ مقرر نہیں…
بلکہ ’’ذوی الفروض‘‘ کے حصے نکال کر جو مال بچے گا وہ سارا ان کو مل جائے گا… اور
اگر کچھ نہ بچا تو محروم رہ جائیں گے… اور ان کو ملنے کی بھی ترتیب ہے مثلاً بیٹا
موجود ہو گا تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا… باپ موجود ہو گا تو دادا کو کچھ نہیں ملے
گا… باپ، بیٹا وغیرہ موجود ہوں تو بھائی کو کچھ نہیں ملے گا… بھائی موجود ہوں تو
چچا کو کچھ نہیں ملے گا… تفصیل آگے آئے گی ان شاءاللہ۔
19/01/2022
’’ذوی الارحام‘‘ رشتہ
دار
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’صلہ
رحمی‘‘ کی توفیق عطاء فرمائیں… رشتہ داروں کی تیسری قسم ’’ذوی الارحام‘‘ ہیں… یہ
’’میت‘‘ کے وہ رشتہ دار ہیں جو نہ’’ذوی الفروض‘‘ ہیں… اور نہ ’’عصبات‘‘… ان کا حصہ
نہ قرآن و حدیث میں مقرر ہے اور نہ اجماع سے… اور ’’میت‘‘ سے ان کی رشتہ داری کسی
’’عورت‘‘ کے واسطے سے ہوتی ہے… یا وہ خود ’’عورت‘‘ ہوتی ہے… مثلاً خالہ، پھوپھی،
ماموں، بھانجے، نواسے وغیرہ… عام طور پر ’’وراثت‘‘ میں انکا نمبر آتا ہی نہیں
کیونکہ جب تک ذوی الفروض اور عصبات میں سے ایک فرد بھی وارث موجود ہوگا تو ’’ذوی
الارحام‘‘ کو وراثت سے کچھ نہیں ملے گا… اور عصبات کا سلسلہ بہت وسیع ہے… ہر کسی
کا کوئی نہ کوئی ’’عصبہ‘‘ رشتہ دار موجود ہوتا ہے… بہرحال پھر بھی اگر کوئی ایسا
ہو کہ اس کا نہ کوئی ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ دار موجود ہو نہ عصبہ… یا وہ صرف اکیلے
خاوند بیوی ہوں اور ان میں سے ایک کا انتقال ہو جائے… تو پھر ذوی الارحام کو وراثت
میں سے حصہ ملے گا… ایسا موقع کم ہی آتا ہے… پھر بھی ’’ذوی الارحام‘‘ کی اجمالی
فہرست ذہن میں رکھ لیں۔
یہ کل گیارہ قسم کے رشتہ
دار ہوسکتے ہیں:
۱ بیٹی
کی مذکر و مؤنث اولاد نواسے نواسیاں وغیرہ
۲ پوتی
کی مذکر و مؤنث اولاد
۳ نانا
اور نانا کا باپ دادا
۴ نانا
کی ماں
۵ بہنوں
کی اولاد مذکر و مؤنث یعنی بھانجے بھانجیاں
۶ بھائیوں
کی مؤنث اولاد یعنی بھتیجیاں
۷ ماں
شریک بھائیوں کے بیٹے
۸ باپ
کی بہنیں اور انکی اولاد
۹ باپ
کے ماں شریک بھائی اور ان کی اولاد
۱۰ ماں
کے بھائی اور ان کی اولاد ۱۱ماں
کی بہنیں اور ان کی اولاد… اب ہم ’’ذوی الفروض‘‘ اور ’’عصبات‘‘ کی تفصیل شروع کریں
گے تو آپ کے لئے میراث کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ان شاءاللہ۔
20/01/2022
’’والد‘‘ کے حصوں کی
تفصیل
اللہ تعالیٰ ’’نورانی
علم‘‘ نصیب فرمائیں۔
آج سے جو ’’اسباق‘‘ شروع
ہو رہے ہیں… یہ بہت ہی آسان ہیں… ان کو اگر آپ روز یاد کرتے جائیں گے تو دس دن
تک… آپ خود ’’میراث‘‘ تقسیم کرنے کے قابل ہو جائیں گے…ان شاءاللہ۔
ہم نے پڑھ لیا تھا کہ…
بارہ قسم کے رشتہ دا ’’ذوی الفروض‘‘ یعنی ’’مقرر حصوں‘‘ والے کہلاتے ہیں۔
۱باپ ۲ دادا ۳ خاوند ۴ ماں
شریک بھائی ۵ ماں ۶ بیوی
۷ بیٹی ۸ پوتی ۹ سگی
بہن ۱۰ باپ
شریک بہن
۱۱ ماں
شریک بہن ۱۲ دادی،
نانی۔
آج ہم ’’باپ‘‘ کا مسئلہ سمجھیں گے۔
• اگر کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے اور
اس کا ’’والد‘‘ زندہ ہو تو اسے ’’میراث‘‘ میں سے ضرور حصہ ملتا ہے… اب اس کی تین
صورتیں ہیں۔
۱ اگر
’’میت‘‘ کی ’’مذکر‘‘ (یعنی نرینہ اولاد)… مثلاً بیٹا، پوتا… موجود ہو تو ’’میت‘‘
کے والد کو اس کی ’’میراث‘‘ کا ’’چھٹا‘‘ حصہ ملے گا۔
مثلا کسی نے اپنی ’’میراث‘‘ میں کل
تیس ہزار روپے چھوڑے… اور اس کے بیٹے یا پوتے (ایک یا زیادہ) موجود ہیں اور والد
بھی زندہ ہے ’’والد‘‘ کو سارے مال کا چھٹا حصہ ملے گا… یعنی پانچ ہزار روپے۔
۲ اگر
’’میت‘‘ کی مذکر اولاد نہ ہو… لیکن مؤنث (زنانہ) اولاد موجود ہو، جیسے بیٹی،
پوتی… تو ’’والد‘‘ کو ’’چھٹا حصہ‘‘ بھی ملے گا… اور تمام ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ
داروں کے حصے دینے کے بعد کچھ مال بچ گیا تو وہ بھی ’’والد‘‘ کو مل جائے گا۔
۳ اگر
’’میت‘‘ کی کوئی اولاد ہی نہ ہو… اس کا ’’والد‘‘ زندہ ہوتو ’’والد‘‘ ’’عصبہ‘‘ بن
جائے گا… یعنی سارے مال کا وارث… یہ اس صورت میں ہوگا جب ’’میت‘‘ کا کوئی بھی
’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ دار موجود نہ ہو… لیکن اگر ’’میت‘‘ کی اولاد تو نہیں ہے… مگر
اس کا کوئی اور ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ دار موجود ہے تو اس رشتہ دار کا حصہ نکال کر…
باقی سارا مال ’’والد‘‘ کو مل جائے گا۔
مثلًا ایک شخص نے میراث میں کل چالیس
ہزار روپے چھوڑے… اور اس کے ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ داروں میں سے صرف ’’والد‘‘ موجود
ہے تو یہ ساری رقم ’’والد‘‘ کو مل جائے گی… اور اس کے ’’ذوی الفروض‘‘ میں سے
’’بیوی‘‘ بھی موجود ہے تو ’’بیوی‘‘ کا حصہ نکال کر باقی سارا ’’والد‘‘ کو مل جائے
گا… ’’بیوی‘‘ کو اس صورت میں چوتھا حصہ یعنی… چالیس میں سے دس ہزار ملیں گے… اور
’’والد‘‘ کو باقی سارے تیس ہزار۔
خلاصہ یہ کہ… جس ’’میت‘‘ کا والد زندہ
ہو… اور اس میت کی نرینہ اولاد بھی ہوتو والد کو چھٹا حصہ… اگر صرف مؤنث اولاد ہو
تو والد کو چھٹا حصہ اور ذوی الفروض سے بچا ہوا مال… اور اگر میت کی اولاد نہ ہو
تو والد ’’عصبہ‘‘ بن جائے گا… ساری میراث کا مالک یا ذوی الفروض سے بچی ہوئی میراث
کا مالک۔
21/01/2022
’’دادا‘‘ اور ’’خاوند‘‘
کے حصے
اللہ تعالیٰ آسان
فرمائیں… آج کا سبق تو بہت ہی آسان ہے۔
’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ داروں میں سے آج
’’دادا‘‘ پر بات کریں گے۔
’’میت کا دادا‘‘ ان وارثوں میں سے ہے… جسے
اپنے پوتے کی وراثت میں سے کبھی حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں۔
۱ اگر
’’میت‘‘ کا والد زندہ ہو… اور دادا بھی زندہ ہو تو ’’دادا‘‘ کو کچھ بھی نہیں ملے
گا… اور وہ ’’ورثاء‘‘ کی فہرست سے نکل جائے گا۔
۲ اگر
’’میت‘‘ کا والد پہلے وفات پا چکا ہو اور دادا موجود ہو تو اب ’’دادا‘‘… ’’والد‘‘
کی جگہ ہوگا… جو کچھ والد کو ملنا تھا اب دادا کو ملے گا… یعنی اگر میت کی مذکر
اولاد موجود ہو تو دادا کو چھٹا حصہ ملے گا… اگر صرف مؤنث اولاد موجود ہو تو دادا
کو چھٹا حصہ اور ذوی الفروض سے بچا ہوا مال بھی ملے گا… اور اگر میت کی اولاد نہ
ہو تو دادا ’’عصبہ‘‘ ہوگا… گزشتہ کل کا سبق دیکھ لیں… ’’دادا‘‘ کے لئے وہ سب کچھ
ہوگا جو والد کے لئے تھا۔
’’ذوی الفروض‘‘ میں تیسرا مرد ’’خاوند‘‘ ہے۔
اگر کسی عورت کا انتقال
ہو جائے اور اس کا خاوند زندہ ہوتو… خاوند کو اپنی بیوی کی میراث میں سے ضرور حصہ
ملے گا… اور اس کی دو صورتیں ہیں۔
۱ اگر
عورت کی اولاد ہو تو خاوند کو اس کی میراث کا چوتھا حصہ ملے گا… مثلًا کسی عورت کی
کل میراث چالیس ہزار روپے ہے اور اس کی اولاد موجود ہے تو خاوند کو چوتھا حصہ یعنی
دس ہزار روپے ملیں گے… (عورت کی اولاد سے مراد کوئی بیٹا، بیٹی… یا بیٹے کی اولاد،
پوتا پوتی وغیرہ ہیں)۔
۲ اگر
وفات پانے والی عورت کی اولاد نہیں ہے تو خاوند کو اس کی آدھی میراث ملے گی…تمام
چھوڑے ہوئے مال سے ’’نصف‘‘… یعنی چالیس ہزار میں سے بیس ہزار… اب تک ہم نے والد،
دادا اور خاوند کے حصے پڑھ لئے… ان کو اچھی طرح یاد کرلیں۔
22/01/2022
’’ماں شریک‘‘ بھائی اور
بہن کے حصے
اللہ تعالیٰ ہمیں
’’جہالت‘‘ کی تاریکی سے بچائیں۔
ہم پڑھ چکے کہ ’’ذوی
الفروض‘‘ رشتہ داروں میں چار مرد اور آٹھ عورتیں ہیں… آج چوتھے مرد کی بات ہو گی
جوکہ ماں شریک بھائی ہے… (اسی کے ساتھ ماں شریک بہن کا مسئلہ بھی آ جائے گا
کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے)۔
ماں
شریک بھائی
کسی عورت کی شادی ہوئی
اور اس سے اس کی اولاد بھی ہوئی… پھر اس کے خاوند کا انتقال ہو گیا… یا خاوند نے
طلاق دے دی… اس عورت نے ’’عدت‘‘ کے بعد دوسری شادی کرلی… اس سے بھی اس کی اولاد
ہوئی… اب پہلے خاوند سے ہونے والی اولاد… اور دوسرے خاوند سے ہونے والی اولاد آپس
میں ’’ماں شریک‘‘ بہن بھائی کہلائیں گے…
کیونکہ ان کی ’’ماں‘‘ ایک ہے… جبکہ ’’باپ‘‘ الگ الگ… عربی میں انکو
’’اخیافی‘‘ یا ’’خیفی‘‘ بہن بھائی کہتے ہیں… ’’بیوہ‘‘ یا ’’طلاق یافتہ‘‘ عورت کا…
عدت گزرنے کے بعد دوسرا نکاح کرنا… کوئی عیب،جرم یا گناہ نہیں ہے… اسے اللہ تعالیٰ
کی طرف سے اس کی اجازت ہے… وہ اگر اپنے خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد اپنے بچوں کی
خاطر دوسرا نکاح نہ کرے تو اس کے لئے اجر و ثواب ہے… لیکن اگر نکاح کر لے تو بالکل
جائز ہے… جو لوگ بیوہ یا مطلقہ عورت کے دوسرے نکاح کو عیب سمجھتے ہیں… وہ بہت سخت
گناہ اور غلطی کرتے ہیں… کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کو انہوں نے ’’عیب‘‘
سمجھا (نعوذ باللہ)… اگر کسی کا انتقال ہو جائے… اور اس کے ماں شریک بھائی بہن
موجود ہوں تو انہیں اپنے بھائی کی وراثت میں سے کبھی حصہ ملتا ہے… اور کبھی نہیں…
اس کی تفصیل یہ ہے:
۱ اگر
’’میت‘‘ کے باپ یا دادا موجود ہوں… یا میت کی اولاد موجود ہو تو ماں شریک بھائی…
اور ماں شریک بہن کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا… اور وہ ’’ورثاء‘‘ کی فہرست
سے خارج ہو جائیں گے۔
۲ اگر
’’میت‘‘ کے باپ دادا بھی نہیں ہیں… اولاد بھی نہیں ہے تو دیکھا جائے گا کہ ماں
شریک بھائی یا بہن ایک ہے یا زیادہ… اگر صرف ایک ہو تو اسے میراث کا ’’سدس‘‘ یعنی
چھٹا حصہ ملے گا۔
۳ اور
اگر ماں شریک بھائی یا بہنیں ایک سے زیادہ ہوں تو ان کو میراث میں سے ایک تہائی…
یعنی تیسرا حصہ ملے گا… جسے وہ آپس میں برابر تقسیم کر لیں گے… یہاں بہن کو بھی
بھائی کے برابر ملے گا… مثال کے طور پر… ایک شخص کا انتقال ہوا… اس نے کل میراث
’’تیس ہزار‘‘ روپے چھوڑی ہے… اس کے ماں شریک بھائی بہن بھی زندہ ہیں… اور اس کی
اپنی اولاد بھی ہے… کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ… تو اس صورت میں ماں شریک
بھائی بہنوںکو… ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا… اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں ہے مگر
اس کا والد یا دادا زندہ ہے تو اب بھی ماں شریک بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا…
لیکن اگر اس کی اولاد بھی نہیں ہے اور باپ دادا بھی زندہ نہیں تو اب ماں شریک
بھائی بہنوں کو حصہ ملےگا… اور وہ اس طرح کہ… اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن تو اسے
چھٹا حصہ… یعنی پانچ ہزار مل جائیں گے… اور اگر ایک سے زیادہ ہوں مثلًا دو ہوں…
ایک ماں شریک بھائی اور ایک ماں شریک بہن… تو ان دونوں کو مشترکہ طور پر میراث کا
ایک تہائی… یعنی تیسرا حصہ ملے گا… تیس ہزار میں سے دس ہزار… پھر وہ دس ہزار ان
دونوں میں برابر تقسیم ہوں گے… یعنی پانچ پانچ ہزار۔
23/01/2022
’’بیوی‘‘ کے حصے
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے
کہ… ’’مقدس علم‘‘ کے ابواب سیکھنے کی توفیق عطاء فرمائی۔
بارہ ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ
داروں میں سے پانچ کے احکامات ہم پڑھ چکے۔
۱باپ
۲دادا ۳خاوند ۴ماں شریک بھائی ۵ماں شریک بہن۔
آج ہم ’’بیوی‘‘ کی بات
کریں گے۔
اگر کسی کا انتقال ہو
جائے اور اس کی ’’بیوی‘‘ زندہ ہوتو ’’بیوی‘‘ کو اپنے خاوند کی ’’میراث‘‘ میں سے
ضرور حصہ ملتا ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے:
۱ اگر
میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو ’’میراث‘‘ کا چوتھا حصہ ملے گا۔
۲ اگر
’’میت‘‘ کی اولاد موجود ہو تو ’’بیوی‘‘ کو ’’میراث‘‘ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔
مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہوا… اس کا کل ترکہ (یعنی میراث) چالیس ہزار روپے ہے… اور اس کی کوئی بھی اولاد
نہیں ہے… نہ بیٹا، نہ بیٹی، نہ بیٹے کی اولاد یعنی پوتا پوتی… تو اب اس کی بیوی
کو… کل ترکے کا چوتھا حصہ… یعنی دس ہزار روپے ملیں گے۔
اور اگر اس کی اولاد (ایک
یا زیادہ) موجود ہو تو ’’بیوی‘‘ کو کل میراث کا آٹھواں حصہ یعنی پانچ ہزار روپے
ملیں گے۔
عربی میں چوتھے حصے کو
’’رُبُع‘‘… آٹھویں حصے کو ’’ثُمُن‘‘… چھٹے حصے کو ’’سُدُس‘‘… تیسرے حصے کو
’’ثُلُث‘‘ اور آدھے کو ’’نِصْف‘‘ کہتے ہیں۔
24/01/2022
’’بیٹی‘‘ کے حصے اور’’
مشق‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری
’’اولاد‘‘ کو صالح اور ’’خوش نصیب‘‘ بنائے۔
آج ’’بیٹی‘‘ کی بات
ہوگی… اور کچھ ’’مشق‘‘ بھی ان شاءاللہ۔
اگر کسی (مرد یا عورت) کا
انتقال ہو جائے… اور اس کی ’’بیٹی‘‘ یا ’’بیٹیاں‘‘ موجود ہوں تو ان کو ’’میراث‘‘
میں سے ضرور حصہ ملے گا… جس کی تفصیل یہ ہے:
۱ اگر
’’بیٹی‘‘ ایک ہو… اور میت کا بیٹا نہ ہو تو ’’بیٹی‘‘ کو نصف یعنی آدھی میراث مل
جائے گی۔
۲ اگر
بیٹیاں ایک سے زائد ہوں تو ان کو ’’دوتہائی‘‘ وراثت ملے گی جو ان میں برابر برابر
تقسیم ہو گی۔
مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہوگیا… اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے… مگر ایک بیٹی ہے… اور اس نے کل وراثت تیس ہزار
روپے چھوڑی ہے تو اس بیٹی کو ساری وراثت کا آدھا حصہ… یعنی پندرہ ہزار مل جائیں
گے… اور اگر اس کی دو بیٹیاں ہیں تو ان دونوں کو دوتہائی وراثت ملے گی… یعنی بیس
ہزار… پھر وہ ان دونوں میں آدھی آدھی تقسیم ہو گی… یعنی دس دس ہزار۔
۳ اگر
بیٹی کے ساتھ میت کا بیٹا بھی موجود ہوں تو اب بیٹی ’’عصبہ‘‘ بن جائے گی… یعنی ”ذوی الفروض… میں تقسیم کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا… وہ بیٹے
اور بیٹی میں تقسیم ہو جائے گا… اور بیٹے کو بیٹی سے ڈبل حصہ ملے گا… اور اگر
’’ذوی الفروض‘‘ موجود نہ ہوں تو… سارا مال بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم ہو جائے گا…
اور بیٹوں کو بیٹیوں سے دگنا ملے گا۔
مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہوا… اس نے تیس ہزار روپے وراثت چھوڑی… اس کا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی… تو یہ
سارا مال ان دونوں کو مل جائے گا… بیس ہزار بیٹے کو… اور دس ہزار بیٹی کو۔
اور اگر اس کے ’’ذوی
الفروض‘‘ میں سے کوئی زندہ ہے… مثلاً والد… تو والد کو چھٹا حصہ دیں گے… اور باقی
سارا مال بیٹے اور بیٹی کا ہو جائے گا… اور بیٹے کو بیٹی سے دگنا ملے گا۔
مَشق
سوال۱
ایک عورت کا انتقال ہوا…
اس کے ورثاء میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور خاوند ہے… کل ترکہ چالیس ہزار ہے… تقسیم
کریں۔
سوال۲
ایک شخص کا انتقال ہوا…
اس کی کل وراثت تیس ہزار ہے… ورثاء میں ایک بیٹی اور والد ہیں… تقسیم کریں۔
سوال۳
ایک شخص کا انتقال ہوا…
اس کے ورثاء میں تین بیٹیاں، ایک بیوی اور دادا ہیں۔
جواب۱
خاوند کو دس ہزار، بیٹے
کو بیس ہزار، بیٹی کو دس ہزار۔
جواب۲
بیٹی کو پندرہ ہزار، والد
کو پانچ ہزار… اور پھر بچا ہوا دس ہزار بھی… یعنی کل پندرہ ہزار۔
جواب۱
بیوی کو آٹھواں حصہ…
بیٹیوں کو دو تہائی مال… دادا کو چھٹا حصہ… اور پھر جو کچھ بچ گیا۔
(عربی میں دو تہائی کو ’’ثُلُثَان‘‘ کہتے
ہیں)
(تیس ہزار کا تیسرا حصہ یعنی دس ہزار ایک تہا
ئی (ثلث) کہلاتا ہے… یوں دو تہائی ’’ثُلُثَان‘‘ بیس ہزار ہوں گے)
25/01/2022
’’پوتی‘‘ کے حصے اور
ایک ’’غلط فہمی‘‘ کا ازالہ
اللہ تعالیٰ ہماری
’’نسلوں‘‘ میں قیامت تک دین اسلام جاری فرمائیں۔
آج ’’پوتی‘‘ کی بات
ہوگی… ان شاء اللہ۔
اگر کسی مرد یا عورت کا
انتقال ہو جائے… اور اس کی پوتی یا پوتیاں موجود ہوں تو ان کو کبھی وراثت میں حصہ
ملتا ہے اور کبھی نہیں۔
یہاں ایک ’’غلط
فہمی‘‘ کا ازالہ کرلیں… ’’ذوی الفروض‘‘
رشتہ داروں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے ’’ذوی الفروض‘‘ کو ضرور وراثت کا حصہ ملے
گا… ایسا بالکل نہیں ہے… ’’ذوی الفروض‘‘ میں سے صرف والد، خاوند، بیوی، بیٹی اور
والدہ کو تو ضرور حصہ ملتا ہے… جبکہ باقی کو کبھی ملتا ہے، کبھی نہیں… ’’ذوی
الفروض‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان رشتہ داروں کو وراثت ملی تو ان کے حصے مقرر ہیں…
چھٹا، آٹھواں، چوتھا، آدھا، تہائی، دو تہائی… ان مقرر حصوں کی وجہ سے ان کو
’’ذوی الفروض‘‘ یعنی مقرر حصوں والاکہتے ہیں… اب دیکھیں کہ ’’بیٹا‘‘ ’’ذوی
الفروض‘‘ میں سے نہیں ہے… کیونکہ اس کا کوئی حصہ مقرر نہیں… مگر اس کو میراث ضرور
ملتی ہے… کبھی ساری اور کبھی جو بچ جائے… اس کے لئے کوئی خاص حصہ مقرر نہیں آدھا،
چوتھا وغیرہ۔
آئیے پوتی کی بات کرتے
ہیں۔
۱ اگر
میت کا بیٹا موجود ہو (ایک یا زیادہ) تو پوتی کو کچھ نہیں ملے گا۔
۲ اگر
میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو مگر اس کی دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں تو پوتی
کو کچھ نہیں ملے گا۔
۳ اگر
میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں صرف ایک پوتی ہو تو اسے ساری میراث کا نصف یعنی آدھا
حصہ ملے گا۔
۴ اگر
میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں… اور اس کی دو یا دو سے زیادہ پوتیاں ہوں تو ان کو دو
تہائی مال ملے گا جو ان میں برابر تقسیم ہوگا۔
۵ اگر
میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں… اور اس کی ایک سے زیادہ پوتیاں ہوں اور ان کے ساتھ پوتا
بھی ہو تو یہ ’’عصبہ‘‘ بن جائیں گی… یعنی دیگر ’’ذوی الفروض‘‘ میں تقسیم کرکے جو
کچھ بچے گا وہ پوتے پوتیوں میں تقسیم ہو جائے گا… اور پوتے کو پوتی سے دگنا ملے
گا۔
۶ اگر
میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو لیکن صرف ایک بیٹی ہو… تو پوتیوں کو چھٹا حصہ ملے گا…
خواہ ایک پوتی ہو یا زیادہ ہوں۔
پوتی کا مسئلہ تھوڑا
پھیلا ہوا لگتا ہے… مگر یہ آسان ہے دراصل ’’پوتی‘‘ بالکل ’’بیٹی‘‘ کی جگہ آجاتی
ہے… جبکہ میت کا بیٹا نہ ہو یا دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں نہ ہوں… اگر آپ کو
’’بیٹی‘‘ کا مسئلہ یاد ہوگا تو پوتی کا بھی تقریبًا وہی مسئلہ ہے۔
26/01/2022
’’حقیقی بہن‘‘ کے حصے
اللہ تعالیٰ ’’دین‘‘ کی ’’فقہ‘‘ نصیب
فرمائیں۔
آج ’’ذوی الفروض‘‘ میں سے ’’سگی
بہن‘‘ کی بات ہوگی ان شاءاللہ۔
’’میت‘‘ کی سگی یا حقیقی بہن وہ ہوتی ہے کہ
جس کے اور ’’میت‘‘ کے ماں باپ ایک ہوں… اس بہن کو ’’میراث‘‘ میں سے کبھی حصہ ملتا
ہے اور کبھی نہیں۔
تفصیل یہ ہے:
۱ اگر
’’میت‘‘ کے ’’اصول مذکر‘‘ یعنی باپ یا دادا موجود ہوں… یا ’’میت‘‘ کے ’’فروع
مذکر‘‘ یعنی بیٹا یا پوتا موجود ہوں تو ’’سگی بہن‘‘ کو ’’میراث‘‘ میں سے کوئی حصہ
نہیں ملتا۔
(’’میت‘‘ کے ’’اصول مذکر‘‘ ان مردوں کو کہتے
ہیں جن سے یہ پیدا ہوا ہو… اصول معنٰی جڑیں اور ’’فروع مذکر‘‘ وہ مرد جو اس سے
پیدا ہوئے ہیں… فروع معنٰی شاخیں)
۲ اگر
’’میت‘‘ کے باپ یا دادا، بیٹا یا پوتا تو نہ ہوں مگر اس کی ’’فروع مؤنث‘‘ یعنی
بیٹی یا پوتی ایک یا زیادہ موجود ہوں تو سگی بہن ’’عصبہ‘‘ بن جائے گی… یعنی باقی
ذوی الفروض کو دیکر جو کچھ بچے گا وہ اسے مل جائے گا۔
۳ اگر
’’میت‘‘ کے ’’اصول مذکر‘‘ میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوں… یعنی نہ باپ نہ دادا اور
نہ اس کی کوئی مذکر یا مؤنث اولاد تو اب ’’سگی بہن‘‘ کا حکم ’’بیٹی‘‘ والاہوگا…
ایک ہوئی تو آدھا (نصف مال) دو یا زیادہ ہوئیں تو دو تہائی یعنی ثلثان… اگر ساتھ
’’حقیقی بھائی‘‘ بھی موجود ہو تو ’’عصبہ‘‘ بن جائے گی… (بیٹی کے حالات ایک بار
دیکھ لیں)۔
27/01/2022
وقفہ
اللہ تعالیٰ ہماری
’’زندگی‘‘ ’’اوقات‘‘ اور ’’موت‘‘ میں ’’برکت‘‘ عطاء فرمائیں۔
الحمدللہ ’’میراث‘‘ کے 22
اسباق ہو چکے ہیں… کئی خوش نصیب افراد نے یاد بھی کر لئے ہیں… آج ’’جمعہ
المبارک‘‘ کا دن ہے تو سوچا کہ کچھ ’’وقفہ‘‘ اور کچھ ’’ترغیب‘‘ ہو جائے… ’’وقفہ‘‘
ان کے لئے جو محنت سے ’’قانونِ میراث‘‘ پڑھ رہے ہیں… وہ عظیم رب کے ’’قانون‘‘ میں
(ایل ایل بی) کر رہے ہیں… ساتھ وہ اس نعمت پر شکر بھی اداء کر رہے ہیں کہ۔
’’نورانی علم‘‘ خود ان کے گھر اور ان کی جیب
تک پہنچ جاتا ہے… یہ حضرات و خواتین آج
جمعہ کے دن اپنے پچھلے اسباق ’’دھرا‘‘ لیں… یاد کرلیں… دین کے مبارک علم کا ایک
سبق یاد کرنا ساری رات مصلے پر نفل عبادت میں گزارنے سے بدرجہا افضل ہے… اور ’’ترغیب‘‘
ان کے لئے ہے جن کی اب تک ’’توجہ‘‘ نہیں ہو رہی… وقت تو ان کے پاس بھی کافی ہوتا
ہے مگر فضول اور نا مناسب چیزوں میں ضائع ہو جاتا ہے… ان تک ’’مکتوب‘‘ پہنچتا ہے
تو سوچتے ہیں… بعد میں پڑھ لیں گے… فارغ ہوکر سمجھ لیں گے… اور یوں فرصت کے قیمتی
لمحات گزر جاتے ہیں… اور نعمت کے تقسیم ہونے کا وقت ختم ہو جاتا ہے… ایسے حضرات و
خواتین کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں… خوش نصیبی کی فریاد کریں… اور اپنی
زندگی کو قیمتی بنائیں… میراث کا علم نہ سیکھنا قیامت کی بُری نشانیوں میں سے ہے…
اب صرف پانچ سات اسباق باقی رہ گئے ہیں… آپ تمام اسباق کو سامنے رکھ کر ایک کاغذ
پر… رشتہ داروں کے نام، ان کی ترتیب اور ان کے حصے لکھ لیں… پھر سب سے پہلے خود کو
لیں کہ اگر میری موت آج ہوگئی تو کون کون وارث ہوگا؟… اور کسے کتنا حصہ ملے گا؟…
اور کسے نہیں ملے گا؟… اسی طرح روز ایک دو زندہ افراد جن کے رشتہ دار آپ کو معلوم
ہوں… ان کے مسئلے کی مشق کرتے رہیں… اگلے پانچ سات اسباق کے بعد آپ کے لئے ایسا
صفحہ بنانا بالکل آسان ہوجائے گا… اس صفحے کو سامنے رکھ کر آپ روز مشق کرتے رہیں
گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ ’’میراث‘‘ کے ماہر بن جائیں گے… ان شاءاللہ… اس لئے نہ
تھکیں… اور نہ سستی کریں۔
ہم دین کو زندہ کرنے والے
بنیں گے تو… ہمیں حقیقی زندگی نصیب ہو گی… میراث سبق 23 کل پیش ہوگا ان شاءاللہ
تعالیٰ۔
28/01/2022
’’باپ شریک بہن‘‘ کے
حصے
اللہ تعالیٰ اپنے دین کا
’’علم‘‘ نصیب فرمائیں۔
آج بات ہو گی ’’علاتی‘‘
بہن کی… عربی میں باپ شریک بھائی اور بہن کو (علاتی بہن، بھائی) کہتے ہیں۔
یعنی ’’میت‘‘ اور اس کا
’’باپ‘‘ ایک ہو جبکہ ’’ماں‘‘ الگ الگ۔
’’علاتی بہن‘‘ کا مسئلہ بالکل آسان ہے…اگر
کسی کی ’’سگی بہن‘‘ نہ ہو تو ’’باپ شریک بہن‘‘ اس کے ’’قائم مقام‘‘ بن جائے گی…
اور اس کے احکامات تقریبًا سگی بہن والے احکامات ہوں گے… پھر بھی تفصیل پڑھ لیتے
ہیں۔
’’علاتی بہن‘‘ کو ’’میراث‘‘ میں سے کبھی حصہ
ملتا ہے اور کبھی نہیں۔
۱ اگر
میت کے اصول (یعنی باپ دادا) فروع (یعنی بیٹا پوتا) حقیقی بھائی… یا حقیقی بہن (جس
کے ساتھ بیٹی یا پوتی ہو)… میں سے کوئی بھی موجود ہو تو باپ شریک بہن کو میراث میں
سے کچھ نہیں ملتا۔
یعنی ’’باپ شریک بہن‘‘ کو
میراث میں شامل کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ ان مذکورہ چھ رشتہ داروں میں سے کوئی ایک
بھی موجود نہ ہو… اگر کوئی ایک بھی موجود ہوا تو ’’علاتی بہن‘‘ ورثاء میں شامل
نہیں ہوگی۔
۲ اور
اگر یہ سب موجود نہ ہوں تو ’’علاتی بہن‘‘ کا حکم ’’بیٹی‘‘ والاہو گا… ایک ہوئی تو
نصف مال… دو یا زیادہ ہوئیں تو دو تہائی مال ملے گا۔
۳ اگر
اوپر والے تمام رشتہ دار تو موجود نہیں ہیں مگر میت کی فروع مؤنث (یعنی بیٹی یا
پوتی) موجود ہے تو ’’علاتی بہن‘‘ عصبہ بن جائے گی۔
۴ اگر
اوپر والے تمام رشتہ دار تو موجود نہیں ہیں مگر ’’میت‘‘ کی صرف ایک ’’سگی بہن‘‘
موجود ہو تو علاتی بہن کو چھٹا حصہ ملے گا… اور اگر میت کی دو یا زیادہ سگی بہنیں
موجود ہوں تو ’’علاتی بہن‘‘ کو کچھ نہیں ملے گا… لیکن اگر ان دونوں صورتوں میں
علاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی بھی موجود ہوا تو یہ ’’عصبہ‘‘ بن جائے گی۔
29/01/2022
’’ماں‘‘ کے حصے
اللہ تعالیٰ ’’والدین‘‘
کے حقوق… اداء کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
آج ’’ماں‘‘ یعنی
’’والدہ‘‘ کی بات ہوگی… اگر کسی کا انتقال ہو جائے… اور اس کی ’’ماں‘‘ زندہ ہو تو
’’ماں‘‘ کو اس کی میراث میں سے ضرور حصہ ملے گا۔
تفصیل یہ ہے۔
۱ اگر
میت کی اولاد موجود ہو… (ایک یا زیادہ) یا اس کے بھائی بہن موجود ہوں… دو یا
زیادہ… تو میت کی ’’ماں‘‘ کو اس کی میراث میں سے ’’سُدُس‘‘ یعنی چھٹا حصہ ملے گا۔
۲ اگر
میت کی کوئی اولاد موجود نہ ہو (نہ بیٹا، نہ بیٹی، نہ پوتا، نہ پوتی) اور نہ اس کے
دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی موجود ہوں… اور نہ میت کی بیوی یا خاوند اس کے والد
کے ساتھ موجود ہوں تو اس کی ’’والدہ‘‘ کو اس کی میراث کا پورا ’’ثُلُث‘‘ یعنی
تیسرا حصہ ملے گا۔
۳ اگر
میت کی کوئی اولاد موجود نہ ہو… اور نہ اس کے دو یا زیادہ بہن بھائی موجود ہوں…
مگر اس کی بیوی یا خاوند… اس کے والد کے ساتھ موجود ہوں تو ’’والدہ‘‘ کو بچی ہوئی
میراث کا تیسرا حصہ ملے گا… مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا… اس کی اولاد نہیں ہے اور
اس کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی بھی نہیں ہیں… مگر اس کا والد اور بیوی موجود
ہیں تو میراث میں سے ’’ذوی الفروض‘‘ کو ان کے حصے دیکر باقی جو میراث بچے گی… اس
کا تیسرا حصہ والدہ کو دیا جائے گا… یا کسی عورت کا انتقال ہوا… اس کی اولاد نہیں
ہے… اور اس کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی بھی نہیں ہیں… مگر اس کا والد اور
خاوند موجود ہیں تو ’’والدہ‘‘ کو بچی ہوئی میراث کا تیسرا حصہ ملے گا۔
خلاصہ :
’’والدہ‘‘ کو ’’میراث‘‘ دینے کے لئے ’’میت‘‘
کی ’’اولاد‘‘ اور ’’بہن بھائی‘‘ دیکھیں… اگر یہ موجود ہوں تو’’والدہ‘‘ کو چھٹا حصہ
ملے گا… اولاد اور بہن بھائی موجود نہ ہو تو دیکھیں کہ میّت کا والد… میت کی بیوی
یا خاوند کے ساتھ موجود ہے یا نہیں… اگر موجود ہو تو ’’والدہ‘‘ کو بچی ہوئی میراث
کا تیسرا حصہ ملے گا… یعنی میت کے خاوند
یا بیوی کو دینے کے بعد جو بچے گا اس کا تیسرا حصہ… اور اگر اولاد بھی نہ ہو، دو
یا زیادہ بہن بھائی بھی نہ ہوں اور والد بھی خاوند یا بیوی کے ساتھ موجود نہ ہو تو
’’والدہ‘‘ کو پوری میراث کا تیسرا حصہ ملے گا… مثلاً میت کی صرف بیوی موجود ہے
ساتھ والد نہیں ہے… یا خاوند موجود ہے ساتھ والد نہیں ہے… یا والد موجود ہے مگر
خاوند یا بیوی موجود نہیں ہے… تو والدہ کو تیسرا حصہ ملے گا۔
30/01/2022
’’دادی‘‘ اور ’’نانی‘‘
کے حصے
اللہ تعالیٰ نے
’’بزرگوں‘‘، ’’بڑوں‘‘ میں برکت رکھی ہے۔
آج ’’دادی‘‘ اور
’’نانی‘‘ کی بات ہوگی… ان شاءاللہ۔
’’دادی‘‘ اور ’’نانی‘‘ کو کبھی ’’وراثت‘‘ سے
حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں… تفصیل یہ ہے۔
۱ اگر
کسی کا انتقال ہو جائے اور اس کی دادی یا نانی زندہ ہو… مگر ’’میت‘‘ کی ’’ماں‘‘
موجود نہ ہو تو ’’دادی یا نانی‘‘ کو اس کی میراث میں سے ’’سُدُس‘‘ یعنی چھٹا حصہ
ملے گا… اگر دادی اور نانی دونوں زندہ ہوں تو دونوں کو اکٹھا ’’سُدُس‘‘ یعنی چھٹا
حصہ ملے گا… جو وہ آپس میں تقسیم کر لیں گی۔
۲ اگر
’’میت‘‘ کی ’’والدہ‘‘ زندہ ہو تو دادی اور نانی کو کچھ نہیں ملتا۔
۳ اگر
’’میت‘‘ کا ’’والد‘‘ زندہ ہو (والدہ زندہ نہ ہو) تو دادی کو کچھ نہیں ملے گا البتہ
’’نانی‘‘ کو چھٹا حصہ ملے گا… (دادی اور نانی کا آسان اور عملی مسئلہ مکمل ہوا)
’’دادی‘‘ کہتے ہیں ’’باپ‘‘ کی ’’والدہ‘‘ کو اور ’’نانی‘‘ کہتے ہیں ’’ماں‘‘ کی
’’والدہ‘‘ کو… عربی میں ان دونوں کو
’’جدّہ صحیحہ‘‘کہتے ہیں۔
’’جدّہ‘‘ کا مسئلہ بہت دور تک جاتا ہے… مثلاً
دادی نہ ہو تو دادا کی ماں… پھر دادی کی ماں، پھر پردادا کی ماں، پھر پردادی کی
ماں وغیرھا… یہ سب ’’جدّہ‘‘ کہلاتی ہیں… اور نانی کے بعد ماں کی نانی… اور نانی کی
نانی بھی ’’جدّہ‘‘ کہلاتی ہے… اگر قریب کی ’’جدّہ‘‘ موجود نہ ہو تو پھر اُس کے بعد
والی ’’جدّہ‘‘ وارث ہوگی… کتابوں میں یہ مسئلہ بہت تفصیل سے لکھا ہوتا ہے… آپ وہ
دیکھ کر گھبرا نہ جائیں، اس لئے اشارہ کردیا… ورنہ آج کل کی خوراک اور موسم میں
کہاں اتنی دور دور والی ’’دادیاں‘‘، ’’نانیاں‘‘ پائی جاتی ہیں؟۔
31/01/2022
ماہ (2)
فروری
’’حصوں ‘‘ کی پہلی
فہرست
اللہ تعالیٰ کا ’’شکر‘‘
ہے کہ… بارہ ’’ذوی الفروض‘‘ کی تفصیل ہم نے آسانی سے پڑھ لی۔
اب ’’عصبات‘‘ کا بیان ہو
گا… اور وہ اتنا آسان ہے کہ صرف ایک ’’سبق‘‘ سے ہی آپ پورا سمجھ لیں گے ان
شاءاللہ… ’’عصبات‘‘ کے بعد ’’ذوی الارحام‘‘ کا مسئلہ اور زیادہ آسان ہے… وہ بھی
آپ ایک ’’سبق‘‘ سے سمجھ لیں گے ان شاءاللہ… یعنی اب ’’میراث‘‘ کے ضروری علم کو
سمجھنے کے لئے… آپ کو صرف ’’دو اسباق‘‘ کی ضرورت ہے… مگر اُن دو ’’اسباق‘‘ سے
پہلے ’’ذوی الفروض‘‘ کے بعض خلاصے پیش کئے جارہے ہیں… یہ آپ کے بہت کام آ سکتے
ہیں… ان شاءاللہ۔
ہم نے پڑھ لیا کہ… بعض
ورثاء کو نصف یعنی ساری میراث کا آدھا مال ملتا ہے… بعض کو ’’ربع‘‘ یعنی مال کا
چوتھا حصہ وغیرہ۔
اس طرح وہ حصے جو مختلف
’’ورثاء‘‘ کو ملتے ہیں کل چھ ہیں:
۱نِصْف
آدھا ۲رُبُع
یعنی چوتھائی ۳ثُمُن
یعنی آٹھواں ۴ثُلُث
یعنی ایک تہائی ۵ثُلُثَان
یعنی دو تہائی ۶سُدُس
یعنی چھٹا حصہ۔
اب ہم دو فہرستیں بنائیں
گے… پہلی فہرست کہ کونسا حصہ کس کس رشتہ دار کو ملتا ہے… اور دوسری فہرست کہ کون
سے رشتہ دار کو کون کون سا حصہ مل سکتا ہے۔
پہلی فہرست
۱ نِصْف:
یعنی ساری میراث کا آدھا حصہ یہ پانچ
رشتہ داروں کو مل سکتا ہے۔
• خاوند، • بیٹی، پوتی، سگی بہن، باپ شریک
بہن۔
مثلاً خاوند کو نصف یعنی آدھی میراث
تب ملتی ہے جب میت کی اولاد نہ ہو… باقی چار کو اسباق میں دیکھ لیں کہ ان کو
’’نِصْف‘‘ کب ملتا ہے؟۔
۲ رُبُع:
یعنی ساری میراث کا چوتھا حصہ… یہ دو
رشتہ داروں کو مل سکتا ہے۔
خاوند، بیوی۔
۳ ثُمُن:
یعنی میراث کا آٹھواں حصہ… یہ صرف
ایک رشتہ دار کو ملتا ہے… اور وہ ہے ’’زوجہ‘‘ یعنی ’’بیوی‘‘۔
۴ ثُلُث:
یعنی
ترکے کا تیسرا حصہ… یہ دو رشتہ داروں کو مل سکتا ہے۔
•ماں •ماں شریک بھائی اور ماں شریک بہن جب دو
یا دو سے زیادہ ہوں۔
۵ ثُلُثَان:
یعنی ترکے کا دو تہائی حصہ… یہ چار
رشتہ داروں کو مل سکتا ہے۔
• بیٹی، پوتی، سگی بہن، باپ شریک بہن۔
۶ سُدُس:
یعنی ترکے کا چھٹا حصہ… یہ آٹھ رشتہ
داروں کو مل سکتا ہے۔
• باپ، دادا، ماں شریک بھائی، ماں شریک بہن،
پوتی، باپ شریک بہن، ماں، دادی، نانی۔
اب آپ اپنے اسباق کھول کر دیکھتے
جائیں کہ… کس رشتہ دار کو کس حالت میں یہ حصے ملیں گے۔
01/02/2022
’’حصوں‘‘ کی دوسری
فہرست
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
آج دوسری ’’فہرست‘‘ بنائیں گے کہ… ’’ذوی الفروض‘‘ یعنی مقرر حصوں والے بارہ رشتہ
داروں کو… مختلف حالات میں کون کون سے حصے مل سکتے ہیں… ہم نے پڑھ لیا کہ حصے کل
چھ ہیں۔
۱ نِصْف ۲رُبُع ۳ ثُمُن
۴ ثُلُث
۵ ثُلُثَان ۶ سُدُس۔
۱ باپ…
ان کو ’’سُدُس‘‘ ملتا ہے جب میت کی اولاد موجود ہو۔
۲ دادا…
ان کو بھی ’’سُدُس‘‘ ملتا ہے، جب میت کا باپ نہ ہو اور اولاد موجود ہو۔
۳ ماں
شریک بہن بھائی… ان کو کبھی ’’ثُلُث‘‘ کبھی ’’سُدُس‘‘ تفصیل اسباق میں دیکھ لیں۔
۴ خاوند…
کبھی نصف… کبھی ربع۔
۵ بیوی…
کبھی ربع… کبھی ثمن۔
۶ بیٹی…
کبھی نصف… کبھی ثلثان (دو تہائی)۔
۷ پوتی…
کبھی نصف… کبھی سدس… کبھی ثلثان۔
۸ سگی
بہن… کبھی نصف… کبھی ثلثان۔
۹ باپ
شریک بہن… کبھی نصف… کبھی سدس… کبھی ثلثان۔
۱۰ ماں…
کبھی ثلث… کبھی سدس… کبھی ثلث باقی (یعنی بچے ہوئے مال کا ایک تہائی)۔
۱۱ دادی،
نانی… سدس۔
ملاحظہ :
فہرست میں نمبرات ۱۱ لگے ہیں… کیونکہ ماں
شریک بھائی اور ماں شریک بہن کو اکٹھا نمبر۳ میں لکھ دیا ہے۔
الحمدللہ دو فہرستیں مکمل
ہو گئیں… ’’ذوی الفروض‘‘ کے مزید بھی کچھ مزیدار خلاصے ہیں… جن کو یاد کرنے سے
’’علمِ میراث‘‘ آسان ہو جاتا ہے… مگر آپ کو آخری دو اسباق کا شدت سے انتظار ہو
گا… ’’عصبات‘‘ اور ’’ذوی الارحام‘‘… کل ہم ’’عصبات‘‘ پڑھیں گے ان شاءاللہ۔
02/02/2022
’’عصبات‘‘ کی تفصیل
اللہ تعالیٰ ہرمسلمان ’’خاندان‘‘ کو
دین پر ’’مضبوطی‘‘ عطاء فرمائیں… آج ’’عصبہ‘‘ کی بات ہوگی… جسم کے ’’پٹھے‘‘ کو
بھی ’’عصبہ‘‘ کہا جاتا ہے… یہ کسی بھی خاندان کے اہم افراد ہوتے ہیں… انہیں سے
خاندانوں کو طاقت ملتی ہے۔
عصبہ
:
میت کے وہ رشتہ دار جو ’’مرد‘‘ ہوں
اور کسی ’’مرد‘‘ کے واسطے سے ’’میت‘‘ کے رشتہ دار ہوں… وہ میت کے ’’عصبہ نسبی‘‘
کہلاتے ہیں۔
’’عصبہ‘‘ کے چار طبقے ہیں:
۱ میت
کے اپنے فروع، جز… یا یوں کہیں کہ میت کی اپنی نسل۔
• بیٹا، پوتا، پڑپوتا۔
۲ میت
کے اصول… یعنی جن سے یہ پیدا ہوا۔
باپ، دادا، پردادا۔
۳ میت
کے والد کی نسل۔
حقیقی بھائی، باپ شریک بھائی، حقیقی
بھائی کے بیٹے، باپ شریک بھائی کے بیٹے۔
۴ میت
کے دادا کی نسل۔
حقیقی چچا، باپ شریک چچا، حقیقی چچا
کے بیٹے، باپ شریک چچا کے بیٹے۔
عصبات کا
حکم
وراثت میں ’’عصبات‘‘ کا حکم یہ ہے کہ ان کا کوئی
حصہ مقرر نہیں ہے… ’’ذوی الفروض‘‘ کو ان کے حصے دینے کے بعد جو مال بچے گا وہ
’’عصبات‘‘ میں تقسیم ہوگا… اگر ’’ذوی الفروض‘‘ میں سے کوئی زندہ نہ ہو تو سارا مال
عصبات کو ملے گا… اور اگر ’’ذوی الفروض‘‘ میں تقسیم کرنے کے بعد کچھ نہ بچے تو
’’عصبات‘‘ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
عصبات میں
تقسیم اور ترتیب
عصبات کے چار طبقے ہیں… ان میں سے ہر
اوپر والاطبقہ نیچے والے تمام طبقات کو میراث سے محروم کر دیتا ہے۔
مثلاً طبقہ اول بیٹا یا پوتا موجود
ہوں تو نیچے کے تین طبقات کی چھٹی… پہلے طبقے والے موجود نہ ہوں… یعنی بیٹا یا
پوتا موجود نہ ہوں تو دوسرا طبقہ حقدار بنے گا تب تیسرا چوتھا طبقہ وراثت سے محروم
ہو جائے گا… یہی ترتیب آخر تک چلے گی… پھر ہر طبقے میں پہلا فرد… اپنے بعد والے
افراد کو ’’محروم‘‘ کر دے گا… مثلاً بیٹا موجود ہے تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا…
پوتا موجود ہے تو پڑپوتے کو کچھ نہیں ملے گا… پہلے طبقے والے موجود نہ ہوں تو
دوسرے میں بھی یہی ترتیب چلے گی… باپ موجود ہوگا تو دادا کو کچھ نہیں ملے گا… یہی
ترتیب آخر تک چلے گی… ہاں اگر ایک ہی طبقے کے ایک ہی نمبر میں کئی افراد ہوں تو ان
سب کو برابر حصہ ملے گا… مثلاً پہلے طبقے میں پہلے نمبر پر کئی بیٹے ہوں تو سب کو
میراث ملے گی… بیٹے نہ ہوں… مگر کئی پوتے ہوں تو ان سب کو میراث ملے گی… یہی
معاملہ ہر جگہ چلے گا… مثلاً ایک بھائی… یا زیادہ بھائی… ایک چچا یا زیادہ چچا۔
خلاصہ :
ذوی الفروض سے جو مال بچے گا وہ
’’عصبات‘‘ کو مل جائے گا… مگر ’’عصبات‘‘
اس ترتیب سے وارث ہوں گے… پہلے نمبر ۱
والے وہ نہ ہو تو نمبر ۲
والے وہ نہ ہو تو نمبر۳
والے اسطرح آخر تک۔
ترتیب یہ ہے:
۱بیٹا
۲پوتا ۳باپ ۴دادا ۵سگا بھائی ۶باپ شریک بھائی ۷سگے بھائی کے بیٹے ۸باپ شریک بھائی کے بیٹے ۹سگا چچا ۱۰باپ شریک چچا ۱۱سگے چچا کے بیٹے ۱۲باپ شریک چچا کے بیٹے… ہر
پہلے نمبر والا… اپنے بعد والے تمام نمبرات کو محروم کردے گا۔
ضروری بات :
عصبات میں رشتہ داری دور تک چلتی ہے…
مثلاً پوتا نہ ہو تو پڑپوتا وہ نہ ہو تو اس کا بیٹا… اسی طرح دادا نہ ہو تو پردادا
وہ نہ ہو تو ان کا والد… یہی معاملہ سب
عصبات میں ہے… آج کل عمریں زیادہ نہیں ہوتیں… اس لئے ہم نے معاملے کو دور تک نہیں
کھینچا۔
سؤال :
آپ کہیں گے کہ… پہلے طبقے میں سے
بیٹا موجود ہو تو دوسرے طبقے والے محروم ہوتے ہیں… مگر صورتحال یہ ہے کہ بیٹے کے
ہوتے ہوئے بھی ’’باپ‘‘ کو حصہ ملتا ہے… جواب یہ ہے کہ باپ کو ’’ذوی الفروض‘‘ ہونے
کی وجہ سے حصہ ملتا ہے عصبہ ہونے کی وجہ سے نہیں… یہاں یہی بتایا جا رہا ہے کہ
’’باپ‘‘ بیٹے کے ہوتے ہوئے ’’عصبہ‘‘ نہیں رہے گا… اس کے ’’ذوی الفروض‘‘ ہونے کی
حیثیت باقی رہتی ہے… دیکھا آپ نے ’’عصبات‘‘ کی بحث کتنی آسان ہے ماشاء اللہ۔
03/02/2022
’’ذوی الارحام‘‘ کی
تفصیل
اللہ تعالیٰ ’’صلہ رحمی‘‘
کو پسند فرماتے ہیں۔
’’میراث‘‘ کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ… سب سے
پہلے ’’ذوی الفروض‘‘ کو ان کے ’’حصے‘‘ دیئے جاتے ہیں… ان سے اگر مال بچ جائے تو
’’عصبات‘‘ کو دیا جاتا ہے… اور اگر کسی کے ’’عصبات‘‘ موجود نہ ہوں تو بچا ہوا مال…
پھر ’’ذوی الفروض‘‘ میں بانٹ دیا جاتا ہے… (سوائے خاوند اور بیوی کے)… لیکن اگر
کسی ’’میت‘‘ کے ’’ذوی الفروض‘‘ بھی نہ ہوں… ’’عصبات‘‘ بھی نہ ہوں… تو اب اس کا
سارا مال اس کے ’’ذوی الارحام‘‘ رشتہ داروں میں تقسیم ہوگا… یا کسی میت کے ’’ذوی
الفروض‘‘ میں سے صرف خاوند یا بیوی ہوں… اور عصبات بالکل نہ ہوں تو خاوند یا بیوی
کا حصہ دیکر باقی سارا مال ’’ذوی الارحام‘‘ میں تقسیم ہوگا۔
’’ذوی الارحام‘‘
’’ذوی‘‘ معنیٰ والے… ’’الارحام‘‘ جمع ہے
’’رحم‘‘ کی… ’’رحم‘‘ ماں کے پیٹ میں بچے کے بننے اور رہنے کی جگہ… یہ وہ رشتہ دار
ہیں… جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں… اور ’’میراث‘‘ میں ان کا نمبر بہت دور ہے… عام طور
سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا… ان کے بھی چار طبقے ہیں۔
۱ میت
کی اپنی وہ نسل جو نہ ’’ذوی الفروض‘‘ ہے، نہ ’’عصبات‘‘… جیسے نواسا، نواسی وغیرہ۔
۲ میت
کے وہ ’’اصول‘‘ جو نہ ’’ذوی الفروض‘‘ ہیں، نہ ’’عصبات‘‘… جیسے نانا… یا دادی کا
باپ وغیرہ۔
۳ میت
کے ماں، باپ کی وہ نسل جو نہ ’’ذوی الفروض‘‘ ہے نہ ’’عصبات‘‘… جیسے بھانجا،
بھانجی، بھتیجی وغیرہ۔
۴ دادا،
دادی اور نانی کی وہ اولاد جو نہ ’’ذوی الفروض‘‘ ہے نہ ’’عصبہ‘‘… جیسے پھوپھی،
خالہ، ماموں، باپ کا ماں شریک بھائی۔
ترتیب اور
تقسیم
’’ذوی الارحام‘‘ میں جب تک پہلے طبقے والے
موجود ہوں بعد والے طبقات کو کچھ نہیں ملتا… اور ایک طبقے کے رشتہ داروں میں بھی جو
میت کے زیادہ قریب ہو اسے میراث ملتی ہے اور اس کے بعد والے محروم رہتے ہیں۔
سب سے پہلے طبقہ اول کو لیں گے… اگر
اس طبقہ کے رشتہ دار موجود ہوئے تو باقی تینوں طبقات کی چھٹی… اگر پہلے طبقے والے
موجود نہ ہوئے تو دوسرا طبقہ مستحق ہوگا… اور اس کے بعد والے دو طبقے محروم… اسی
طرح آخر تک ترتیب چلے گی… پھر جو طبقہ وارث ہوگا… اس میں جو رشتہ دار زیادہ قریب
والاہو گا… وہ مستحق ہوگا… اور اس کے بعد والے سب محروم… قریب سے مراد وہ ہے جس کے
اور میت کے درمیان واسطے کم ہوں گے۔
جیسے بیٹی کی نواسی بھی موجود ہو اور
پوتی کی نواسی بھی تو بیٹی کی نواسی کو میراث ملے گی۔
مشکل
اور آسان :
میراث میں ’’ذوی الارحام‘‘ کا مسئلہ
یاد رکھنا مشکل ہے… مگر چونکہ ان کا نمبر اکثر آتا ہی نہیں… اس لئے یہ مسئلہ
آسان ہے کہ اس کے موٹے موٹے قوانین یاد رکھے جائیں جو کہ آج کے مکتوب میں آگئے
ہیں الحمدللہ… اور وراثت کی ترتیب سے ’’ذوی الارحام‘‘ کی جامع فہرست میراث۱۵میں گزر چکی ہے۔
04/02/2022
’’رد‘‘ اور’’عول‘‘
اللہ تعالیٰ علم و حکمت
عطاء فرمائیں… آج ’’علم فرائض‘‘ یعنی ’’علمِ میراث‘‘ کے دو اہم مسائل یاد کرلیں…
یہ ’’مسائل‘‘ بہت ضروری اور بہت آسان ہیں۔
مسئلہ رَد:
اگر میت کے ’’ذوی
الفروض‘‘ میں ان کے حصے تقسیم کرنے کے بعد بھی ’’مال‘‘ بچ جائے تو کیا کریں گے؟…
اگر ’’عصبات‘‘ موجود ہوں تو بچا ہوا سارا مال ان کو دے دیں گے… لیکن اگر ’’عصبات‘‘
موجود نہ ہوں تو اس مال کا کیا کریں گے؟… اب یہ ہے کہ یہ مال دوبارہ ’’ذوی
الفروض‘‘ میں اُن کے اصل حصوں کے تناسب سے بانٹ دیں گے… مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہو گیا… اس کا کل ترکہ (یعنی چھوڑا ہوا مال) تیس ہزار روپے ہے… اس کے ورثاء میں
صرف اس کی ماں اور اس کی بیٹی ہے… اب ہم نے شرعی قانون کے مطابق چھٹا حصہ یعنی
پانچ ہزار ماں کو دے دئیے… اور نصف یعنی آدھی میراث پندرہ ہزار روپے بیٹی کو دے
دئیے… اب دس ہزار باقی ہیں… کوئی ’’عصبہ‘‘ بھی موجود نہیں تو اب یہ دس ہزار بھی
انہیں دو ’’ذوی الفروض‘‘ یعنی ماں اور بیٹی کو دے دیا جائے گا… ماں کا حصہ سدس تھا
اور بیٹی کا نصف… نصف یعنی آدھا مال… سدس یعنی چھٹے حصے سے تین گنا بڑا ہوتا
ہے…تو دونوں میں نسبت ۱
اور ۳
کی ہوئی… چنانچہ باقی کے دس ہزار کو چار حصے بنا کر ایک حصہ ماں کو اور تین حصے
بیٹی کو دے دیں گے… اس طرح کے مسئلے کو ’’رَدّ‘‘ کہتے ہیں… یعنی لوٹانا… اس میں بس
یہ خیال رہے کہ بچا ہوا مال تمام موجود ’’ذوی الفروض‘‘ میں لوٹائیں گے… سوائے
خاوند اور بیوی کے… ان کو بچا ہوا مال دوبارہ نہیں ملے گا… تب بچے ہوئے مال کے لئے
’’ذوی الارحام‘‘ میں سے حقدار کو تلاش کریں گے۔
مسئلہ عول:
اگر کسی میت کے ’’ذوی
الفروض‘‘ رشتہ دار زیادہ ہوں… اگر ان سب کو ان کے شرعی حصے دئیے جائیں تو مال پورا
نہ پڑتا ہو… کم ہو… تو ایسی صورت میں ہر ایک کی میراث میں سے کچھ کٹوتی ہو جائے
گی… اور ہر ایک کی کٹوتی اس کے اصل حصے کے تناسب سے ہو گی… مثلاً ایک شخص کا
انتقال ہوا… اس کی کل میراث تیس ہزار روپے ہے… اور اس کے ورثاء میں… باپ، ماں، بیوی اور تین بیٹیاں ہیں… باپ کو
چھٹا حصہ پانچ ہزار… ماں کو چھٹا حصہ پانچ ہزار… تین بیٹیوں کو دو تہائی… یعنی بیس
ہزار اور بیوی کو آٹھواں حصہ یعنی تین ہزار سات سو پچاس دیں تو… تقسیم شدہ رقم
زیادہ ہو گی… جبکہ مال کم ہے… اب اس میں ’’عول‘‘ ہو گا یعنی کٹوتی… چنانچہ کل مال
کے ’’ستائیس‘‘ حصے بنائیں گے… چار حصے باپ کو… چار ماں کو… تین بیوی کو اور سولہ
بیٹیوں کو مل جائیں گے… اس طرح سب کا حصہ تھوڑا تھوڑا کم ہو گیا… تیس ہزار بھی
تقسیم ہو گئے… اور کمی کسی ایک کے سر نہیں آئی… آپ میں سے جو پہلے میراث پڑھے
ہوئے نہیں ہیں وہ یقیناً تقسیم کے اس طریقے کو نہیں سمجھے ہوں گے… لیکن اگر پڑھتے
رہے تو سمجھ جائیں گے ان شاءاللہ… اصل مقصد تو سب ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ… بعض
اوقات ’’ذوی الفروض‘‘ کو ان کے مقرر حصوں سے زیادہ ملتا ہے اسے ’’رَد‘‘ کہتے ہیں…
اور بعض اوقات مقرر حصوں سے کم ملتا ہے اسے ’’عول‘‘ کہتے ہیں۔
05/02/2022
’’حمل‘‘ کی میراث
اللہ تعالیٰ ہم سب کو
’’صدقاتِ جاریہ‘‘ کی توفیق عطاء فرمائیں۔
اگر کسی کا انتقال ہو
جائے اور اس کا کوئی وارث ابھی ’’حمل‘‘ کی صورت میں ہو… تو اس کے حصے کا کیا بنے
گا؟… مثلاً کسی کا انتقال ہوا اور اس کی بیوی ’’حمل‘‘ سے ہے… یہ حمل یا تو بیٹا ہو
گا یا بیٹی… اور بیٹا بیٹی کو میراث ضرور ملتی ہے… تو ایسی حالت میں بہتر تو یہی
ہے کہ… بچہ پیدا ہونے تک ’’میراث‘‘ کی تقسیم روک دی جائے… کیوں کہ معلوم نہیں کہ
بیٹا ہو گا یا بیٹی… بیٹا ہو تو وہ بہت سے ’’ذوی الفروض‘‘ کو میراث سے محروم کر
دیتا ہے… اس لئے ’’تقسیم‘‘ کو ملتوی رکھا جائے…
لیکن اگر ’’ورثاء‘‘ انتظار نہ کریں اور فوری تقسیم کرنا چاہیں تو اس
’’حمل‘‘ کو بیٹا قرار دے کر… میراث تقسیم
کر دی جائے… اور اس ’’حمل‘‘ کے لئے ’’بیٹے‘‘ کا حصہ نکال کر محفوظ رکھ لیا جائے…
پھر اگر ’’بیٹا‘‘ ہی پیدا ہوا تو… پہلی تقسیم درست قرار دے دی جائے گی… لیکن اگر
’’بیٹی‘‘ پیدا ہوئی تو اسے ’’بیٹی‘‘ والاحصہ دے دیا جائے گا… اور پہلی تقسیم میں
اس کو بیٹا قرار دینے کی وجہ سے جو رشتہ دار محروم ہوئے تھے… یا جن کو کم حصہ ملا
تھا… ان کا حق ان کو دے دیا جائے گا… اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوا تو اسے میراث میں
سے کچھ نہیں ملے گا۔
الحمدللہ !
میراث کا ضروری علم آپ
نے پڑھ لیا اسی پر مکتوبات کا یہ سلسلہ
مکمل ہوا… آپ اتنے ’’علم‘‘ سے بھی کافی کام چلا سکتے ہیں… لیکن اگر آپ میراث کی
تقسیم کا ’’فنی طریقہ‘‘ بھی سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو مزید پانچ سات اسباق پڑھنے
کی ضرورت ہے… آپ میں سے جو سیکھنا چاہیں وہ اپنا نام بھیج کر ’’باقاعدہ داخلہ‘‘
لیں… اگر داخلے والوں کی خاطر خواہ تعداد آگئی تو مکتوبات کا وہ سلسلہ بھی شروع
کر دیا جائے گا ان شاءاللہ… فی الحال آپ اپنے ان اسباق کو پکا کریں… ان کی بار
بار مشق کریں… آپ نے ’’مکتوباتِ میراث‘‘ میں جو کچھ پڑھ اور سیکھ لیا ہے… ان کی
مدد سے آپ عمومی طور پر پیش آنے والے…
نوے فی صد مسائل خود حل کر سکتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
06/02/2022
مکتوباتِ
میراث کا دوسرا مرحلہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’خیر
کثیر‘‘ عطاء فرمائیں۔
میراث کے ’’اسباق‘‘ کا
دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے…اس میں ہم ان شاءاللہ میراث کی تقسیم کا وہ فنی طریقہ
سیکھیں گے جس کی بدولت منٹوں میں میراث کی تقسیم طئے ہو جاتی ہے… مگر اس سے پہلے
کچھ ایسے ’’خلاصے‘‘ پڑھ لیتے ہیں جن کو یاد کرنے سے ’’علمِ میراث‘‘ آسان ہو جاتا
ہے۔
تعریف:
• علمِ میراث وہ علم ہے جس کے ذریعہ میت کا
چھوڑا ہوا مال اس کے شرعی ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کا طریقہ معلوم
ہوتا ہے۔
• اس علم کا نام علم الفرائض… علم المواریث…
اور علمِ میراث بھی ہے۔
• اس علم میں شریعت کے چند قوانین اور حساب
کے چند قواعد سیکھے جاتے ہیں۔
فضیلت:
یہ بہت ’’عالیشان‘‘ افضل
اور ضروری علم ہے اور اس علم کو مکمل سیکھنا فرض کفایہ ہے… اور یہ علم حضورِ اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہونے کا شرف رکھتا ہے… ا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی امت کو یہ علم سیکھنے کا حکم فرمایا ہے۔
موضوع:
اس علم کا موضوع… میت کا
چھوڑا ہوا مال… اور اس کے ورثاء ہیں… (یعنی اس علم میں ان دو چیزوں پر بات کی جاتی
ہے)۔
غرض و غایت:
اس علم کا مقصد یہ ہے کہ
ہر وارث کو اس کا حق مل جائے اور مال کی تقسیم میں غلطی نہ ہو۔
اسباب:
کوئی کسی کا وارث کیوں
بنتا ہے؟… اس کے تین اسباب ہیں:
۱ نسب
یعنی خونی رشتہ داری۔
۲ نکاح۔
۳ ولاء…
یہ تیسرا سبب اس زمانے میں فی الحال موجود نہیں ہے۔
موانع:
میراث سے محروم کرنے والی
چیزیں (یعنی موانع) تین ہیں:
۱ قتل۔
۲ غلام
ہونا۔
۳ دین
کا اختلاف یعنی کافر ہونا… ایک چوتھا سبب بھی ہے وہ ہے ملک اور سلطنت کا اختلاف وہ
فی الحال اس زمانے میں موجود نہیں۔
شروط:
میراث جاری ہونے کے لئے
تین شرطیں ہیں:
۱
مُورِث
کی وفات… یعنی جس کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اس کا مرنا ضروری ہے، زندگی میں کسی کا
مال ’’میراث‘‘ نہیں بنتا۔
۲ وارث
کی حیات… یعنی وارث صرف وہی بنے گا جو”مُورِث“ کی وفات کے وقت زندہ ہوگا۔
۳ مُورِث
اور وارث کے درمیان خونی رشتہ داری یا نکاح کا ثابت ہونا… اور میراث سے محروم کرنے
والی چیزوں کا موجود نہ ہونا۔
ذوی
الفروض:
وہ رشتہ دار جن کے حصے
شریعت نے مقرر فرمائے ہیں… ذوی الفروض بارہ ہیں۔
چار
مرد:
خاوند، باپ، دادا، ماں
شریک بھائی۔
آٹھ
عورتیں:
بیوی، بیٹی، پوتی، حقیقی
بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن، ماں اور دادی نانی۔
ترتیب:
میت کے مال کو خرچ کرنے
کی ترتیب یہ ہے:
۱ تجہیز
و تکفین۔
۲ قرض
کی ادائیگی۔
۳ تہائی
مال میں وصیت کا اجراء۔
۴ ورثاء
میں تقسیم۔
لازمی ورثاء:
وہ ورثاء جن کو ضرور
میراث ملتی ہے پانچ ہیں:
۱ بیٹا، ۲ بیٹی، ۴ بیوی
یا خاوند ۴ باپ ۵ماں۔
ان کے علاوہ باقی ورثاء
کو کبھی میراث ملتی ہے کبھی نہیں۔
09-02-2022
اللہ
تعالیٰ ہر مشکل آسان فرمائیں۔
کسی کی بھی میراث تقسیم
کرنی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ… اُس کی اولاد موجود ہے یا نہیں… اولاد بیٹے
ہیں یا بیٹیاں… در اصل اولاد کے ہوتے ہوئے بہت سے رشتہ دار میراث سے محجوب (محروم)
ہو جاتے ہیں… ’’میت کا بیٹا‘‘ اگرچہ ’’ذوی الفروض‘‘ میں سے نہیں ہے… مگر اسے میراث
ضرور ملتی ہے… کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے
’’ذوی الفروض‘‘ میں سے اکثر افراد محروم ہو جاتے ہیں… اور کئی افراد کا حصہ کم ہو
جاتا ہے… یوں بیٹے کو میراث ضرور مل جاتی ہے… آئیے تقسیم شروع کرتے ہیں:
۱ اگر
کسی ’’میت‘‘ کے ذوی الفروض میں سے صرف ایک رشتہ دار موجود ہو اور باقی عصبات ہوں
تو آسان طریقہ یہ ہے کہ… مسئلے کی تقسیم اُسی ایک ذی الفرض رشتہ دار کے عدد سے
کردیں گے۔
مثلاً… ایک شخص کا انتقال
ہوا… اس کی بیوی اور ایک بیٹا موجود ہے… ’’بیوی‘‘ ذوی الفروض میں سے ہے… اور یہاں
اس کا حصہ ثمن (یعنی آٹھواں حصہ) بنتا ہے تو سارے مال کے آٹھ حصے بنائیں گے… ایک
حصہ بیوی کو مل جائے گا… اور باقی سات حصے بیٹے کو دے دیں گے۔
سؤال:
ایک عورت کا انتقال ہوا… اس کے ورثاء میں خاوند اور ایک بیٹا ہے… مال تقسیم
کریں۔
جواب: خاوند ذوی الفروض میں سے ہے اور یہاں اس
کا حصہ ربع یعنی چوتھا بن رہا ہے تو کل مال کے چار حصے کریں گے… ایک حصہ خاوند کو
اور تین حصے بیٹے کو مل جائیں گے۔
10/02/2022
اللہ تعالیٰ ہمیں قیمتی علم عطاء
فرمائیں۔
اگر کسی میت کے ’’ذوی الفروض‘‘ رشتہ
دار موجود نہ ہوں… البتہ عصبات موجود ہوں تو دیکھیں گے کہ ’’عصبات‘‘ میں سے کتنے
افراد وارث بن رہے ہیں… بس ان افراد کو شمار کر لیں گے… اور اُسی عدد سے میراث
تقسیم کر دیں گے… مثلاً میت کے ورثاء میں صرف تین بیٹے ہیں… تو کُل میراث کے تین
حصے کردیں گے… اور ہر بیٹے کو ایک حصہ مل جائے گا… اور اگر وارث بننے والے عصبات
میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں تو ہر مرد کو دو گنیں گے اور ہر عورت کو ایک… پھر
جتنا عدد بنے گا اتنے حصے بنا کر ہر مرد کو دو حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ دے دیں
گے… مثلاً کسی کا انتقال ہوا… اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں
ہیں… اب ہر بیٹے کو دو شمار کریں اور ہر بیٹی کو ایک تو عدد نکلے گا نو (9)… اب
ساری میراث کے نو حصے کرکے ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دے دیں گے۔
سؤال: ایک
شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں چھ بیٹے، چھ بیٹیاں،ایک سگا بھائی موجود ہے
تقسیم کریں۔
جواب:
کل مال کے اٹھارہ حصے کریں گے… ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا
جبکہ بھائی کو کچھ نہیں ملے گا۔
سؤال: ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس کے
والد اور پانچ بیٹے ہیں… تقسیم کریں۔
جواب: والد
چونکہ اس مسئلہ میں ذوی الفروض میں سے ہے اس لئے پہلے اس کا حصہ نکالیں گے جو کہ
سدس یعنی چھٹا حصہ بنتا ہے… اور مسئلہ بھی اسی عدد سے حل کریں گے کہ سارے مال کے
کل چھ حصے بنائیں گے… ایک حصہ والد کو اور باقی پانچ حصے بیٹوں کو مل جائیں گے۔
سؤال:
ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں تین بیٹے چھ پوتے ایک سگا بھائی اور ایک
چچا موجود ہیں تقسیم کریں۔
جواب:
کل مال کے تین حصے کریں گے… ہر بیٹے کو ایک حصہ مل جائے گا… جبکہ پوتے، بھائی اور
چچا کو کچھ نہیں ملے گا۔
سؤال: ایک عورت کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں
خاوند اور والد ہیں… تقسیم کریں۔
جواب:
خاوند ذوی الفروض میں سے ہے اور میت کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اس کا حصہ
نصف 1/2 یعنی آدھا ہے… جبکہ باپ یہاں عصبہ ہے… چنانچہ مال کے دو حصے کریں گے… ایک
حصہ خاوند کو اور ایک باپ کو مل جائے گا۔
11/02/2022
اللہ تعالیٰ ہی علم عطاء
فرمانے والے ہیں۔
ہم نے پڑھ لیا کہ ’’ذوی
الفروض‘‘ کو جو حصے ملتے ہیں وہ کُل چھ ہیں… کسی کو آدھا ملتا ہے یعنی نصف… کسی
کو چوتھائی ملتا ہے یعنی ربع… کسی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے یعنی ثمن… کسی کو ایک
تہائی ملتا ہے یعنی ثلث… کسی کو دو تہائی ملتا ہے یعنی ثلثان… اور کسی کو چھٹا
ملتا ہے یعنی سدس۔
اب ہم ان حصوں کو دو
قسموں میں کرلیتے ہیں۔
پہلی
قسم:
نصف یعنی 1/2
ربع یعنی 1/4
ثمن یعنی 1/8
دوسری قسم:
ثلث یعنی 1/3
ثلثان یعنی 2/3
سدس یعنی 1/6
خلاصہ:
جس کو نصف ملتا ہے اس کا
عدد ہوتا ہے دو (2) جس کو ربع ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے چار (4) اور جس کو ثمن
ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے آٹھ 8۔
یہ ہوئی پہلی قسم۔
جس کو ثلث ملتا ہے اس کا
عدد ہوتا ہے تین (3)… جس کو ثلثان ملتے ہیں اس کا عدد بھی تین(3) اور جس کو سدس ملتا
ہے اس کا عدد ہوتا ہے چھ (6)۔
اگر تمام ورثاء ایک ہی
قسم کے ہوں تو سب سے چھوٹے حصے (یعنی سب سے بڑے عدد) سے مسئلہ بنا کر تقسیم کریں
گے۔
تفصیل:
اب قاعدہ یہ ہے کہ اگر
تمام ورثاء ایک ہی قسم کے ہوں تو جو سب سے کم حصہ والا ہوگا اسی کے حصہ سے مسئلہ
بنا کر میراث تقسیم کردیں گے… مثلاً تمام ورثاء اگر پہلی قسم والے ہوں کوئی نصف
والاکوئی ربع والاکوئی ثمن والاتو سب سے کم حصہ چونکہ ’’ثمن‘‘ ہے تو میراث کے آٹھ
حصے کرکے سب میں تقسیم کردیں گے… جیسے کسی عورت کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس
کا خاوند ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہے… خاوند کا حصہ ربع ہے1/4… بیٹی کا حصہ نصف
ہے 1/2 جبکہ بھائی عصبہ ہے… اب دونوں ذوی الفروض پہلی قسم سے ہیں… اور اس میں
خاوند کا حصہ کم ہے تو مسئلہ چار سے بنائیں گے… سارے مال کے چار حصے کئے جائیں گے
ایک حصہ خاوند کو دو حصے بیٹی کو ایک حصہ بھائی کو مل جائے گا۔
سؤال: ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں
بیوی، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہے تقسیم کریں۔
جواب: بیوی کا حصہ 1/8 بیٹی کا حصہ 1/2… مسئلہ
آٹھ سے بنائیں گے… یعنی کل مال کے آٹھ حصے کریں گے… ایک حصہ بیوی کو چار حصے
بیٹی کو اور باقی بھائی کو مل جائیں گے… یعنی تمام ورثاء اگر 1/2 1/4 1/8 والے
ہوئے تو مسئلہ 8 سے بنائیں گے… اگر تمام ورثاء 1/2 1/4 والے ہوئے تو مسئلہ چار سے
بنائیں گے… یعنی سب سے کم حصے سے جو دیکھنے میں سب سے بڑا عدد لگتا ہے۔
دوسری قسم کی مثالیں:
اگر تمام ورثاء ’’ثلث‘‘
ثلثان اور سدس والے ہوئے تو سب سے کم حصہ چھٹا ہے یعنی 1/6 تو مسئلہ چھ سے بنائیں
گے۔
مثلاً کسی کا انتقال ہوا
اس کے ورثاء میں اس کی ماں، دو ماں شریک بھائی اور ایک سگا بھائی موجود ہیں تو ماں
کا حصہ سدس 1/6 ماں شریک بھائیوں کا حصہ ثلث 1/3ہے… چنانچہ مسئلہ چھ سے بنائیں گے…
کل مال کے چھ حصے کریں گے… ایک حصہ ماں کو دو حصے ماں شریک بھائیوں کو اور باقی
سگے بھائی کو مل جائے گا کیونکہ وہ عصبہ ہے۔
12/02/2022
وقفہ:
اللہ تعالٰی ہمیں حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی ’’شفاعت‘‘ نصیب فرمائیں… آج ’’اسباق میراث‘‘ کا ’’وقفہ‘‘
ہے اور ’’زاد شفاعت‘‘ کا دن ہے۔
’’اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ
وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘
اہل ایمان، اہل دل اور اہل محبت کو
’’زاد شفاعت‘‘ مبارک ہو۔
میراث سبق 36 کل آئے گا ان شاءاللہ۔
13/02/2022
اللہ تعالیٰ کا شکر قیمتی اوقات پر۔
ہم نے ’’ذوی الفروض‘‘ کی دو قسمیں پڑھ
لیں۔
پہلی
قسم:
نصف، ربع، ثمن
دوسری قسم:
ثلث، ثلثان، سدس
قاعدہ:
اگر کسی میت کے ورثاء میں سے ایک پہلی
قسم سے نصف والا ہو اور باقی ورثاء دوسری قسم والے ہوں تو مسئلہ (6) سے بنے گا۔
مثلاً ایک عورت کا انتقال
ہوا… اس کے ورثاء میں اس کا خاوند، دو ماں شریک بھائی اور ایک سگا بھائی ہے… اس
صورت میں خاوند کو نصف ملتا ہے… کیونکہ میت کی اولاد نہیں ہے…جبکہ ماں شریک بھائی
چونکہ دو ہیں تو ان کا حصہ ایک تہائی ہے یعنی ثلث… تو یہاں قسم اول میں سے نصف…
قسم دوم کے ساتھ آگیا تو مسئلہ چھ سے حل ہو گا… کل مال کے چھ حصے کریں گے… تین
خاوند کو دو ماں شریک بھائیوں کو اور باقی ایک حصہ سگے بھائی کو مل جائے گا…
کیونکہ وہ عصبہ ہے۔
سؤال: ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں
اس کا والد، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں۔
جواب: بیٹی کا حصہ نصف ہے جو قسم اول میں سے ہے
اور والد کا حصہ سدس ہے… جو دوسری قسم میں سے ہے تو مسئلہ چھ سے حل ہوگا… کل مال
کے چھ حصے کریں گے تین حصے بیٹی کو ملیں گے،ایک حصہ والد کو… اور باقی دو حصے بھی
والد کو ملیں گے… کیونکہ وہ یہاں عصبہ بھی ہے اور ذوی الفروض میں سے بھی… اور
بھائی کو کچھ نہیں ملے گا… (والد کے حصے والا سبق ایک بار دیکھ لیں)۔
14/02/2022
الله تعالیٰ دین اسلام کو
غلبہ نصیب فرمائیں… اگر ورثاء میں سے ایک وارث ’’ربع‘‘ یعنی چوتھے حصے والا ہو…
اور باقی ورثاء (ایک یا زیادہ) دوسری قسم والے ہوں… یعنی ثلث، ثلثان یا سدس والے
ہوں تو میراث کی تقسیم بارہ 12 کے عدد سے ہوگی… یعنی یوں کہیں گے کہ… اگر پہلی قسم
والوں میں سے ربع… دوسری قسم والے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ
’’بارہ‘‘ سے حل ہوگا… مثلاً ایک عورت کا انتقال ہوا… اس کے ورثاء میں اس کا خاوند…
دو بیٹیاں اور ایک چچا ہے… تو خاوند کو ربع ملے گا… دو بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو
تہائی… اور باقی چچا کو مل جائے گا کیونکہ وہ ’’عصبہ‘‘ ہے… اور یہاں اس سے اوپر
والے عصبات (بیٹا، پوتا، باپ، دادا، بھائی، بھتیجے وغیرہ) موجود نہیں ہیں… اب ربع
چونکہ ثلثان کے ساتھ آگیا ہے تو مسئلہ (12) سے حل ہوگا… کل میراث کے بارہ حصے
کریں گے… تین حصے خاوند کو… آٹھ حصے دو بیٹیوں کو اور ایک چچا کو مل جائے گا۔
میت
عورت:
حصے
12
ورثاء ۔ حصے ۔
تقسیم
خاوند ربع
3
دو بیٹیاں ثلثان 8
چچا عصبہ 1
سؤال: ایک شخص کا انتقال ہوا ورثاء
میں ماں، بیوی اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں۔
جواب: بیوی کا ربع ہے… ماں کا ثلث…
اور بھائی عصبہ… مسئلہ بارہ سے حل ہو گا… بیوی کو تین، ماں کو چار حصے ملیں گے
باقی پانچ حصے بھائی کے ہو جائیں گے۔
میت
مرد:
حصے
12
ورثاء ۔ حصے ۔
تقسیم
بیوی ربع 3
ماں ثلث
4
بھائی عصبہ
5
15/02/2022
الله تعالیٰ ہمارے دلوں
کو دین پر جما دیں… اگر ورثاء میں سے ایک وارث ’’ثمن‘‘ یعنی آٹھویں حصے والاہو…
اور باقی ورثاء ایک (یا زیادہ) دوسری قسم والوں میں سے ہوں… یعنی ثلث، ثلثان یا
سدس والے تو میراث کی تقسیم چوبیس کے عدد سے ہو گی… یعنی یوں کہیں گے کہ… قسم اول
میں سے ثمن اگر قسم ثانی کے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چوبیس
(24) کے عدد سے حل ہو گا… مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا… ورثاء میں بیوی، ماں اور
ایک بیٹا ہے… اب بیوی کا حصہ ’’ثمن‘‘ ہے… ماں کا حصہ سدس یعنی چھٹا ہے… تو قسم اول
کا ثمن قسم ثانی کے سدس کے ساتھ آگیا تو ساری میراث کے چوبیس حصے کریں گے… تین
حصے بیوی کو،چار حصے ماں کو اور باقی سترہ حصے بیٹے کو مل جائیں گے… کیونکہ چوبیس
کا آٹھواں حصہ تین بنتا ہے… چھٹا حصہ چار بنتا ہے… اور بیٹا عصبہ ہے۔
میــــــــــــــــــــت
مرد:
حصے
24
ورثاء ۔
حصے ۔ تقسیم
بیوی ثمن 3
ماں سدس 4
بیٹا عصبہ 17
سؤال: ایک شخص کا انتقال
ہوا… ورثاء میں بیوی، ماں، دو بیٹیاں اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں۔
جواب: بیوی کو ثمن
(آٹھواں حصہ) ماں کو سدس (چھٹا حصہ) بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو تہائی حصہ ملے گا…
اور باقی بھائی کو… یہاں قسم اول کا ثمن… قسم ثانی کے ثلثان اور سدس کے ساتھ آگیا
تو مسئلہ چوبیس سے حل ہو گا… کل مال کے چوبیس (24) حصے کریں گے… تین حصے بیوی کو،
چار حصے ماں کو، سولہ حصے بیٹیوں کو اور ایک حصہ بھائی کو مل جائے گا۔
میــــــــــــــــــــت
مرد:
حصے
24
ورثاء ۔
حصے ۔ تقسیم
بیوی ثمن
3
ماں سدس
4
دو بیٹیاں ثلثان
16
سگا بھائی عصبہ
1
16/02/2022
الله تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کو
’’منور‘‘ فرمائیں۔
ایک بات سمجھ لیں:
ایک ہیں ’’علم الفرائض‘‘
یعنی ’’علم میراث‘‘ کے ’’شرعی قوانین‘‘ ان قوانین میں کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں ہو
سکتی… نہ ہی ان میں کوئی اپنی عقل چلا سکتا ہے… بس جو شریعت نے فرما دیا وہ پکا
ہے… الحمدللہ وہ تمام قوانین ہم نے تقریباً پڑھ لئے ہیں… ’’ذوی الفروض‘‘ کون ہیں؟
ان کے حصے کیا کیا ہیں؟ ’’عصبات‘‘ کون ہیں؟ ان کے حصے اور ترتیب کیا ہے ’’ذوی
الارحام‘‘ کون ہیں… ان کا حکم کیا ہے؟اب آپ چاہیں ’’کیلکولیٹر‘‘ سامنے رکھیں… اور
شرعی قوانین کے مطابق میراث تقسیم کر دیں… مثلاً کسی شخص کا انتقال ہوا… اس کے
ورثاء میں اس کا والد، اسکی والدہ، اسکی بیوی… اور ایک بیٹا ہے… آپ والد والے
قانون کو پڑھیں… معلوم ہو گا کہ اگر میت کا بیٹا موجود ہو تو والد کو سدس یعنی
چھٹا حصہ ملتا ہے… پھر والدہ کا قانون دیکھیں وہاں آپ کو ملے گا کہ میت کی اولاد
موجود ہو تو ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے… پھر بیوی کا قانون پڑھیں… معلوم ہو گا کہ
میت کی اولاد موجود ہوتو بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے… اب آپ ساری میراث کا ٹوٹل
جمع کرکے… اس کا آٹھواں حصہ بیوی کو… چھٹا حصہ باپ کو، چھٹا حصہ ماں کو دے دیں…
یہ سب دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ بیٹے کو دے دیں گے… کیونکہ وہ عصبہ ہے… مثلاً کل
میراث تیس ہزار روپے ہے… اس کا چھٹا حصہ 5ہزار بنتا ہے… تیس ہزار کو چھ پر تقسیم
کریں تو حاصل پانچ ہزار آتا ہے… اب باپ کو پانچ ہزار دے دیں… ماں کو بھی پانچ
ہزار دے دیں… جبکہ تیس ہزار کا آٹھواں حصہ تین ہزار سات سو پچاس (3750) روپے بنتا
ہے وہ بیوی کو دے دیں… باقی بچے سولہ ہزار دو سو پچاس روپے (16250) وہ بیٹے کو دے
دیں… مسئلہ حل ہوگیا۔
مگر اہل علم نے بہت محنت
کے بعد ’’علم حساب‘‘ کے کچھ ’’قواعد‘‘ بنائے ہیں… ان قواعد کے ذریعہ میراث تقسیم
کرنا ضروری نہیں… مگر ان قواعد سے میراث کی تقسیم بہت آسان ہو جاتی ہے… اور یہ
’’قواعد‘‘ تجربے کی بنیاد پر اتنے پکے ہیں کہ انمیں غلطی کا امکان نہیں ہے ان
شاءاللہ… اب آپ کی مرضی کہ آپ ان قواعد کو یاد کر لیں اور ان کے ذریعے میراث
تقسیم کریں… یا خود علم حساب سے اپنے ایسے قواعد بنا لیں جن سے میراث کی شرعی
تقسیم ٹھیک ٹھیک ٹھیک ہو سکے… اب اسی مسئلے کو دیکھیں… اہل علم کے قاعدہ کے مطابق
اس میں ایک وارث ’’ثمن‘‘ والا ہے یعنی بیوی… اور وہ ایسے ورثاء کے ساتھ آرہا ہے
جو ’’سدس‘‘ والے ہیں تو اب مسئلہ چوبیس کے عدد سے حل ہو گا… یعنی کل میراث کے
چوبیس حصے بنائیں گے… اب (24) کا آٹھواں حصہ تین بنتا ہے… تو تین حصے بیوی کو مل
جائیں گے… (24) کا سدس یعنی چھٹا حصہ چار بنتا ہے تو چار چار حصے والد اور والدہ
کو دے دیں گے… جبکہ باقی تیرہ حصے بیٹے کو مل جائیں گے… تیس ہزار کے 24حصے بنائیں…
فی حصہ بارہ سو پچاس روپے بنتا ہے… چنانچہ تین حصے بیوی کو ملیں گے… یعنی تین ہزار
سات سو پچاس… چار حصے والد کو ملیں گے یعنی پانچ ہزار… والدہ کو بھی چار حصے یعنی
پانچ ہزار… اور باقی بیٹے کو مل جائیں گے… آپ کہیں گے کہ اسطرح تو پہلی صورت یعنی
کیلکولیٹر والی زیادہ آسان تھی… مگر ایسا نہیں ہے… یہاں مسئلہ بھی مختصر تھا اور
میراث بھی کم تھی… اس لئے ہمیں پہلی صورت آسان لگ رہی ہے… لیکن جب ورثاء زیادہ
ہوں اور مسئلہ بھی پیچیدہ ہو تو… اہل علم کے یہ تیار فرمودہ قواعد… منٹوں میں
مسئلہ حل کر دیتے ہیں… ہم نے گزشتہ پانچ اسباق میں کئی قواعد پڑھ لئے ہیں… باقی
قواعد اگلے مکتوبات میں ان شاءاللہ۔
17/02/2022
اللہ تعالی ہم سب کو ٹھیک
اور سیدھے راستے کا الہام نصیب فرمائیں۔
’’میراث‘‘ کی تقسیم کے لئے اہل علم نے جو
’’قواعد‘‘ مقرر فرمائے ہیں… انمیں سے کئی ہم نے پڑھ لئے ہیں… جن کا خلاصہ یہ ہے۔
۱ اگر
ورثاء سارے ’’عصبہ‘‘ ہوں تو ان کو شمار کرلیں گے اور مسئلہ ان کی مجموعی تعداد سے
حل ہوگا مثلا کسی کے وارث صرف چھ بیٹے ہیں تو مسئلہ (6) سے بنائیں گے… کل میراث کے
چھ سے کریں گے ہر بیٹے کو ایک ایک حصہ مل جائے گا۔
۲ اگر
سارے ورثاء عصبہ ہوں… کچھ مرد اور کچھ عورتیں… تو مردوں کو دو اور عورتوں کو ایک
شمار کریں گے… جو مجموعی تعداد بنے گی… میراث کے اتنے حصے کرلیں گے… ہر مرد کو دو
اور ہر عورت کو ایک حصہ مل جائے گا… مثلا تین بیٹے دو بیٹیاں ہیں تو مسئلہ (8) سے
حل ہوگا… میراث کے آٹھ حصے کر کے ہر بیٹے کو دو اور ہر بیٹی کو ایک مل جائے گا۔
۳ اگر
’’ورثاء‘‘ میں ’’ذوی الفروض‘‘ موجود ہوں تو اگر صرف ایک ’’ذی الفرض‘‘ موجود ہے تو
مسئلہ اسی کے حصے کے عدد سے حل ہوگا… مثلا وہ وارث نصف والاہے تو دو سے ربع والا
ہے تو چار سے ثمن والاہے تو آٹھ سے… ثلث یا ثلثان والاہے تو تین سے اور سدس والا
ہے تو چھ سے مسئلہ حل ہوگا۔
۴ اگر
ورثاء میں ’’ذوی الفروض‘‘ ایک سے زیادہ ہوں تو ہم ’’ذوی الفروض‘‘ کی دو قسمیں بنا
لیتے ہیں… پہلی قسم نصف، ربع، ثمن والے… دوسری قسم ثلث، ثلثان یا سدس والے۔
اگر تمام ورثاء ایک ہی
قسم سے ہوں تو مسئلہ سب سے کم حصے (یعنی سب سے بڑے عدد) سے بنے گا… مثلاً سب ورثاء
نصف، ربع، ثمن والے ہیں تو مسئلہ آٹھ سے بنے گا… سب نصف اور ربع والے ہیں تو
مسئلہ ربع سے حل ہوگا… سب ثلث اور سدس والے ہیں تو مسئلہ سدس سے حل ہو گا۔
۵ اگر
ورثاء ’’ذوی الفروض‘‘ ہوں اور دونوں قسموں والے ہوں تو دیکھیں گے کہ قسم اول کا
نصف اگر قسم ثانی کے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چھ سے حل ہو گا…
اگر قسم اول کا ربع قسم ثانی کے ایک یا زیادہ کے ساتھ آجائے تو مسئلہ بارہ سے حل
ہو گا۔
اگر قسم اول کا ثمن قسم
ثانی کے ایک یا زیادہ کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چوبیس سے حل ہوگا… مسئلہ حل ہونے کا
مطلب یہ کہ ہم میراث کے اتنے حصے بنا لیں گے اور تقسیم کردیں گے… یہ تھا پچھلے
اسباق کا خلاصہ… اب آتے ہیں نئے سبق کی طرف۔
• اگر ورثاء میں ’’ذوی الفروض‘‘ موجود ہوں تو
مسئلہ ان سات اعداد میں سے کسی ایک سے حل ہوتا ہے۔
2… 3… 4… 8… 6… 12… 24
یعنی کل میراث ان سات
اعداد میں سے کسی ایک عدد کے ذریعے تقسیم ہو گی… کل میراث کے یا تو دو حصے کریں گے
یا تین یا چار یا آٹھ یا چھ یا بارہ یا چوبیس… کون سا عدد کب آئے گا یہ ہم پڑھ
چکے ہیں۔
• اگر ’’حصے‘‘ ورثاء میں ٹھیک ٹھیک تقسیم ہو
جائیں تو بہت اچھی بات… ایسے ’’مسئلے‘‘ کو ’’مسئلہ عادلہ‘‘ کہتے ہیں… یعنی برابر
برابر درست تقسیم ہو جانے والامسئلہ۔
• لیکن اگر ورثاء زیادہ ہوں… اور مال کم پڑ
جائے… تو اب سب ورثاء کے حصوں میں سے کٹوتی ہوگی… ایسے مسئلے کو ’’مسئلہ عائلہ‘‘
کہتے ہیں… یعنی کمی اور کٹوتی الامسئلہ۔
• اور اگر مال زیادہ ہو اور ورثاء کم ہوں… تو
بعض ورثاء کو اپنے مقرر حصے سے بھی زیادہ دیا جائے گا ایسے مسئلے کو ’’مسئلہ
ناقصہ‘‘ کہتے ہیں۔
’’مسئلہ عادلہ‘‘ یعنی برابر برابر تقسیم
والامسئلہ ہم پچھلے اسباق میں پڑھ چکے ہیں… اسکی بہت سی مثالیں بھی سمجھ چکے ہیں…
اب صرف ہم نے ’’مسئلہ عائلہ‘‘ اور ’’مسئلہ ناقصہ‘‘ سمجھنا ہے… ان دونوں کو سمجھنے
کے ساتھ ہی… ہمارا سبق مکمل ہو جائے گا ان شاءاللہ۔
18/02/2022
اللہ تعالی ’’اہل علم‘‘
’’اسلاف‘‘ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں… اُن حضرات نے ہزاروں فرضی مسائل کی بار بار
مشق کر کے… ہمارے لئے ایسے ’’قواعد‘‘ بنا دیے ہیں کہ ہم آسانی سے ’’میراث‘‘ تقسیم
کر سکتے ہیں۔
آج ’’مسئلہ عائلہ‘‘ کی
بات ہوگی… ورثاء زیادہ ہیں اور مال کم…اگر ہم ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ دیں تو
مال کم پڑ جاتا ہے… اور سب کو پورا حصہ نہیں مل سکتا… اب ہم ہر کسی کے حصے میں سے…
اس کے اصل حصے کے تناسب سے… کٹوتی کریں گے… یوں سب کو میراث بھی مل جائے گی… اور
کسی ایک وارث کا حصہ کم نہیں ہوگا..بلکہ سب کا تھوڑا تھوڑا کم ہوگا۔
ہم
نے پڑھا تھا کہ… مختلف صورتوں میں… میراث کی تقسیم ان سات اعداد میں سے کسی ایک کے
ذریعہ ہوتی ہے۔
2…3…4…8…6…12…24
اب قاعدہ یہ ہے کہ… جن
مسائل میں میراث کی تقسیم پہلے چار عدد سے ہوتی ہے… وہ مسئلہ ہمیشہ ’’عادلہ‘‘ رہتا
ہے… یعنی بالکل برابر برابر تقسیم ہوتا ہے… اس میں ’’عول‘‘ نہیں آسکتا… چنانچہ
جہاں بھی مسئلہ دو تین چار یا آٹھ سے حل ہو رہا ہو تو آپ بے فکر ہو جائیں… یہاں
کمی، کٹوتی والی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔
لیکن جہاں تقسیم آخری
تین اعداد میں سے کسی سے ہو رہی ہو تو وہاں کبھی کبھار’’عول‘‘ آسکتا ہے… یعنی
میراث کم پڑ سکتی ہے… تو اب ہمیں اسی میراث کے زیادہ حصے بنا کر ’’ورثاء‘‘ میں
تقسیم کرنے ہوں گے… اور زیادہ حصے بنانے کی وجہ سے ’’میراث‘‘ کی مالیت کم ہو جائے
گی… مثلاً پہلے ہم نے ایک روٹی کے بارہ ٹکڑے کر کے ورثاء کو دینے تھے… اب تیرہ
ٹکڑے کریں گے تو ہر کسی کا حصہ کچھ نہ کچھ کم ہو جائے گا… مثالوں سے آپ اچھی طرح
سمجھ لیں گے ان شاءاللہ… اب اسمیں قاعدہ یہ ہے کہ… جہاں مسئلے کی تقسیم چھ سے ہوتی
ہے… وہاں ’’عول‘‘ دس تک آسکتا ہے… یعنی پہلے وہ مسئلہ چھ سے حل ہو رہا تھا اب
سات، آٹھ، نو یا دس سے حل ہوگا… اور جہاں مسئلہ بارہ کے عدد سے حل ہو رہا تھا وہ
کبھی تیرہ،پندرہ یا سترہ سے حل ہوا… اور جو مسئلہ چوبیس سے حل ہو رہا تھا وہ کبھی
ستائیس سے حل ہوگا۔
• یعنی چھ کا عول سات، آٹھ، نو یا دس آسکتا
ہے۔
• بارہ کا عول تیرہ، پندرہ یا سترہ آسکتا
ہے۔
• چوبیس کا عول ستائیس آسکتا ہے۔
خلاصہ:
ہم نے پڑھا تھا کہ میراث
کے تمام مسائل کا حل ان ”سات اعداد“ سے ہوتا ہے..
2…3…4…6…8…12…24
اب ہم نے پڑھ لیا کہ
ورثاء زیادہ اور مال کم ہونے کی صورت میں مال کے زیادہ حصے بنائے جا سکتے ہیں..تو
بعض مسائل
15ـ
7…9…10…15…17اور 27… سے بھی حل ہوں گے۔
سات
سے مسئلہ حل ہونے کی مثال:
ایک عورت کا انتقال ہوا…
ورثاء میں خاوند اور دو حقیقی بہنیں ہیں… خاوند کو یہاں نصف ملے گا… دو حقیقی
بہنوں کو ثلثان یعنی دو تہائی… قاعدے کے مطابق مسئلہ (6) سے حل ہونا چاہیے… کیونکہ
قسم اول کا نصف قسم ثانی کے ثلثان کے ساتھ آگیا… اب (6) کا نصف (3) بنتا ہے وہ
خاوند کو دیں… اور چھ کا دو تہائی چار بنتا ہے… وہ بہنوں کو دیں تو حصے کم پڑ گئے کیونکہ
تین خاوند کے… اور چار بہنوں کے… یہ سات حصے ہو گئے… تو چھ کا عول ہوا… سات میں…
چنانچہ اب سارے مال کے کل سات حصے کریں گے… انمیں سے تین خاوند کو اور چار حصے
بہنوں کو مل جائیں گے… کل میراث مثلا تیس ہزار تھی… اس کے اگر چھ حصے بناتے تو
خاوند کو نصف یعنی تین حصے ملتے جو پندرہ ہزار بنتے… اور بہنوں کو چھ میں سے دو
تہائی یعنی چار حصے ملتے جو بیس ہزار بنتے… یہ کل 35ہزار ہو گئے… جبکہ میراث تیس
ہزار ہے… تو اب ’’عول‘‘ آ گیا… تیس ہزار کے سات حصے کریں گے… تین حصے خاوند کو
اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے… خاوند کو اب پندرہ ہزار کی بجائے تقریباً تیرہ
ہزار (سے کچھ کم)اور بہنوں کو بیس ہزار کی بجائے سترہ ہزار (سے کچھ زائد) مل جائیں
گے… یہاں چھ کا عول سات پر ہوا… مزید مثالیں آئندہ ان شاءاللہ۔
19/02/2022
الله تعالیٰ ’’العلیم‘‘
ہیں۔
• جو مسئلہ چھ سے حل ہوتا ہے اسمیں کبھی عول
آجاتا ہے تو پھر وہ ’’سات‘‘ سے حل ہوتا ہے… ہم نے اسکی مثال کل پڑھ لی تھی… کبھی
’’چھ‘‘ والامسئلہ ’’آٹھ‘‘ سے حل ہوتا ہے۔
مثال: ایک عورت کا انتقال
ہوا… ورثاء خاوند، ماں اور دو حقیقی بہنیں ہیں… قاعدہ کے مطابق مسئلہ چھ سے حل
ہونا چاہیے… کیونکہ خاوند کا حصہ نصف ہے… ماں کا سدس اور دو بہنوں کا ثلثان… لیکن
اگر چھ حصے بنائیں تو اس کا نصف یعنی تین حصے خاوند کو… سدس یعنی ایک حصہ ماں کو…
اور ثلثان یعنی چار حصے بہنوں کو دئیے تو کل آٹھ ہوگئے… چنانچہ یہاں مسئلہ آٹھ
سے حل ہوگا… کُل مال کے آٹھ حصے کریں گے… تین خاوند کو، ایک ماں کو اور چار بہنوں
کو مل جائیں گے۔
اسی
طرح چھ کا مسئلہ کبھی نو اور کبھی دس سے حل ہوتا ہے۔
نو کی مثال:
ایک عورت کا انتقال ہوا…
ورثاء خاوند، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں… مسئلہ نو (9) سے حل ہوگا۔
دس کی مثال:
ایک عورت کا انتقال ہوا…
ورثاء خاوند، ماں، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں… مسئلہ دس (10) سے حل
ہوگا… خاوند کو تین ماں کو ایک دو حقیقی بہنوں کو چار اور دو ماں شریک بہنوں کو دو
حصے مل جائیں گے۔
• جو مسئلہ بارہ سے حل ہوتا ہے اسمیں بھی
کبھی عول آجاتا ہے… پھر وہ کبھی تیرہ سے، کبھی پندرہ سے اور کبھی سترہ سے حل ہوتا
ہے۔
تیرہ کی مثال:
ایک شخص کا انتقال ہوا…
ورثاء بیوی، دو حقیقی بہنیں، ایک ماں شریک بہن ہے… بیوی یہاں ربع والی ہے دو حقیقی
بہنیں ثلثان اور ایک ماں شریک بہن کا سدس ہوا… مسئلہ بارہ سے بنائیں تو بارہ کا
چوتھائی یعنی تین حصے بیوی کو… بارہ کے دو تہائی یعنی آٹھ حصے بہنوں کو… اور بارہ
کا چھٹا حصہ یعنی دو حصے ماں شریک بہن کو دیے تو حصے تیرہ بن گئے… چنانچہ اب میراث
(12)کی جگہ (13) حصے بنا کر تقسیم کی جائے گی۔
پندرہ کی مثال:
ایک شخص کا انتقال ہوا
ورثاء بیوی، دو حقیقی بہنیں، دو ماں شریک بہنیں ہیں… مسئلہ بارہ سے بننا چاہیے…
مگر ورثاء زیادہ ہیں… مسئلہ (15)سے حل ہوگا تین حصے بیوی، آٹھ حصے حقیقی بہنوں
اور چار حصے دو ماں شریک بہنوں کو مل جائیں گے۔
سترہ کی مثال:
ایک شخص کا انتقال ہوا
ورثاء بیوی، ماں، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں… مسئلہ بارہ سے بننا
تھا مگر اب سترہ سے بنے گا… بیوی کو تین، ماں کو دو، حقیقی بہنوں کو آٹھ، ماں
شریک بہنوں کو چار حصے ملیں گے۔
20/02/2022
الله تعالیٰ ہمارے دلوں
کے تالے کھول دیں۔
• جو مسئلہ چوبیس سے حل ہوتا ہے… اسمیں کبھی
عول آجاتا ہے تب وہ مسئلہ ستائیس سے حل ہو جاتا ہے… مثال لیجئے… ایک شخص کا
انتقال ہوا… اس کے ورثاء بیوی، دو بیٹیاں، والد اور والدہ ہیں… چونکہ میت کی اولاد
موجود ہے تو بیوی کو ثمن یعنی آٹھواں حصہ… والد کو سدس یعنی چھٹا حصہ… والدہ کو
بھی سدس یعنی چھٹا حصہ اور بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو تہائی ملنے کا قانون ہے… قاعدے
کے مطابق یہاں قسم اول کا ثمن… قسم ثانی کے ثلثان اور سدس کے ساتھ آگیا تو مسئلہ
(24) سے حل ہوگا… (24) کا آٹھواں حصہ… یعنی تین حصے بیوی کو… (24) کا چھٹا حصہ
یعنی چار حصے والد کو… چار حصے والدہ کو… اور (24) کا دو تہائی یعنی سولہ حصے دو
بیٹیوں کو دیں تو یہ کل ستائیس بنتے ہیں… چنانچہ اب میراث کے (24) کی جگہ (27) حصے
کریں گے… تین بیوی کو… چار والد کو، چار والدہ کو اور سولہ بیٹیوں کو دے دیں گے۔
الحمدللہ ’’عول‘‘ کا
مسئلہ مکمل ہوا… آپ نے دیکھا کہ ہمارے اسلاف اہل علم نے ہمارے لئے کتنی محنت
فرمائی… اور ایسے قاعدے بنا دئیے کہ… میراث کے تمام مسائل انہی ’’قواعد‘‘ کے اندر
آگئے ہیں… اور اب آسانی سے حل ہو جاتے ہیں… ہمارے سامنے جب وہ مسائل آئیں گے جو
دو، تین، چار اور آٹھ سے حل ہوتے ہیں تو ہم بے فکر رہیں گے کہ ان میں ’’عول‘‘ آ
ہی نہیں سکتا… اور جو مسئلہ (6) سے حل ہوتا ہے وہ کبھی تو ’’عادلہ‘‘ ہوتا ہے یعنی
پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے… مگر کبھی کبھار اسمیں عول آتا ہے… مگر یہ عول یا سات
کا ہوگا یا آٹھ کا یا نو کا یا دس کا… بس اس کے علاوہ نہیں آسکتا… اور جو مسئلہ
بارہ سے حل ہوتا ہے وہ کبھی تو ’’عادلہ‘‘ ہوگا… لیکن کبھی اس میں عول بھی آسکتا
ہے… مگر یہ عول یا تو تیرہ کا ہوگا یا پندرہ کا یا سترہ کا… اور جو مسئلہ (24) سے
حل ہوتا ہے… وہ کبھی ’’عادلہ‘‘ ہوتا ہے… لیکن کبھی اس میں ’’عول‘‘ بھی آسکتا ہے…
اور یہ ’’عول‘‘ صرف ’’ستائیس‘‘ کا ہو گا… حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ کے نزدیک کبھی (24) کا عول (31) بھی آسکتا ہے۔
21/02/2022
اللہ تعالیٰ سے دارین میں
’’عافیت‘‘ کا سؤال ہے۔
اگر ورثاء کم ہوں… اور
مال زیادہ… اور ورثاء میں کوئی ’’عصبہ‘‘ بھی موجود نہ ہوں تو اب کیا کریں گے؟
اگر کوئی ’’عصبہ‘‘ موجود
ہوتا تو باقی سارا مال وہ لے جاتا… گر عصبہ نہیں ہے۔
مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہوا… وارث صرف دو بیٹیاں ہیں… ہم نے قانون پڑھ لیا ہے کہ… بیٹیاں جب دو یا دو سے
زیادہ ہوں تو ان کو دو تہائی ملتا ہے۔
مثلاً کوئی تیس ہزار چھوڑ
گیا… اور وارث صرف دو بیٹیاں تو تیس ہزار کا ثلثان… یعنی دو تہائی بیس ہزار… ان
بیٹیوں کو مل جائے گا… باقی دس ہزار کا کیا کریں گے؟
ایک شخص کا انتقال ہوا… اس کے وارث
صرف والدہ اور دو ماں شریک بھائی ہیں… والدہ کا حصہ سدس بنتا ہے یعنی چھٹا… اور دو
ماں شریک بھائیوں کا ثلث یعنی تیسرا حصہ… مثلاً کل میراث تیس ہزار تھی… چھٹا حصہ
یعنی پانچ ہزار ماں کو مل گئے… تیسرا حصہ یعنی دس ہزار ماں شریک بھائیوں کو مل
گئے… باقی پندرہ ہزار کا کیا کریں گے؟
جواب یہ ہے کہ… یہ باقی مال بھی انہی
’’ذوی الفروض‘‘ کو ان کے اصل حصے کے تناسب سے دے دیں گے… اور یہ باقی مال انمیں
تقسیم کرنے کا قاعدہ بہت ہی آسان ہے… بس اسمیں یہ بات یاد رہے کہ بارہ’’ذوی
الفروض‘‘ میں سے خاوند اور بیوی کو صرف ایک ہی بار حصہ ملتا ہے… اگر میراث بچ جائے
تو ان کو دوبارہ کوئی حصہ نہیں ملتا… البتہ باقی تمام ’’ذوی الفروض‘‘ کو بچی ہوئی
میراث میں سے دوبارہ حصہ مل سکتا ہے… بچی ہوئی ’’میراث‘‘ کی دوبارہ تقسیم کے لئے
اہل علم نے یہ تین قاعدے مقرر فرمائے ہیں۔
قاعدہ نمبر۱
اگر ورثاء میں خاوند یا بیوی موجود نہ
ہو… اور باقی ’’ذوی الفروض‘‘ ایک ہی جنس یعنی ایک ہی قسم کے ہوں تو وہ عصبہ کی طرح
ہو جائیں گے… ہم ان کو شمار کر کے ان کے مجموعے سے مسئلہ حل کر لیں گے… مثلاً ایک
شخص کا انتقال ہوا وارث دو بیٹیاں ہوں بس… اب اگر شرعی تقسیم کریں تو بیٹیوں کو دو
تہائی مل جائے گا اور باقی ایک تہائی میراث بچ جائے گی… چنانچہ یہاں بیٹیوں کو
شمار کریں گے… وہ دو ہیں تو مسئلہ دو سے حل ہوگا… ساری میراث کے دو حصے کریں گے…
ہر بیٹی کو ایک حصہ مل جائے گا… اور یوں ساری میراث تقسیم ہو جائے گی… تیس ہزار
میں سے ہر بیٹی کو پندرہ ہزار… باقی قواعد کل کے سبق میں ان شاءاللہ۔
22/02/2022
الله تعالیٰ اپنی معرفت
کا نور نصیب فرمائیں۔
میراث زیادہ ہو اور ورثاء
کم… اور ورثاء سارے ذوی الفروض ہوں، عصبہ کوئی نہ ہو تو بچی ہوئی میراث انہی ذوی
الفروض میں تقسیم ہو جائے گی… تقسیم کا پہلا قاعدہ ہم نے کل پڑھ لیا ہے… آج باقی
قواعد ملاحظہ فرمائیے۔
قاعدہ نمبر۲
اگر ورثاء میں خاوند یا
بیوی موجود نہ ہوں… اور باقی ورثاء ایک جنس یعنی ایک قسم کے نہ ہوں تو پہلے حسب
ضابطہ انمیں میراث تقسیم کریں گے… پھر ان کے حصے شمار کریں گے… اور انمیں جمع کرکے
جو مجموعہ بنے گا… ساری میراث دوبارہ اس ’’مجموعہ‘‘ سے تقسیم کریں گے۔
مثلاً ایک شخص کا انتقال
ہوا… اس کے ورثاء میں صرف اسکی والدہ اور دو ماں شریک بھائی ہیں… قانون کے مطابق
یہاں والدہ کا حصہ سدس یعنی چھٹا ہے… اور دو ماں شریک بھائیوں کا حصہ ثلث یعنی
تیسرا ہے… جب سدس اور ثلث آجائیں تو مسئلہ (چھ) سے حل ہوتا ہے… چھ کا چھٹا حصہ
ایک بنتا ہے وہ ماں کو دے دیا… اور چھ کا ثلث یعنی تیسرا حصہ دو بنتا ہے وہ دو
بھائیوں کو دے دیا… اب کافی ساری میراث بچ گئی… چنانچہ دوبارہ تقسیم کریں گے… ماں
کا حصہ ایک تھا… بھائیوں کے دو حصے تھے… ان کو جمع کریں… ایک اور دو کو جمع کیا
تین حصے بنے… اب ساری میراث تین سے تقسیم ہو گی… تین میں سے ایک حصہ ماں کو اور دو
حصے بھائیوں کو دے دیں گے… یعنی پہلے کل میراث مثلاً تیس ہزار کے ہم نے چھ حصے
بنائے تھے… ان میں سے پانچ ہزار ماں کو اور دس ہزار ماں شریک بھائیوں کو دیا تھا…
مگر اب اس تیس ہزار کے کل تین حصے بنائیں گے… دس ہزار ماں کو… اور بیس ہزار ماں
شریک بھائیوں کو مل جائے گا۔
قاعدہ نمبر۳
• اگر ورثاء میں خاوند یا بیوی بھی موجود
ہیں… اور کچھ ذوی الفروض اور بھی ہوں… میراث زیادہ اور ورثاء کم پڑ رہے ہوں… تو اس
کا آسان طریقہ یہ ہے کہ… میراث میں سے پہلے خاوند یا بیوی کا حصہ نکال لیں گے…
پھر باقی میراث دیگر ذوی الفروض میں ان دو قاعدوں سے تقسیم کریں گے… جو ہم نے آج
اور گزشتہ کل پڑھ لئے ہیں۔
قاعدہ نمبر۱ کی مثال:
ایک عورت کا انتقال ہوا…
ورثاء میں خاوند اور چھ بیٹیاں ہیں… خاوند کا حصہ ربع یعنی چوتھا بنتا ہے… بیٹیوں
کا حصہ دو تہائی بنتا ہے… کچھ میراث بچ جاتی ہے… اب طریقہ یہ ہے کہ چار سے مسئلہ
بنا کر چوتھا حصہ خاوند کو دے دیں گے… اور باقی مال کے چھ حصے بنا کر چھ بیٹیوں کو
ایک ایک حصہ دے دیں گے۔
قاعدہ نمبر۲ کی مثال:
ایک شخص کا انتقال ہوا…
اس کے ورثاء میں بیوی، بیٹی اور ماں موجود ہیں… بیوی کا حصہ ثمن یعنی آٹھواں ہے…
بیٹی کا نصف یعنی آدھا… اور ماں کا سدس یعنی چھٹا ہے… یہ حصے دیکر میراث بچ رہی
ہے… مثلاً کل میراث تیس ہزار تھی… بیٹی کو آدھی یعنی پندرہ ہزار مل گئی… ماں کو
سدس یعنی پانچ ہزار اور بیوی کو ثمن یعنی تین ہزار سات سو پچاس روپے ملے… اب اس
تقسیم کے بعد بھی میراث میں چھ ہزار دو سو پچاس روپے موجود ہیں… چنانچہ اب ’’رد‘‘
ہو گا… یعنی ذوی الفروض کو مزید میراث ملے گی۔
قاعدہ یہ کہ پہلے ساری
میراث کو بیوی کے حصے یعنی ’’ثمن‘‘ آٹھ سے تقسیم کریں گے… آٹھ حصے بنا کر
آٹھواں یعنی ایک حصہ بیوی کو دے دیں گے… باقی میراث بیٹی اور ماں میں اسی قاعدے
سے تقسیم ہو گی… جو ہم نے پڑھ لیا ہے کہ… بیٹی کا حصہ نصف ہے ماں کا سدس تو مسئلہ
چھ سے بنے گا… چھ میں سے نصف یعنی تین حصے بیٹی کو… اور ایک حصہ ماں کو مل جائے
گا… اب ماں اور بیٹی کے حصے شمار کر کے جمع کریں گے… تین اور ایک جمع چار ہوئے… تو
ساری میراث کے چار حصے کریں گے… تین حصے بیٹی کو اور ایک حصہ ماں کو مل جائے گا۔
بس اسی پر میراث کے ضروری
اسباق کا یہ سلسلہ مکمل ہوا… الحمدللہ رب العالمین
23/02/2022
اختتامِ
مکتوباتِ میراث
اللهم لك الحمد ولك الشكر
كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك…
الحمدلله الذي بنعمته تتم
الصالحات… الحمدلله ثم الحمدلله۔
’’علم الفرائض‘‘ کے وہ اسباق جو اہل اسلام کے
لئے ضروری ہیں… مکمل ہوگئے… مزید بھی کچھ اسباق ہیں جن کا تعلق علماء کرام اور
طلبہ سے ہے… اور وہ تصحیح وغیرہ کے کچھ ’’حسابی قواعد‘‘ ہیں… جنکی عامۃ المسلمین
کو ضرورت نہیں۔
آپ حضرات سے گزارش ہے کہ
ان (45) اسباق کو بار بار پڑھیں… ایک دوسرے کو پڑھائیں… اور فرضی مثالیں بنا کر
انکی مشق کریں تاکہ یہ مبارک علم آپ کے سینے میں محفوظ رہے اور اس علم کو اپنے
اور اپنے متعلقین کے عمل میں بھی زندہ کریں… رمضان المبارک کے بعد کوشش ہوگی کہ ان
اسباق کو مزید اضافے اور مشقوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کردیا جائے ان شاءاللہ
تعالیٰ… مگر یہ وعدہ نہیں ہے… اور نہ ہی اس کے انتظار میں آپ اس پر نور علم سے
دور ہوں… اپنے موبائل سے ان اسباق کو اپنی کاپیوں پر اتارلیں… اور ان کو اچھی طرح
یاد کرلیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو
بہت شرح صدر اور جزاء خیر عطاء فرمائیں۔
24/02/2022
مکتوبات
جمعہ
مقام جمعہ
1
بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖهَا وَمُرْسٰهَا
اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائیں… اللہ
تعالیٰ قبول فرمائیں… اللہ تعالیٰ آخرت کا سرمایہ بنائیں۔
آج سے جمعہ مبارک کے مکتوبات کا
سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے… اس میں ’’جمعہ مبارک‘‘ کے تیس سے زائد خواص، خصوصیات
اور معارف کا بیان ہوگا ان شاءاللہ۔
آئیے! مکمل عمل کے ارادے سے… بسم
اللہ… کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے!
{يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا
نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ
وَذَرُوا الْبَيْعَ۰ۭ
ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}
اے
ایمان والو! جب جمعہ کی نماز کیلئے اذان ہو تو دوڑو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے اور
چھوڑ دو خرید و فروخت… یہ تمہارے لئے بڑے خیر کی بات ہے اگر تم کو سمجھ ہے۔
(الجمعہ: ۰۹)
لیجئے… عظیم رب کا حکم
آگیا… بندے کا کام عمل کرنا ہے… اللہ تعالیٰ نے ’’خیر‘‘ کا وعدہ فرمایا ہے…
’’خیر‘‘ ملتی ہے تو قسمت بدلتی ہے… قسمت سنورتی ہے… اوقات نماز کے نقشے میں بروز
جمعہ… زوال کا وقت دیکھیں… اور اس سے پہلے پہلے تیار ہوکر مسجد پہنچ جائیں… اور
اسے اپنی زندگی کا معمول بنائیں… یہ عمل آپ کو بہت آگے لے جائے گا ان شاءاللہ…
بڑی عجیب اور حسین داستان ہے۔
25/02/2022
مقام جمعہ
2
الله تعالیٰ مجھے اور آپ
سب کو ’’حکمت و دانائی‘‘ عطاء فرمائیں۔
جس طرح دنیا دار لوگ
’’مال‘‘ کمانے سے تنگ نہیں آتے… اسی طرح دیندار، ایمان والے لوگ نیک اعمال سے تنگ
نہ ہوا کریں… دنیا کے بارے میں کوئی نہیں کہتا کہ آج کی روٹی موجود ہے، کپڑے
موجود ہیں… کل کا پتا نہیں زندہ ہوں گے یا نہیں تو مزید مال نہ کمائیں… مگر دین کے
بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ… بس تھوڑا کافی ہے… آسانی اچھی ہے… حالانکہ نیک
اعمال آخرت میں کام آئیں گے اور آخرت ہمیشہ کی ہے… اور وہاں کا سامان یہاں تیار
کرنا ہے… جمعہ شریف کی مہم ایک تو اس لئے ضروری ہے کہ… ہم اکثر مسلمان اتنے بڑے
دن، اتنے مقدس دن، اتنے بابرکت دن… اجتماعی طور پر گناہوں کا انبار اپنے نامۂ
اعمال میں جمع کرلیتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا… جمعہ کی پہلی اذان
کے ساتھ ہی نماز کے لئے مسجد جانا لازم ہو جاتا ہے، واجب ہوجاتا ہے اور اس وقت
جمعہ کی تیاری کے علاوہ کوئی بھی کام کرنا… ناجائز ہوتا ہے… بڑا گناہ ہوتا ہے… اس
وقت خرید و فرخت کرنا، کھانا پینا، باتیں کرنا، سونا، مطالعہ کرنا… حتٰی کہ دین کا
کوئی کام کرنا کچھ بھی جائز نہیں رہتا… تفسیر، حدیث اور فقہ کی کتابوں میں یہی
لکھا ہوا ہے… اور یہ اس وجہ سے ہے کہ… الله تعالیٰ نے امر یعنی حکم کے صیغے کے
ساتھ ہمیں اپنے ذکر کی طرف دوڑنے کی تاکید فرما دی ہے… آج جب امت کے خواص و عوام
میں… اس اہم مسئلے کی کوئی فکر نہیں رہی… اور ہم جمعہ جیسے مقدس دن کی ان مقدس
گھڑیوں میں جب آسمان سے بے شمار فرشتے زمین پر آ جاتے ہیں… طرح طرح کے گناہوں
میں ڈوبے رہتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہم اپنا بڑا خسارہ اور نقصان کررہے ہوتے
ہیں… اس لئے اہل دل آگے بڑھیں… اور امت کو اس گناہ سے بچنے کی دعوت دیں… اس مہم
کے ضروری ہونے کی دیگر وجوہات کل ان شاءاللہ۔
26/02/2022
مقام جمعہ
3
اللہ تعالیٰ محرومی اور
شقاوت سے ہماری حفاظت فرمائیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے تاکیدی
حکم فرمایا کہ… جمعہ نماز کی اذان ہو تو فوراً نماز کے لئے دوڑ پڑو… اب فوراً تو
وہی دوڑ سکے گا جو پہلے سے تیار بیٹھا ہوگا… اگر ہم اس وقت نہانے دھونے کے لئے
اٹھیں گے… تو اس کی اگرچہ گنجائش ہے… مگر ہم نے پورا حکم تو نہ مانا… مکمل حکم پر
تو عمل نہ کیا… چنانچہ ہمارے سب سے بڑے محسن حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہمیں طریقہ سکھا دیا… وہ طریقہ یہ ہے کہ ہم جمعہ نماز کے لئے زوال سے پہلے یا زوال
کے فوراً بعد پہنچ جائیں… اس پر ہمیں طرح طرح کے بڑے انعامات بھی ملیں گے… اور ہم
اللہ تعالیٰ کے تاکیدی حکم کو بھی اس عاشقانہ شان کے ساتھ پورا کریں گے کہ… جب
اذان ہوگی اور دوڑنے کا حکم متوجہ ہوگا تو ہم عرض کریں گے کہ… اے ہمارے مالک! ہم
تو پہلے سے حاضر ہوئے بیٹھے ہیں… اللّٰہ اکبر! صرف ایک گھنٹہ قابو کرنا ہے اور
فضائل کے حسین انبار جمع کر لینے ہیں… آج سے لیکر مرتے دم تک ہر جمعہ کے دن بارہ
بجے سے دو بجے تک کا وقت… اگر ہم نے یہ کرلیا تو یقین کریں… ہماری زندگی بدل جائے
گی… ہماری قسمت سنور جائے گی۔
’’مقام جمعہ‘‘ مہم ایک تو اس لئے ضروری ہے
کہ… امت گناہ سے بچے… اور دوسرا اس لئے ضروری ہے کہ… امت جمعہ کی مبارک گھڑیوں کی
قدر کر کے… اپنی قدر و قیمت بڑھائے… اپنی قسمت اچھی کرے۔
جمعہ نماز کے لئے جلدی
آنے کے عظیم فضائل… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی فکر، ایسی تاثیر
اور ایسے درد سے بیان فرمائے ہیں کہ… زندہ دل ایمان والے انہیں پانے کے لئے… فجر
سے بھی پہلے تیار ہو کر مسجد آجاتے تھے اور نماز جمعہ ادا کرکے واپس گھر جاتے
تھے… اب نہ ویسی ہمتیں نہ ویسے جذبے تو کم از کم زوال کے وقت ہی آجائیں… جمعہ کے
فضائل، خواص اور مناقب بہت زیادہ ہیں… اگر صرف مکتوبات ہی کے ذریعے ان کو لکھنے کی
کوشش کی جائے تو شاید دو تین مہینے لگ جائیں گے… اس لئے کچھ باتیں مکتوبات میں عرض
کی جائیں گی… اور کچھ ’’مدینہ مدینہ‘‘ کے مضامین کے ذریعہ بیان ہوں گی ان شاءاللہ…
تب امید ہے کہ جلد یہ موضوع کھل کر آپ کے سامنے آجائے گا ان شاءاللہ!
27/02/2022
مقام جمعہ
4
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں
’’جمعہ شریف‘‘ کی ’’قدر‘‘ نصیب فرمائیں… ’’جمعہ‘‘ کے بارے میں ایک تو تاکیدی،
وجوبی اور لازمی حکم ہے کہ… جمعہ نماز کی پہلی اذان کے بعد… ہر مسلمان ہر کام چھوڑ
کر فوراً نماز کےلئے مسجد پہنچ جائے… اس کے علاوہ ’’جمعہ‘‘ کے بارے میں جو خاص
احکامات اور باتیں احادیث مبارکہ میں آئی ہیں… آج ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے… ان
میں سے ہر حکم، ہر خصوصیت اور ہر بات پر ’’احادیث مبارکہ‘‘ اور ’’آثار‘‘ موجود
ہیں۔
۱ جمعہ
کے دن کے بڑے بڑے فضائل
۲ جمعہ
کا دن ملنا اس امت کو باقی امتوں سے آگے بڑھاتا ہے
۳ جمعہ
کی نماز کے اجتماع کی برکات
۴ جمعہ
نماز کیلئے جلد از جلد آنے کے بڑے بڑے فضائل
۵ جمعہ
کا دن ’’عید مکرر‘‘ ہے یعنی ہر ہفتے آنے والی عید
۶ جمعہ
کا دن عید الفطر اور عید الاضحی سے بھی افضل ہے
۷ جمعہ
کے دن جنت میں اہل ایمان کو اللہ تعالی کی زیارت ہوگی
۸ جمعہ
کے دن جنت میں بھی اجتماع ہوا کرے گا
۹ جمعہ
کے دن اور رات درود شریف کی کثرت کے فضائل
۱۰ جمعہ
کے خطبہ میں سکوت اورخاموشی اختیار کرنے کا تاکیدی حکم
۱۱ جمعہ
کے غسل کا تاکیدی حکم اور فضیلت
۱۲ جمعہ
کے دن مسواک کا زیادہ اہتمام
۱۳ جمعہ
کے دن اچھے لباس کی ترغیب
۱۴ جمعہ
کے دن عام دنوں سے زیادہ اچھی خوشبو کا اہتمام
۱۵ جمعہ
کے دن نماز جمعہ کے لئے امام کے آنے سے پہلے نماز، تلاوت اور ذکر میں مشغول رہنے
کی ترغیب
۱۶ جمعہ
نماز کے لئے چل کر آنے پر ایک ایک قدم کا بھاری ثواب
۱۷ جمعہ
کے دن دعاء کی قبولیت کی ایک خاص گھڑی
۱۸ جمعہ
کے دن فجر نماز کے لئے مسنون سورتیں
۱۹ جمعہ
کی نماز کے لئے مسنون سورتیں
۲۰ جمعہ کے خطبہ کے
احکامات
۲۱ جمعہ
میں جلد آنے اور جمعہ کے اجتماع میں آگے بیٹھنے پر قیامت کی منزلوں کا مدار
۲۲ جمعہ کے دن ’’سورہ
کہف‘‘ کی تلاوت
۲۳ جمعہ کا دن گناہوں
کی معافی کا بازار
۲۴ جمعہ کے دن کو
عبادت کے لئے فارغ کرنا
۲۵ جمعہ کے دن زوال
کے وقت نوافل کا حکم
۲۶ جمعہ کے دن سفر
جائز یا ناجائز؟
۲۷ جمعہ کے دن مردوں
کی ارواح کا اپنی قبور کے قریب ہونا
۲۸ جمعہ کا دن زندوں
اور مردوں کے جمع ہونے کا دن
۲۹ جمعہ
نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں
۳۰ جمعہ کے دن روزہ
رکھنے کے احکامات
۳۱ جمعہ
میں عیدالاضحی کی طرح نماز اور قربانی کے اجر کو جمع کرنے کا طریقہ
۳۲ قرآن مجید میں
مذکور ’’شاہد‘‘ کے لفظ سے مراد یوم جمعہ
۳۳ فرشتوں کے نزدیک
جمعہ کا نام ’’یوم المزید‘‘
۳۴ جمعہ نماز کے وقت
فرشتوں کے ہجوم کا نازل ہونا اور جمعہ کے لئے آنے والوں کے نام لکھنا
۳۵ جمعہ کے دن شیاطین
کا لوگوں کو سست کرنے کے لئے زیادہ محنت کرنا
۳۶ جمعہ نماز سے پہلے
اور بعد کی سنتوں کا بیان
۳۷ جمعہ کے دن فجر کی
جماعت کی زیادہ اہمیت
۳۸ جمعہ کے دن وفات
پانے کی فضیلت
۳۹ جمعہ کے دن جہاد
کا سفر
۴۰ جمعہ کے دن نیک
اعمال کی کثرت۔
اور بھی کئی احکامات اور
خواص… کوشش ہوگی کہ جمعہ شریف کے بارے میں احادیث مبارکہ کا مجموعہ تیار کر کے
مضمون کی صورت میں شائع کر دیا جائے ان شاء اللہ… فی الحال آج کی فہرست کو توجہ
اور محبت سے دو چار بار ضرور پڑھ لیں۔
28/02/2022
ماہ (۳) مارچ
مقام جمعہ
5
اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں
اپنا ’’دیدار‘‘ بار بار نصیب فرمائیں۔
’’جمعہ شریف‘‘ کے بارے میں جو مہم آجکل…
اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق سے چل رہی ہے… یہ کوئی نئی دعوت ،نئی ایجاد یا نئی بات
نہیں ہے… یہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں بیان فرمودہ ’’احکامات‘‘ کی دعوت ہے…
اور ہمارے اسلاف اور اکابر نے اس ’’دعوت‘‘ پر بہت محنت فرمائی ہے… بہت تاکید
فرمائی ہے۔
حضرت حکیم الاُمت رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہر مسلمان کو چاہیے کہ جمعہ کا اہتمام
پنجشنبہ (یعنی جمعرات کے دن) سے کرے جمعرات کے دن سے ہی عصر کے بعد استغفار (اور
درود شریف وغیرہ) زیادہ کردے، جمعہ کے لئے اپنے کپڑے تیار رکھے، خوشبو موجود نہ ہو
تو لاکر رکھے تاکہ جمعہ کے دن ان کاموں میں مشغول نہ ہو… بزرگان سلف نے فرمایا ہے
کہ سب سے زیادہ جمعہ کا فائدہ اس کو ملے گا جواس کا منتظر رہتا ہو اور اس کا
اہتمام ’’پنج شنبہ‘‘ سے کرتا ہو… اور سب سے زیادہ بد نصیب وہ ہے جس کو یہ بھی
معلوم نہ ہو کہ جمعہ کب ہے؟… حتٰی کہ صبح کو لوگوں سے پوچھے کہ آج کون سا دن ہے؟
اور بعض بزرگ جمعہ کا اتنا اہتمام کرتے تھے کہ جمعہ کی شب جامع مسجد ہی میں جا کر
رہتے تھے۔
اگلے زمانہ میں جمعہ کے
دن صبح کے وقت اور فجر کے بعد راستے گلیاں بھری نظر آتی تھیں… تمام لوگ اتنے
سویرے سے جامع مسجد جاتے تھے اور سخت ازدحام ہوتا تھا… مگر اس زمانے میں مسلمانوں
نے اس مبارک دن کی بالکل قدر گھٹا دی… افسوس کہ وہ دن جو کسی زمانہ میں مسلمانوں
کے نزدیک عید سے بھی زیادہ تھا اور جس دن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فخر تھا اور جو دن اگلی
امتوں کو نصیب نہ ہوا تھا، آج مسلمانوں کے ہاتھ سے اس کی اپنی ذلت اور ناقدری ہو
رہی ہے… اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو اس طرح ضائع کرنا ناشکری ہے… جس کا وبال
ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
[بہشتی گوہر۔ ص:، ۱۱۷، ط:مکتبۃ البشریٰ]
حضرت حکیم الامہ کی باتیں
آپ نے پڑھ لیں… عزم کرلیں کہ ہر جمعہ کے دن جمعہ نماز کے لئے بارہ بجے یا اس سے
بھی پہلے نماز جمعہ کے لئے ضرور مسجد پہنچ جایا کریں گے… ان شاءاللہ۔
01/03/2022
مقام جمعہ
6
اللہ تعالیٰ ’’خَیْرُ
الرَّازِقِیْن‘‘ ہیں… بہترین رزق عطاء فرمانے والے۔
اللہ تعالیٰ نے ’’بنی
اسرائیل‘‘ کی ایک قوم کو حکم فرمایا کہ… ہفتے کے دن وہ مچھلی کا شکار نہ کیا کریں…
یہ قصہ قرآن مجید میں کئی جگہ مذکورہے… اس قوم نے یہ ہمت تو نہ کی کہ ہفتے کے دن
شکار کرتے… مگر کچھ حیلے بہانوں سے… ہفتے کے دن مچھلی کو گھیرنے کا انتظام کر
لیتے… اور پھر اسے اتوار کے دن پکڑ لیتے… اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا غضب نازل
فرمایا… کیونکہ انہوں نے حیلے بہانے سے اللّٰہ تعالیٰ کا واضح حکم توڑا… اور رزق
کے معاملے میں… اللّٰہ تعالیٰ کو رزّاق سمجھنے کی بجائے… اپنی عقل کو استعمال کیا…
اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ فرما دیں اور انہیں ذلیل بندر بنا دیا… قوم کے جن
لوگوں نے انہیں اس برائی سے نہیں روکا تھا ان پر بھی عذاب آیا… اور اس درد ناک
عذاب سے صرف وہی لوگ بچے جنہوں نے قوم کو اس گناہ سے روکا تھا… ہم مسلمان خیر امت
ہیں… اللہ تعالیٰ نے ہمیں سب سے افضل دن یعنی جمعہ شریف عطاء فرمایا ہے… اور جمعہ
میں بھی صرف ایک دو گھنٹے خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے اور ساتھ یہ اعلان بھی
فرما دیا ہے کہ… اللہ تعالیٰ ’’خیر الرازقین‘‘ ہیں… اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کہ
زوال یعنی جمعہ کا وقت داخل ہونے سے پہلے پہلے سارے بازار ٬ سارے کام بند ہو جاتے…
پرانے زمانے میں کئی اللّٰہ والے افراد… امت کو عذاب سے بچانے کے لئے… جمعہ کے دن
بازاروں میں جاجا کر اس حکم کا اعلان فرماتے… مگر آج کل حال یہ ہے کہ… سب کچھ
کُھلا رہتا ہے… ہر کام زور و شور سے جاری رہتا ہے… جو لوگ نیک کہلاتے ہیں… انہوں
نے مسجدوں کا نظام بدل دیا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح جمعہ پڑھ لیں… مگر ان کے
’’کاروبار‘‘ میں کوئی خلل نہ آئے… یہ صورت بہت خطرناک ہے… حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اس امت کی شکلیں تو مسخ نہیں ہوتیں… مگر عذاب والے
کاموں سے عذاب تو بہرحال آتا ہے… اور دلوں کی شکلیں مسخ کر دی جاتی ہیں… اے
مسلمانو! اے خیر امت! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو… اور جمعہ شریف کے بارے میں الله
تعالیٰ کے تاکیدی حکم پر عمل کرو۔
03/03/2022
مقام جمعہ
7
اللّٰہ تعالیٰ ’’امت
مسلمہ‘‘ کو شان اور عظمت والا’’جمعہ‘‘ واپس نصیب فرمائیں۔
’’عید الاضحیٰ‘‘ کے دن دو بڑے اعمال ہوتے
ہیں… ایک قربانی اور دوسرا عید کی نماز… جمعہ کا دن بھی چونکہ… اہل اسلام کے لئے
’’عید مکرر‘‘ ہے۔
یعنی بار بار نصیب ہونے
والی عید… تو اس میں بھی ’’نماز‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’قربانی‘‘ کے اجر کا انتظام بھی
فرما دیا گیا… ’’حدیث صحیح‘‘ میں وعدہ ہے… اور بشارت ہے کہ جو مسلمان… جمعہ نماز
کے لئے پہلی گھڑی میں مسجد پہنچ جائے گا اسے ایک اونٹ… قربان کرنے کا اجر ملے گا…
اس کے بعد والوں کو گائے کا… ان کے بعد والوں کو دنبے، بکرے کا… ان کے بعد والوں
کو مرغی کا… اور ان کے بعد والوں کو انڈہ صدقہ کرنے کا اجر ملے گا… اب پہلی گھڑی
سے کیا مراد ہے؟ اس پر ان شاء اللہ کبھی پھر بات کریں گے… کوشش کریں کہ… ہر جمعہ
زیادہ سے زیادہ… آخرت کا سامان جمع کرلیں… باقی رہی دنیا تو… جمعہ کا اہتمام کرنے
والوں کو… اللہ تعالیٰ بڑی برکات اور بڑی فتوحات عطاء فرماتے ہیں۔
04/03/2022
مقام جمعہ
8
اللّٰہ تعالیٰ’’جمعۃ
المبارک‘‘ کے دن ’’زوال‘‘ کے وقت… اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں… اور ان کے
بہت قریب ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تو ویسے ہی
ہر بندے کے قریب ہیں… شہ رگ سے بھی زیادہ قریب… مگر آج جس ’’قرب‘‘ کی بات ہو رہی
ہے… یہ محبت، رحمت اور توجہ والا’’قرب‘‘ ہے… جنت میں بھی جمعہ کے دن… اللہ تعالیٰ
کی ’’زیارت‘‘ کا اہتمام ہو گا… جو نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہو گی… لیجئے ’’جمعہ
شریف‘‘ کے بارے میں… کئی سال پرانا ایک ’’مکتوب خادم‘‘ ملاحظہ فرمائیے:
حضرت امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ نے ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں
’’جمعۃ المبارک‘‘ کے فضائل اور اعمال لکھے ہیں… کیا آپ نے وہ پڑھے ہیں؟… وہ لکھتے
ہیں:
’’جان لو یہ بڑا عظیم دن ہے، اس دن کے ذریعہ
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عظمت دی اور یہ دن خاص طور پر مسلمانوں کو عطا فرمایا…
یہی وہ دن ہے جس میں اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوا کرے گی… اور جو
جمعہ کے دن جمعہ نماز کے لئے جتنا جلدی مسجد جائے گا وہ ’’زیارت الٰہی‘‘ میں اسی
قدر آگے ہوگا۔
روایت ہے کہ: حضرت جبرئیل
علیہ السلام تشریف لائے ان کے ہاتھ میں ایک سفید آئینہ تھا… فرمایا یہ ’’جمعہ‘‘
ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے، تاکہ یہ آپ کے لئے اور آپ کے بعد
آپ کی امت کے لئے ’’عید‘‘ ہو۔‘‘
[قوت القلوب۔ج:۱، ص:۱۱۷، طبع: دار الکتب العلمیہ
بیروت]
اور
روایت ہے کہ
’’ہر
جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ چھ لاکھ افراد کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔‘‘
[مسند ابی یعلیٰ موصلی۔ حدیث رقم:۳۴۳۴، طبع: دار المأ مون
للتراث، دمشق]
فرمایا: ’’جس کا جمعہ سلامت اس کے
باقی دن بھی سلامت۔‘‘
[شعب الایمان للبیہقی۔حدیث رقم ۳۴۳۴، طبع مکتبہ الرشد الھند]
جمعہ کے دن جب پرندے اور حشرات آپس
میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں… سَلَامٌ سَلَامٌ وَ یَوْمٌ صَالِح… جمعہ کا اصل فائدہ
وہ پاتے ہیں جو ایک دن پہلے سے ہی جمعہ کا انتظار اور تیاری شروع کردیتے ہیں… اسی
لئے بعض اسلاف جمعہ کی رات مسجد میں گزارتے تھے۔
05/03/2022
وقفہ ـــــ یوکرین اور روس
اللہ تعالیٰ ’’لوگوں‘‘ کے
حالات بدلتے رہتے ہیں… ’’مقام جمعہ‘‘ کے مکتوبات سے ایک دن کا وقفہ لے کر… آج
’’یوکرین‘‘ اور ’’روس‘‘ کی بات کرتے ہیں:
موضوع طویل اور جگہ مختصر
ہونے کی وجہ سے مختصر خلاصہ پر اکتفا کرنا ہوگا!
۱ یوکرین…
ایک زمانے تک مسلمانوں کے پاس رہا… سلطنت عثمانیہ کے مجاہدین نے یہ ’’سرزمین‘‘ فتح
کی اور اسے اسلامی خلافت کا حصہ بنایا
۲ یوکرین
پر آج سے تقریباً ایک سو ستر سال پہلے…
عثمانیوں کی روس کے ساتھ ایک تاریخی جنگ ڈھائی سال تک جاری رہی… جس میں روس کو
عبرتناک شکست ہوئی… جنگ کا اختتام 1855ء میں ہوا
۳ خلافت
عثمانیہ کے کمزور ہونے کے بعد… یہ خطہ بھی اس کے قبضہ سے نکل گیا… اور روس کے ساتھ
ایک جنگ میں عثمانیوں کو شکست بھی اٹھانا پڑی
۴ یوکرین
کافی عرصہ تک ’’سوویت یونین‘‘ کا حصہ رہا… سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک مستقل
ملک بن گیا
۵ یوکرین
خود کو یورپ اور نیٹو کا باقاعدہ حصہ بنانا چاہتا ہے… یہ بات ’’روس‘‘ کو پسند
نہیں… اور یوکرین میں ’’روس نواز‘‘ افراد بھی کافی تعداد میں موجود ہیں… جو خود کو
روس کا حصہ یا اتحادی بنانا چاہتے ہیں
۶ یوکرین…
خود امریکہ اور یورپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے… مسلمانوں پر بھی حملہ کر چکا
ہے… عراق پر امریکہ اور نیٹو کے حملے میں یوکرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا… اور عراق
کے مظلوم مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے
۷ امریکہ
اور یورپ نے ’’یوکرین‘‘ کو ’’روس‘‘ اور ’’مسلمانوں‘‘ کے خلاف استعمال کیا… اور اس
سے وعدہ کیا کہ اگر روس نے اس پر حملہ کیا تو ہم تمہارا بھرپور ساتھ دیں گے
۸ اس
طرح امریکہ اور یورپ نے ’’یوکرین‘‘ کی مالش کرکے…
اسے ’’پہلوان پہلوان‘‘ کہہ کر روس کے سامنے کھڑا کر دیا اور خود پیچھے سے
بھاگ گئے
۹ طویل
عرصے بعد یہ پہلی جنگ ہے جس میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور قوم ماری جا رہی ہے…
اور پناہ گزین بن رہی ہے… اس لئے صلیبی اور یہودی دنیا میں ایک تہلکہ مچا ہوا ہے… میڈیا پر ’’یوکرین‘‘ کی مظلومیت سنائی جا رہی
ہے… اور روس کو اکیلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
۱۰ امریکہ
اور یورپ سرکاری طور پر تو ’’یوکرین‘‘ کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہو رہے… مگر
دائیں بازو کے صلیبیوں میں کہرام برپا ہے… ڈنمارک اور دیگر کئی ممالک سے لوگ نجی طور
پر لڑنے کے لئے یوکرین آرہے ہیں… مگر ابھی تک ’’اقوام متحدہ‘‘ نے ان صلیبی
جنگجوؤں کو… ’’دہشت گرد‘‘ یا ’’نان سٹیٹ ایکٹر‘‘ قرار نہیں دیا
۱۱ امریکہ،
یورپ اور نیٹو… مسلمانوں پر جہاں موقع ملتا تھا ٹوٹ پڑتے تھے… لیبیا ہو یا عراق…
افغانستان ہو یا صومالیہ… مگر اب چونکہ سامنے ’’روس‘‘ ہے تو یہ سارے ممالک نمک
منڈی کے بدمعاش بن گئے ہیں… وہ بدمعاش جو صرف کمزوروں پر دھونس جماتے ہیں
۱۲ روس
کی جس فوج نے یوکرین پر حملہ کیا ہے اس میں روس کی مسلم ریاستوں کے مسلمان فوجی
بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں
۱۳ بہت
عرصہ بعد… جنگ، ظلم اور خونریزی کا رخ واپس ظالموں کی طرف مڑتا نظر آرہا ہے
۱۴ یہ
چونکہ ایک سیاسی جنگ ہے… اس لئے ہم کسی فریق کے ساتھ نہیں ہیں
۱۵ جنگ
کبھی اچھی ہوتی ہے… اور کبھی بُری… دیکھتے ہیں کہ یہ جنگ آخر میں اچھی نکلتی ہے
یا بُری؟ اللہ تعالیٰ کفر کی طاقت اور شوکت کو توڑ دیں… اسلام اور مسلمانوں کو
غلبہ عطاء فرمائیں… آمین
06/03/2022
مقام جمعہ
9
اللّٰہ تعالیٰ کا شکر کہ…
ہم مسلمانوں کو ’’جمعۃ المبارک‘‘ نصیب فرمایا۔
یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک
’’دنوں‘‘ میں سے سب سے ’’مقدس‘‘ دن ہے… جو مسلمان اس عظیم دن کی ’’قدر‘‘ کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت میں بڑی ’’قدر و منزلت‘‘عطاء فرماتے ہیں… ’’جمعۃ
المبارک‘‘ کی بنیادی دعوت ’’پانچ‘‘ باتوں پر مشتمل ہے… ہم میں سے جس کی زندگی کے
جتنے ’’جمعے‘‘ باقی ہیں… وہ خود بھی ان پانچ باتوں کا اہتمام کرے… اور کم از کم دس
مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کے لئے تیار کرے۔
۱ جمعہ
کے دن زوال سے لے کر… نماز جمعہ ادا ہونے تک… ہر طرح کا کاروبار بند… نہ خریدیں،
نہ بیچیں… اسی طرح تمام کام کاج بھی بند… کھانا، پینا، سونا، باتیں کرنا، مطالعہ
کرنا، موبائل استعمال کرنا… یا جمعہ نماز اور اس کی تیاری کے علاوہ کوئی بھی کام
کرنا… یہ اللہ تعالیٰ کا لازمی حکم ہے… اس پر ہمیشہ سختی سے عمل کریں۔
۲ جمعہ
نماز کیلئے جلد از جلد مسجد پہنچنا… ہو سکے تو زوال سے پہلے… یہ نہ ہو سکے تو جمعہ
نماز کی پہلی اذان کے فورا بعد پہنچ جائیں… یہ عمل آپ کی زندگی ہی بدل دے گا اور
زندگی خیر اور کامیابی کی طرف چل پڑے گی ان شاءاللہ۔
۳
جمعہ کی
رات اور جمعہ کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام کی کثرت…
’’مقابلہ حسن‘‘ کے عنوان سے اس کے فضائل آپ کافی عرصہ سے سن رہے ہیں الحمدللہ۔
۴
جمعہ کے
دن ’’سورۃ الکہف‘‘ کی تلاوت… اس کا بہترین وقت فجر کے بعد زوال سے پہلے پہلے ہے۔
۵
جمعہ کی
رات اور جمعہ کے دن نیک اعمال کی کثرت… دعاء، صدقہ، نوافل، تلاوت، استغفار، والدین
کی قبور پر حاضری، مریض کی خدمت و عیادت، نکاح میں شرکت اور بہت ذکر اللہ… یہ
اعمال بطور مثال لکھے ہیں… بس ہر نیک عمل کی کوشش ہو۔
یہ ہے ’’جمعۃ المبارک‘‘
پانے کا بنیادی نصاب… کوشش کریں کہ جمعہ کے دن ایسا سفر نہ کریں کہ جس سے جمعہ کی
نماز متاثر ہو… البتہ جہاد کا سفر جائز بلکہ مبارک ہے… اور جمعہ کے دن زوال کے بعد
کا جہاد ’’فتح‘‘ کی نوید ہے… ’’جمعۃ المبارک‘‘ کے بارے میں قرآن مجید کی آیات
اور کئی احادیث مبارکہ مکتوبات میں آ چکی ہیں… مزید احادیث مبارکہ کا مجموعہ بھی
جلد مضمون کی صورت میں آ جائے گا ان شاء اللہ… ہمت کریں… آج بروز پیر سے جمعرات
تک اس دعوت پر عمل کرنے کے لئے کم از کم گیارہ افراد پکے تیار کریں… ایک خود آپ…
اور دس دیگر مسلمان۔
07/03/2022
مقام جمعہ
10
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
’’ماضی‘‘ میں بھی ’’جمعۃ المبارک‘‘ پر ’’مکتوبات‘‘ چلتے رہے… دو ’’مکتوبات‘‘ کا
خلاصہ ملاحظہ فرمائیے۔
اللہ تعالیٰ کا احسان
دیکھئے ہر ہفتے ’’جمعہ‘‘ کا دن ہمیں عطاء فرماتے ہیں… تاکہ پچھلے چھ دنوں کے سارے
گناہ دھل جائیں… جمعہ کے دن ہمیں فتنوں سے امان ملتی ہے… یوں سمجھیں ہمیں وہ
’’کہف‘‘ یعنی غار مل جاتی ہے جس میں بیٹھ کر ہم اللہ تعالیٰ کی امان میں آجاتے
ہیں… جمعہ کے دن جو مسلمان غسل کرکے جلدی مسجد جائے اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے
روزوں اور قیام کا اجر ملتا ہے… اس دن کی فضیلت تو بہت پہلے سے ہے، جب اللہ تعالیٰ
نے اپنے خلیفہ یعنی ’’انسان‘‘ کواسی دن پیدا فرمایا… معلوم ہوا ہمارا آغاز بھی
’’جمعہ‘‘ اور ہمارا اختتام بھی ’’جمعہ‘‘ کہ قیامت اسی دن برپا ہوگی… لیکن اللہ
تعالیٰ نے پہلی امتوں کو یہ دن نہیں دیا… بلکہ یہ دن اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی امت کو عطاء فرمایا… اندازہ لگائیے کتنا بڑا احسان ہے… اب ہمارا
کام ہے کہ ہم اپنا ’’جمعہ‘‘ روشن بنائیں، خوشبودار بنائیں، بھاری اور قیمتی
بنائیں، تاکہ ہماراآغاز اور ہمارا انجام بہترین ہوجائے… جمعہ کے نور کو وہی لوگ
محسوس کرتے ہیں جن کے دل کی آنکھیں روشن ہوں… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ ’’توبہ‘‘
کا دروازہ چوبیس گھنٹے کھلا ہے… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ توبہ قبول فرماتے ہیں
اور توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ صبح اپنا
ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کے گناہ گاروں کو معاف فرما دیں اور رات کو اپنا ہاتھ
پھیلاتے ہیں کہ دن کے گناہ گاروں کو اپنی مغفرت کے سایے میں لے لیں… اللہ تعالیٰ
کا احسان کہ وہ سچی توبہ کرنے سے ہرگناہ معاف فرما دیتے ہیں، خواہ وہ گناہ پہاڑوں
سے بڑا اور سمندروں سے زیادہ وسیع ہو… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ ہمیں ہر چھ دن
بعد ’’جمعۃالمبارک‘‘ کی نعمت عطاء فرماتے ہیں تاکہ… ہم اللہ تعالیٰ کا قرب، توبہ
اور اللہ تعالی ٰکی رحمت زیادہ سے زیادہ پالیں… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ
جمعۃالمبارک کی رات اور دن درود شریف کے عمل کا اجر و ثواب خوب بڑھا دیتے ہیں… اور
درود شریف کی کثرت کرنے والوں کو جمعۃالمبارک پانے اور کمانے والا بنا دیتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ ہمیں جمعۃالمبارک کے دن ’’نماز جمعہ‘‘ ’’خطبہ جمعہ‘‘
اور ’’سعی الی ذکراللہ‘‘ کی نعمت عطاء فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ
جمعۃالمبارک کے دن کی موت کو اہل اسلام کے لئے عذاب قبر سے نجات کا ذریعہ بنا دیتے
ہیں… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ جمعۃ المبارک کے دن ’’سورۃ الکہف‘‘ کو مسلمانوں
کے لئے فتنوں سے بچنے کی پناہ گاہ بنا دیتے ہیں۔
08/03/2022
مقام جمعہ
11
اللہ تعالیٰ ’’امت
مسلمہ‘‘ میں ’’جمعہ مبارک‘‘ کو اس کی شرعی شان و شوکت کے ساتھ زندہ فرمائیں… ایک
مستند اور بڑے دینی ادارے کا فتوی ملاحظہ فرمائیں!
’’احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن
مخصوص اعمال واذکار… درود شریف اور خاص سورتیں پڑھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے… یہی
وجہ ہے کہ ’’فقہاء کرام‘‘ نے جمعہ کے دن عام تعطیل کو مستحب قرار دیا ہے جیسا کہ
زاد المعاد میں ہے کہ:
’’جو کچھ نصوص میں وارد ہوا بے شک جمعہ وہی
دن ہے جس دن مستحب ہے کہ اپنے آپ کو اس میں عبادت کے لئے فارغ کردے، اس دن کو
باقی دنوں پر خاص شرف و فضیلت حاصل ہے… ہر طرح کی عبادات کے متعلق خواہ وہ واجب
ہوں یا مستحب… اللہ تعالیٰ نے ہر مذہب والوں کے لئے… ایک دن مخصوص فرمایا جس میں
وہ خود کو عبادت کے لئے فارغ کریں اور تمام دنیوی مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار
کریں، پس جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے اور یہ دیگر ایام کے مقابلے میں اس طرح ہے
جیسا کہ رمضان کا مہینہ دیگر مہینوں کے مقابلے میں… اور اس میں قبولیت دعاء کی خاص
گھڑی اس طرح ہے جس طرح شب قدر رمضان المبارک میں۔‘‘
[زاد المعاد۔ ج:۱، ص:۳۸۶، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
ظاہر ہے کہ یہ دن عبادات
کے ذریعہ تقرب الی اللہ حاصل کرنے کا دن ہے… اب اگر کچھ لوگ اس مبارک دن کی برکت
سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ عیاشی کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی نادانی اور حماقت ہے…
چونکہ ’’اقامت جمعہ‘‘ مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہے اس لئے اس میں مجمع جس
قدر بڑا ہو اتنا ہی زیادہ بہتر ہے جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے۔
’’جب جمعہ کا دن ’’شکر‘‘ مسرت کے اظہار اور
’’تعظیم نعمت‘‘ کا دن ہے تو اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعہ نماز کے لئے بڑے
اجتماع کا اہتمام ہو، جس سے اس کی شہرت ظاہر ہو… اسی وجہ سے اس میں عید کی طرح بڑی
تعداد میں لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے۔‘‘
[تفسیر کبیر۔ ج:۳۰، ص:۵۴۳، ط:دار إحياء التراث
العربي ، بيروت]
عام نمازوں کی طرح چھوٹی
چھوٹی جماعت کی شکل میں جمعہ ادا کرنے سے یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے، مدینہ منورہ میں
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ہزاروں میں تھی مگر جمعہ کی نماز صرف
مسجد نبوی میں ہوا کرتی تھی۔‘‘
(دار الافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری
ٹاؤن)
اللّٰہ تعالیٰ مسلمان
حکمرانوں کو توفیق عطاء فرمائے کہ وہ… جمعہ نماز کو اس کی شان و شوکت کے مطابق
قائم کروائیں… لیکن اگر حکمران ایسا نہیں کرتے تو ہم عوام مسلمان… اپنی استطاعت کے
مطابق جو کچھ کرسکتے ہیں کرتے رہیں… جمعہ نماز کے لئے جلد مسجد آنا… زیادہ سے
زیادہ مسلمانوں کو مسجد میں لانا… کم از کم بارہ بجے سے دو بجے تک ہر طرح کے
کاروبار کو بند رکھنا اور تاجروں کی منت سماجت کرنا تاکہ وہ بھی ایسا کریں… جمعہ
کی رات اور دن درود شریف اور دیگر اعمال کی کثرت کرنا… یاد رکھیں کہ! اگر ہمیں
اپنی عظمت کا نشان ’’جمعہ شریف‘‘ واپس مل گیا تو ہمیں بہت کچھ مل جائے گا ان
شاءاللہ۔
10/03/2022
مقام جمعہ
12
اللہ تعالیٰ ہمیں
’’محرومی‘‘، ’’سستی‘‘ اور ’’غفلت‘‘ سے بچائیں۔
فقیہ اسلام حضرت مفتی
عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
ّّقرآن مجید میں اذان
جمعہ کے بعد ’’سعی الی الجمعہ‘‘ (جمعہ کے لئے دوڑنے) کا جو ’’امر‘‘ ہے وہ وجوب کے
لئے ہے… استحباب کے لئے نہیں… اور اذان اول کے بعد ’’سعی الی الجمعہ‘‘ واجب اور
ضروری ہے… کسی ایسے کام میں مشغول ہونا جو ’’سعی الی الجمعہ‘‘ میں مخل ہو جائز نہیں…
مکروہ تحریمی ہے۔
غایۃ الاوطار ترجمہ در
مختار میں ہے: ’’وَوَجَبَ السَّعی‘‘ الخ، اور واجب ہے جمعہ کی طرف جھپٹنا اور
’’بیع کو ترک کرنا‘‘ اگرچہ چلتے چلتے کرے۔ اذان اول ہونے پر صحیح تر قول کے مطابق۔
بیع
سے مراد وہ امر ہے جو نماز جمعہ سے باز رکھے… حاصل کلام یہ ہے کہ جتنا جلد ہوسکے
غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر جامع مسجد پہنچ جائے… اگر صبح سے اپنا کاروبار یا اپنی
دیگر مصروفیات بند کرنا مشکل ہو تو اذان اول سے اتنی دیر پہلے دکان بند کردی جائے
کہ سنت کے مطابق غسل کر کے کپڑے تبدیل کر کے خوشبو لگا کر ’’اذان اول‘‘ کے وقت
جامع مسجد پہنچ جائے… اگر خدانخواستہ کسی دن بہت ضروری کام میں مشغول ہو اور اذان
اول سے قبل غسل جمعہ کا بالکل موقع نہ مل سکا تو کپڑے کی درستگی کے ساتھ ساتھ جلدی
سے غسل کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے… بشرطیکہ جمعہ سے قبل سنت اور خطبہ فوت نہ ہو…
مگر اس کی عادت ہرگز نہ ڈالی جائے… اور اگر سنت یا خطبہ فوت ہونے کا گمان ہو تو اس
صورت میں صرف وضوء پر اکتفا کیا جائے ۔‘‘
[فتاویٰ رحیمیہ۔ ج:۶، ص:۱۱۴، ط:دار الاشاعت]
حضرت مفتی سعید احمد پالن
پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’مکروہ تحریمی… دراصل حرام ہی ہوتا ہے… بعض
وجوہات سے ’’فقہاء کرام‘‘ مکروہ تحریمی لکھتے ہیں… ورنہ اس کا گناہ اور حرام کا
گناہ ایک جیسا ہے۔‘‘
(العیاذ باللہ) اندازہ لگائیں… جمعہ کے مبارک
دن… حرام میں مبتلا رہنا… اللہ تعالیٰ کے بلانے اور پکارنے کو نظر انداز کرکے خرید
و فروخت میں لگے رہنا یا سوئے رہنا… کتنا بڑا جرم ہے… اور جرم بھی اتنے مقدس دن…
اللہ تعالیٰ کی پناہ… ہمیں چاہیے کہ ماضی کی کوتاہیوں پر توبہ استغفار کریں… اور
آئندہ کبھی بھی… جمعہ کے دن اذان اول کے بعد… کسی بھی کام میں مشغول ہو کر… اپنے
سر پر حرام کا بوجھ نہ لادیں… بلکہ زوال سے پہلے ہی تیار ہو کر جمعہ نماز کے لئے
پہنچ جایا کریں… ہمیشہ ہمیشہ۔
11/03/2022
مقام جمعہ
13
اللّٰہ تعالیٰ نے ’’قرآن
مجید‘‘ میں ’’سورہ الجمعہ‘‘ نازل فرمائی ہے… یہ ’’مدنی‘‘ سورت ہے… اس میں کل
’’گیارہ آیات‘‘ ہیں… یہ سورت اٹھائیسویں پارے میں ہے… اس میں ’’یوم الجمعہ‘‘ یعنی
جمعہ کے دن اور اس کی نماز کا تذکرہ اور
حکم ہے… ’’جمعہ‘‘ کے دن کا اصل نام تو ’’جمعہ‘‘ ہے… مگر اسلام سے پہلے عرب لوگ اسے
’’عروبہ‘‘ یا ’’العروبہ‘‘ کہتے تھے جس کا معنی ہے ’’رحمت‘‘… جنت میں اس دن کا نام
’’یوم المزید‘‘ ہوگا… یعنی بہت زیادہ بڑی نعمت والا دن… کیونکہ اس دن اہل جنت کو
اللہ تعالیٰ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا کرے گا… ’’جمعہ‘‘ کا ایک نام ’’یوم الازہر‘‘
بھی ہے… روشن، چمکدار دن… ایسا دن جس کی فضیلت باقی دنوں پر بالکل ظاہر ہے… جمعہ
کا ایک نام ’’حج المساکین‘‘ بھی آیا ہے… یعنی غریب، مسکین لوگوں کا حج… کیونکہ اس
میں غریب، مسکین مسلمان بغیر مال کے بڑی بڑی نیکیاں کما لیتے ہیں… ’’جمعہ‘‘ کا ایک
نام ’’الحربہ‘‘ بھی آیا ہے… جنگ کا دن… ’’غزوہ بدر، فتح مکہ‘‘ وغیرہ بڑے بڑے جہاد
اس دن ہوئے… مگر یہ نام شاید اسلام سے پہلے تھا… ’’جمعہ‘‘ کا ایک نام
’’سیدالأیّام‘‘ بھی ہے… یعنی دنوں کا بادشاہ اور سردار… مگر اس عظیم، مقدس اور
مبارک دن کا اصل نام ’’الجمعہ‘‘ ہے… ’’جمعہ‘‘ اسم ہے… اس کا معنیٰ ہے ’’اجتماع‘‘…
بکھری ہوئی چیزوں کا جمع ہونا… اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ ’’جمعہ‘‘ کو ’’جمعہ‘‘
کس مناسبت سے فرمایا گیا… اس میں کئی اقوال ہیں مثلاً:
۱ اسی
دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا سامان جمع کیا گیا… مٹی، پانی وغیرہ تمام
اجزاء کو جمع کرکے ان کا خمیر تیار فرمایا گیا۔
۲ یہ
مسلمانوں کے جمع ہونے کا دن ہے، اس میں انہیں نماز جمعہ کے اجتماع کا حکم دیا گیا
ہے۔
۳ اس
دن قیامت واقع ہوگی تمام مخلوق کو میدان حشر میں جمع کیا جائے گا۔
۴ اس
دن حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ مطہرہ حضرت سیدہ حوّاk زمین پر جمع یعنی اکٹھے ہوئے… دونوں کو الگ الگ جگہ اتارا گیا تھا
ایک مدت کی محنت اور تلاش کے بعد دونوں کا اجتماع ہوا۔
۵ انصار
مدینہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے مشورہ کیا کہ
ہمیں ہفتے کے کسی دن جمع ہونا چاہیے… اس کے لئے انہوں نے اس دن کو منتخب کیا… جس
کا نام ’’عروبہ‘‘ تھا… اُن کے جمع ہونے کا دن بن جانے کے بعد اس کا نام جمعہ پڑ
گیا۔
۶ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ایک بزرگ ’’کعب بن لوائی‘‘ تھے… وہ اس دن
عربوں کو حرم شریف میں جمع کر کے وعظ و نصیحت کرتے تھے تو اس دن کا نام ’’جمعہ‘‘
یعنی جمع ہونے کا دن پڑ گیا… یعنی اجتماع کا دن۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو…
اللہ تعالیٰ نے اس دن کے لئے ’’جمعہ‘‘ کا نام منتخب فرمایا… اور اسے اپنے کلام
مبارک کا حصہ بنایا… اور یہ دن بے شمار فضائل، برکات اور خیروں کے جمع ہونے کا دن
بن گیا… ’’جمعہ‘‘ کا زیادہ صحیح تلفظ تو وہی ہے جو قرآن مجید میں آیا ہے… یعنی
جیم پر بھی پیش پڑھیں اور ’’میم‘‘ پر بھی پیش… ’’جُمُعَہ‘‘ لیکن اگر ’’میم‘‘ کو
ساکن پڑھیں تو اس کی بھی گنجائش ہے… ’’جُمْعَہ‘‘ اور ’’میم‘‘ پر ’’زبر‘‘ بھی بعض
لغات میں آئی ہے… ’’جُمَعَہ‘‘ جبکہ مشہور نحوی امام زجاج کے نزدیک ’’میم‘‘ پر
’’زیر‘‘ بھی پڑھی جاسکتی ہے… ’’جُمِعَہ‘‘ یعنی یہ لفظ چار طریقوں سے اداء کیا جا
سکتا ہے… جُمُعَہ… جُمْعَہ… جُمَعَہ… جُمِعَہ… بہتر یہ ہے کہ پہلے طریقے سے پڑھیں…
بہرحال نام جیسے بھی پڑھیں جائز ہے… مگر ’’نماز جمعہ‘‘ کے لئے بہت جلد مسجد پہنچ
جایا کریں… اور جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت کیا کریں… جمعہ کی فجر نماز با جماعت
پڑھنے کا زیادہ اہتمام کریں… اور جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کیا کریں… صدقہ،
خیرات، دعاء اور استغفار کا بھی اہتمام کریں۔
12/03/2022
مقام جمعہ
14
اللّٰہ تعالیٰ نے
’’جمعہ‘‘ کے دن کو بڑی ’’کرامت‘‘ عطاء فرمائی ہے… حتیٰ کہ ’’جمعہ‘‘ کے دن ’’جہنم‘‘
کو نہیں ’’دہکایا‘‘ جاتا… زاد المعاد میں ہے:
’’جمعہ کے علاوہ ہر روز ’’جہنم‘‘ کو
’’دہکایا‘‘ جاتا ہے (یعنی مزید گرم کیا جاتا ہے) جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ
عنہ کی روایت میں گزر چکا ہے (کہ ہر روز نصف النہار یعنی زوال سے کچھ پہلے جہنم کو
دہکایا جاتا ہے سوائے جمعہ کے دن کے) کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جمعہ سب سے افضل
دن ہے اور اس دن میں نیکیاں، عبادات، دعائیں اور اللہ جل شانہٗ کے سامنے عاجزی اور
زاری کی جاتی ہے اور یہ چیزیں جہنم کے دہکنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، اسی وجہ سے اس
دن اہل ایمان کے گناہ دوسرے دنوں کی نسبت بہت کم واقع ہوتے ہیں… یہاں تک کہ فاسق و
فاجر (مسلمان) بھی اس دن ان گناہوں سے بچتے ہیں جن سے وہ باقی دنوں میں نہیں بچتے…
حدیث شریف میں جمعہ کے دن جہنم کا نہ دہکایا جانا یہ دنیا کی زندگی میں ہے… باقی
رہا قیامت کا دن تو اس کا عذاب کم نہ ہوگا اور نہ ہی جہنم والوں پر کسی دن عذاب
میں کمی کی جائے گی… یہی وجہ ہے کہ جب وہ جہنم کے فرشتوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے
درخواست کرو کہ کسی دن ہمارے عذاب میں کمی فرمائے تو فرشتے ان کی بات قبول نہیں
کریں گے۔‘‘
[زاد المعاد، ابن قیم۔ ج:۱، ص:۳۷۵، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
جمعہ شریف کے اثرات کا اندازہ
لگائیں کہ… اس کے اثرات دوسرے جہانوں تک بھی پہنچتے ہیں اور اس دن جہنم کو نہیں
بھڑکایا جاتا… اللہ کرے… ہمارے دل بھی ’’جمعہ شریف‘‘ کے مبارک اثرات کو سمجھ لیں…
اور قبول کریں… آپ حضرات میں سے جو تجارت کرتے ہیں وہ اپنے دیگر تاجر بھائیوں تک…
اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ… جمعہ کے دن کم از کم بارہ بجے سے لیکر دو بجے
تک ہر طرح کا کاروبار بند رکھا جائے… تاکہ کوئی مسلمان بھی ’’اذان اول‘‘ کے بعد
خرید و فروخت کرکے حرام اور بڑے گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
13/03/2022
مقام جمعہ
15
اللّٰہ تعالیٰ نے
’’جمعہ‘‘ کو بڑے ’’اعزازات‘‘ عطاء فرمائے ہیں… اور اسے ’’اہل ایمان‘‘ کے لئے
’’عید‘‘ کا دن بنایا ہے… چنانچہ ’’جمعہ شریف‘‘ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ
اس دن اپنی استطاعت کے مطابق اچھے سے اچھا لباس پہننا چاہیے… زاد المعاد میں ہے:
’’جمعہ کے دن مستحب (یعنی پسندیدہ عمل یہ بھی
ہے کہ) اس دن اپنی استطاعت کے مطابق سب سے بہتر لباس پہنے۔‘‘
مسند احمد میں ہے کہ حضرت
ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سنا،آپ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اگر اس کے
پاس خوشبو ہو تو اسے لگایا اور اپنا بہترین لباس پہنا پھر وہ نکلا اور اس پر متانت
(یعنی سکینہ اور وقار) طاری رہا،یہاں تک کہ مسجد پہنچ گیا… پھر اس نے (نفل) نماز
پڑھی اگر موقع ملا… اور اس نے کسی کو ایذاء نہیں پہنچائی اور جب امام (خطبے کے
لئے) نکلا تو یہ نماز اداء کرنے تک خاموش رہا… تو یہ اس کے لئے دو جمعوں کے درمیان
کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔‘‘
[مسند احمد۔ حدیث رقم، ۲۳۵۷۱، ط:مؤسسۃ الرسالۃ]
اور حضرت عبداللہ بن سلام
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر جمعہ
کے دن فرماتے سنا کہ:
’’تمہارا کیا نقصان ہے کہ اگر تم اپنے کام
والے لباس کے علاوہ جمعہ کے لئے ایک جوڑا خرید لو!‘‘
سنن ابو داود۔ حدیث رقم:۱۰۷۸، ط:دار الکتب العلمیہ۔
بیروت]
اور حضرت سیدہ عائشہ
صدیقہk سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ نے لوگوں کو صوف کے موٹے کپڑے پہنے دیکھا تو
فرمایا:
’’تمہارا کیا نقصان ہے کہ اگر تم وسعت رکھتے
ہو تو اپنے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے لئے الگ لباس تیار کرلو!
[سنن ابن ماجہ۔ حدیث رقم:۱۰۹۶، ط:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
معلوم ہوا کہ… جمعہ کے
اعزاز و اکرام کا ہر طرح سے لحاظ رکھنا ہے… اور جمعہ نماز کےلئے اپنی استطاعت کے
مطابق اچھے کپڑے تیار کرنے اور پہننے ہیں… ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ نماز کے
لئے جب ہم مسجد پہنچیں تو کسی کو ’’ایذاء‘‘ نہ پہنچائیں… کسی کی گردن پھلانگنا بھی
اس میں شامل ہے… بعض لوگ اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو لے کر چلے جاتے ہیں… یہ بچے
لوگوں کی نماز خراب کرنے اور ان کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں… جمعہ کے دن
خاص طور پر اس سے بچنا چاہیے… تاکہ اجر ضائع نہ ہو۔
14/03/2022
مقام جمعہ
16
اللہ
تعالیٰ نے ’’جمعہ مبارک‘‘ کے لئے بڑا اونچا نظام قائم فرمایا ہے… ’’زاد المعاد‘‘
میں ہے کہ:
’’جمعہ‘‘ کے دن صدقہ دینا باقی ایام کی نسبت
زیادہ اجر کا باعث ہے… باقی دنوں کے مقابلے میں ’’جمعہ‘‘ کا صدقہ ایسا ہے، جیسے
باقی مہینوں کے مقابلے میں رمضان المبارک کا صدقہ۔
میں نے شیخ الاسلام ابن
تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ جب وہ
جمعہ نماز کے لئے نکلتے تو گھر میں سے روٹی وغیرہ جو میسر ہوتا ساتھ لے لیتے اور
راستہ میں خفیہ طور پر صدقہ کر دیتے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنھمافرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا کعب
رضی اللہ عنہ اکٹھے ہوئے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’بے شک جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (یعنی
گھڑی) آتی ہے کہ اس وقت کوئی مسلمان جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے… اللہ
تعالیٰ اسے عطاء فرما دیتے ہیں۔‘‘
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے
فرمایا : میں جمعہ کے بارے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ!
’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو انسان اور شیاطین
کے سوا… آسمان و زمین، خشکی، تری، پہاڑ، درخت اور تمام مخلوقات خوفزدہ ہوجاتی ہیں
اور فرشتے مسجد کے دروازوں کو گھیر لیتے ہیں اور جو پہلے ، پھر پہلے، پھر پہلے
آتا ہے اس کا نام لکھ لیتے ہیں یہاں تک کہ امام آجائے… جب امام آجائے تو وہ
اپنے صحیفے لپیٹ لیتے ہیں… اور جو امام کے آنے کے بعد آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ
سے یوں ملتا ہے کہ اس کے لئے کوئی اجر نہیں لکھا جاتا… اور ہر بالغ کو چاہیے کہ
جمعہ کے دن غسل کرے ،جس طرح جنابت کا غسل کیا جاتا ہے اور تمام دنوں کے مقابلے میں
اس دن صدقہ بڑے اجر والا ہے… اور سورج جمعہ جیسے کسی دن پر نہ طلوع ہوا ہے نہ غروب
(یعنی جمعہ سب سے افضل ہے)۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنھمافرماتے ہیں کہ: یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا
مکالمہ تھا… اور میں کہتا ہوں کہ:
’’اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو وہ بھی لگا
لے۔‘‘
[زاد المعاد تلخیص۔ ج:۱، ص:۳۹۵، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
15/03/2022
مقام جمعہ
17
اللہ تعالیٰ کے جو خوش
نصیب بندے… ’’جمعۃ المبارک‘‘ کی حفاظت کرتے ہیں… وہ پورا ہفتہ نیکیوں، رحمتوں اور
برکتوں سے سرشار رہتے ہیں… جمعہ چھٹی کا دن نہیں، عبادت کا دن ہے… سرکاری چھٹی کا
مطالبہ اس لئے ہے تاکہ جمعہ کے انوارات کو سمیٹا جاسکے… جمعہ کی حفاظت کرنے والے
فتنوں سے بچ جاتے ہیں… جمعہ میں خود کو تھکانے والے طاقت پاتے ہیں… جمعہ میں ’’ذکر
اللہ‘‘ بھی ہے… اور ’’فضل اللہ‘‘ بھی… جمعہ کے لئے تکوینی قوانین عام دنوں سے
مختلف ہیں… جمعہ کا جہاد بھی ’’بدری‘‘ اور جمعہ کی موت بھی کامیابی… جمعہ کی دعاء
بھی وزنی اور جمعہ کا صدقہ بھی بھاری… جمعہ میں ’’دعوت اِلی اللہ‘‘ ہے… ’’گونجتا
خطبہ‘‘… جمعہ میں اسلامی معاشرے کی طاقت ہے… ’’مثالی اجتماع‘‘… جمعہ میں پوشیدہ
شیطانی طاقت کا توڑ ہے… سورۃ الکہف… جمعہ میں بدن کی قوت ہے… غسل، طہارت، مسواک..
جمعہ میں روح کی پاکی ہے… استغفار… اور جمعہ میں اونچی پرواز اور رحمتوں کا خزینہ
ہے… کثرتِ درود و سلام۔
پہلا
جمعہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ
منورہ ہجرت کرنے اور سورہ جمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم
اجمعین نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع
ہوکر عبادت کرتے ہیں… لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کا ذکر
کرنے کے لئے جمع ہوں… چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمعہ کے دن لوگ
جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھائی… لوگوں نے اپنے
اِس اجتماع کی بنیاد پر اِس دن کا نام ’’یوم الجمعہ‘‘ رکھا… اس طرح سے یہ اسلام کا
پہلا جمعہ ہے۔
[تفسیر قرطبی۔ ج:۱۸، ص:۹۸، ط:دار الکتب المصریۃ،
القاہرۃ]
نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا جمعہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمرو بن
عوف کی بستی ’’قبا‘‘ میں چند روز کے لئے قیام فرمایا… ’’قُبا‘‘ سے روانہ ہونے سے
ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی… یہ
اسلام کی پہلی مسجد ہے، جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی… جمعہ کے دن صبح کو نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قُبا سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے… جب بنو سالم بن
عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطنِ
وادی میں اُس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد ’’مسجد جمعہ‘‘ بنی ہوئی ہے… یہ
جمعہ (نماز) کی فرضیت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ’’نماز جمعہ‘‘
ہے۔
[تفسیر قرطبی۔ ج:۱۸، ص:۹۸، ط:دار الکتب المصریۃ،
القاہرۃ]
’’جمعہ شریف‘‘ کے موضوع پر ماضی میں جاری
ہونے والے تین مکتوبات کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ فرمایا… اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو عمل
کی توفیق عطاء فرمائیں۔
16/03/2022
مقام جمعہ
18
’’جمعہ‘‘ کو وفات پانا ایک مؤمن کے لئے
’’حسن خاتمہ‘‘ کی ایک علامت ہے… ترمذی کی روایت ہے، ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوْتُ یَوْمَ
الْجُمُعَۃِ أَوْ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ اِلَّا وَقَاہُ اللہُ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ۔
’’جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات وفات
پاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ قبر کے فتنے سے بچا لیتے ہیں۔‘‘
[سنن الترمذی۔ حديث رقم:۱۰۷۴، ط:دار الکتب العلمیہ۔
بیروت]
جمعۃ
المبارک کے دن یا رات کی وفات پر اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا
ہے کہ:
۱ جمعہ
کے دن کی موت عذاب قبر سے بھی حفاظت ہے اور سوال قبر سے بھی۔
۲ جمعہ
کے دن مرنے کا فائدہ ایک مسلمان کو قیامت کے دن بھی ہو گا۔
۳ جمعہ
کے دن مرنے والے مسلمان قیامت کے دن ایک خاص علامت کے ساتھ آئیں گے۔
حکیم ترمذی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’جو
مسلمان جمعہ کے دن مرتا ہے تو اس سے وہ پردے ہٹا لیے جاتے ہیں جو اس کے اور اُن
نعمتوں کے درمیان ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تیار فرمائی ہیں… کیونکہ جمعہ
کے دن جہنم کی آگ نہیں بھڑکائی جاتی… اس لئے آگ کی طاقت جمعہ کے دن وہ کام نہیں
کر سکتی جو باقی دنوں میں کرتی ہے… اللہ تعالیٰ جب کسی مومن کی روح جمعہ کے دن قبض
فرماتے ہیں تو یہ اس مؤمن کے لئے سعادت اور اچھے انجام کی علامت ہے۔‘‘
[نوادر الاصول۔ ج:۴، ص:۱۶۲، ط:دار الجيل ، بيروت]
یہ تمام احادیث اگرچہ سند
کے اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں… مگر اہل تحقیق اور اہل علم نے انہیں قابل اعتبار
اور قابل اعتماد قرار دیا ہے… جمعہ کے دن کی موت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں…
مگر یہ کونسا ضروری ہے کہ سعادت وہی ہو جو اپنے اختیار سے حاصل کی جائے… اللہ
تعالیٰ ’’شکور‘‘ ہے’’قدر فرمانے والا‘‘… وہ جب اپنے کسی بندے یا اس کے اعمال کی
قدر فرماتا ہے تو… پھر اس کی جھولی ہر طرح کی سعادتوں سے بھر دیتا ہے… اختیاری بھی
اور غیر اختیاری بھی۔
ہمیں چاہیے کہ… اپنی
زندگی سے فائدہ اٹھائیں اور جمعہ کی نماز اور جمعہ کے اعمال کا وافر حصہ حاصل
کریں… باقی رہی جمعہ کی موت… یا جمعہ کی شہادت… تو اس کے لئے دعاء مانگا کریں۔
17/03/2022
مقام جمعہ
19
اللّٰہ تعالیٰ کا
’’دیدار‘‘ کیسا ہو گا؟
’’حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک ’’عورت‘‘ نے پوچھا! مرد کے لئے ایک سے
زیادہ شادیوں کا کیا حکم ہے؟
فرمایا جائز ہے… اللہ
تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔
عورت نے کہا! حضرت اگر
پردے کا حکم نہ ہوتا تو میں اپنے چہرے سے نقاب اتار دیتی… پھر آپ میرا حسن و جمال
دیکھتے تو آپ کہتے کہ… ایسی بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی دوسری کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس کی یہ بات سن کر… حضرت
جنید رحمۃ اللہ علیہ پر بے ہوشی طاری ہو گئی… مریدین و احباب کافی کوشش کے بعد ہوش
میں لائے تو بے ہوشی کی وجہ پوچھی… فرمایا! عورت کی بات سن کر مجھے قیامت یاد
آئی… جب اللہ تعالیٰ اپنا حجاب مبارک ہٹا کر… اپنے دیدار کی نعمت نصیب فرمائیں
گے… حسن و جمال کے خالق رب کا اپنا جمال کیسا ہوگا؟ اسی خیال سے میں بے ہوش ہوگیا…
جنت کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا ’’دیدار‘‘ ہوگا۔
روایات و آثار سے ثابت
ہے کہ… جو ’’جمعہ نماز‘‘ کے لئے جتنا جلدی پہنچے گا… اور امام کے جتنا قریب بیٹھے
گا… اسے جنت میں اُسی قدر زیادہ… قریب سے اللہ تعالیٰ کا ’’دیدار‘‘ نصیب ہوگا۔
زاد المعاد میں ہے:
’’جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ جنت میں اپنے مؤمن
اولیاء کو اپنا دیدار کرانے کے لئے تجلی فرمائیں گے… پس جو جمعہ نماز میں امام سے
زیادہ قریب ہوگا وہ جنت میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگا اور جو جمعہ کی طرف
زیادہ جلدی جائے گا وہ دیدار الٰہی بھی سب سے پہلے کرے گا۔‘‘
[زاد المعاد۔ ج:۱، ص:۳۹۵، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ
علیہ نے اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایات ذکر فرمائی ہیں… اور خود
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل بھی لکھا ہے کہ وہ اس فضیلت کو حاصل
کرنے کے لئے جلدی مسجد جاتے تھے۔
’’ایک بار جمعہ نماز کے لئے مسجد پہنچے تو
تین افراد… مسجد میں موجود تھے… اس پر آپ نے خود کو تنبیہ فرمائی کہ… چار میں سے
چوتھے مقام پر میں ہوں… پھر تسلی دی کہ… چلیں چوتھا بھی زیادہ دور نہیں ہوتا۔‘‘
یعنی جو جمعہ نماز کے لئے
جتنا پہلے پہنچے گا وہ اللہ تعالیٰ کے اتنا نزدیک… اور زیارت میں دوسروں سے آگے
ہوگا۔
18/03/2022
مقام جمعہ
20
اللّٰہ تعالیٰ نے ’’جمعہ
شریف‘‘ میں بے شمار ’’نعمتیں‘‘ جمع فرما دی ہیں… اہل علم نے لکھا ہے کہ… جو مسلمان
وفات پا جاتے ہیں… جمعہ کے دن ان کی ’’ارواح‘‘… ان کی قبروں کے پاس آجاتی ہیں…
اور وہ ان لوگوں کو پہچانتی ہیں جو ان کی قبروں پر آتے ہیں… یا وہاں سے گزرتے ہیں
اور انہیں سلام کرتے ہیں… اور وہ باقی دنوں کے مقابلے میں… اپنی قبروں پر آنے والوں
کو زیادہ پہچانتے ہیں اور ان سے زیادہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں… حضرت علامہ ابن قیم
رحمۃ اللہ علیہ نے ’’زادالمعاد‘‘ میں اس
پر تفصیل سے لکھا ہے اور کئی واقعات بھی بیان فرمائے ہیں۔
’’حضرت عبداللہ بن مطرف رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ جمعہ کے دن قبرستان جاتے
تھے… انہوں نے بتایا کہ میں نے جمعہ کے دن ہر قبر والے کو اپنی قبر پر بیٹھے ہوئے
دیکھا! اور انہوں نے مجھے پہچان لیا اور کہنے لگے کہ… یہ ’’مطرف‘‘ ہیں… جو ہمارے
پاس جمعہ کے دن آتے ہیں… میں نے ان سے پوچھا! کیا آپ لوگ بھی ’’جمعہ‘‘ کو جانتے
ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں! اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جمعہ کے دن پرندے کیا کہتے
ہیں… میں نے پوچھا پرندے جمعہ کے دن کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ کہتے ہیں… اے
ہمارے رب سلامتی سلامتی، بہت اچھا دن۔‘‘
ایک اور بزرگ کا قصہ لکھا
ہے کہ انہوں نے خواب میں بتایا:
’’کہ ہم جمعہ کی رات فلاں بزرگ کے پاس جمع
ہوتے ہیں اور وہاں (تم دنیا والوں کی) خبریں حاصل کرتے ہیں… اور جمعہ کی رات، جمعہ
کے دن اور جمعہ کے بعد والی رات صبح سورج طلوع ہونے تک جو ہماری قبر پر آتا ہے ہم
اسے جانتے پہچانتے ہیں… اور یہ جمعہ کی فضیلت اور عظمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
حضرت سفیان ثوری رحمۃ
اللہ علیہ نے حضرت ضحاک تابعی رحمۃ اللہ
علیہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ:
’’جو کسی قبر پر ہفتے کے دن صبح سورج طلوع
ہونے سے پہلے حاضر ہو… تو قبر والے کو اس کا علم ہو جاتا ہے اور یہ ’’جمعہ‘‘ کے
عظیم مقام کی وجہ سے ہوتا ہے (یعنی جمعہ کا اثر جمعہ سے ایک دن پہلے اور جمعہ کے
بعد والے دن بھی رہتا ہے)۔‘‘
[زاد المعاد۔ ج:۱، ص:۴۰۲، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
ممکن ہے یہ باتیں بہت سے
افراد کو عجیب لگیں… مگر یہ سب کچھ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے… جنہیں سلفی اور اہلحدیث حضرات اپنا
امام مانتے ہیں… ان کے سامنے کوئی بات ’’حدیث شریف‘‘ سے بیان کی جائے اور وہ انہیں
پسند نہ آئے تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے… لیکن جب ان کے سامنے امام
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ یا علامہ ابن
قیم رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا جائے
تو اسے کبھی ’’ضعیف‘‘ قرار نہیں دیتے… خیر یہ تو ایک علمی لطیفہ تھا… اصل بات یہ
ہے کہ ’’جمعہ‘‘ کے دن کے اثرات دنیا، آخرت،قبر اور برزخ تک پھیلے ہوئے ہیں…
اللّٰہ کرے ہم زندگی میں ہی… ’’جمعہ شریف‘‘ کے زیادہ سے زیادہ ’’انوارات‘‘ حاصل
کرلیں تاکہ… ہمیں دنیا میں اور آگے کی تمام منزلوں میں… بھرپور فائدہ حاصل ہو۔
19/03/2022
مقام جمعہ
21
اللہ تعالیٰ ہر ’’فتنے‘‘
سے حفاظت فرمائیں… سب سے بڑا اور خطرناک فتنہ ’’دجال‘‘ کا فتنہ ہے… تمام انبیاء
علیھم السلام نے اپنی قوم کو اس فتنے سے ڈرایا ہے… ’’دجال‘‘ کے فتنے سے حفاظت کے
لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ’’جمعہ شریف‘‘ اور ’’سورۃ الکہف‘‘ عطاء فرمائی ہیں…
’’دجال‘‘ نکل آئے اور سامنے بھی آ جائے تو اگر کوئی مسلمان اس پر سورۃ الکہف کی
پہلی دس آیات پڑھ کر پھونک دے گا تو وہ اس کے فتنے سے بچ جائے گا… ہر مسلمان کو
سورۃ الکہف کی پہلی اور آخری دس آیات زبانی یاد کر لینی چاہییں… ’’جمعہ شریف‘‘
اور جمعہ کی رات ’’سورۃ الکہف‘‘ پڑھنا ایک مسنون، پسندیدہ اور نورانی عمل ہے… جو
یہ عمل کرتا ہے اس کو ایسا نور ملتا ہے جو اس سے لے کر ’’کعبہ شریف‘‘ تک پھیل جاتا
ہے… اور جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھنے والے افراد دجال کے فتنے سے محفوظ ہو جاتے
ہیں… اسی طرح ان کی مال کے فتنے، علم کے فتنے، حکومت کے فتنے اور دین کی آزمائشوں
سے بھی حفاظت رہتی ہے… سورۃ الکہف میں ’’اصحاب کہف‘‘ ہیں… جو دین کے خلاف آنے
والے فتنے سے بچائے گئے… اس سورۃ میں باغ والے کا قصہ ہے جو مال کے فتنے سے بچایا
گیا… اس میں ’’ذو القرنین‘‘ کا قصہ ہے… جو اتنی عظیم سلطنت پاکر بھی… اقتدار کے
فتنے سے بچائے گئے… اور اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام کا
قصہ ہے کہ… اتنے علم کے باوجود علم کے فتنے میں مبتلا نہ ہوئے۔
سورۃ الکہف کو اچھی طرح
پڑھنا سیکھیں… ہر جمعہ یا شب جمعہ اس کی تلاوت کا اہتمام کریں… اور اس سورۃ مبارکہ
کی تفسیر کو پڑھیں اور سمجھیں… جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی ’’تلاوت‘‘ پر حضرت آقا
محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں… وہ اگلے مکتوب
میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
20/03/2022
مقام جمعہ
22
اللّٰہ تعالیٰ سے ’’نور‘‘
کا سوال ہے… ’’جمعہ شریف‘‘ کے دن ’’سورۃ الکہف‘‘ پڑھنے کی فضیلت کئی ’’احادیث
صحیحہ‘‘ میں وارد ہوئی ہے… اور بعض ضعیف احادیث بھی اس موضوع پر موجود ہیں… احادیث
مبارکہ میں سے بعض میں… ’’جمعہ کی رات‘‘ اور بعض میں ’’جمعہ کے دن‘‘ سورۃ الکہف
پڑھنے کا تذکرہ ہے… اہل علم فرماتے ہیں کہ… خمیس کے دن ’’مغرب‘‘ سے ’’جمعہ شریف‘‘
شروع ہو جاتے ہیں… اس لئے خمیس کے دن مغرب سے جمعہ کے دن مغرب تک جو بھی سورۃ
الکہف پڑھ لے وہ اس کی فضیلت کو پا لے گا ان شاءاللہ… اور اگر کوئی جمعہ کی رات
بھی پڑھے اور جمعہ کے دن بھی تو اس نے تمام احادیث پر عمل کر لیا… پھر چونکہ یہ
عمل بہت پسندیدہ اور نور والا ہے اس لئے چاہیے کہ جمعہ کے دن صبح سویرے ہی سورۃ
الکہف پڑھ لی جائے اور ’’شب جمعہ‘‘ میں پڑھنی ہو تو بھی اول وقت میں پڑھنا اچھا
ہے… احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
۱نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکہف پڑھی اس کے
اور بیت اللہ کے درمیان ایک نور روشن ہو جاتا ہے۔‘‘
[سنن الدارمی۔ حدیث رقم:۳۴۵۰، ط:دار المغني للنشر
والتوزيع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ]
۲نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے
لئے دو جمعوں کے درمیان نور روشن ہوجاتا ہے۔‘‘
[المستدرک حاکم۔ حدیث رقم:۳۳۹۲، ط:دار الکتب العلمیۃ ،
بيروت]
۳رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے
قدموں کے نیچے سے لیکر آسمان تک نور بلند ہوتا ہے… قیامت کے دن اس کے لئے روشن ہو گا اور اس کے دو
جمعوں کے درمیان کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘
[الترغیب والترہیب۔حدیث رقم:۱۰۹۸، ط:دار الکتب العلمیۃ ،
بيروت]
(یہ تینوں احادیث صحیح اور حسن ہیں)
سبحان اللہ! نور، روشنی،
پاور، طاقت، مغفرت… زمان و مکان میں دور دور تک پھیلا ہوا نور… نور سے کیا مراد
ہے؟ کبھی موقع ملا تو عرض ان شاءاللہ۔
21/03/2022
مقام جمعہ
23
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں
’’جمعہ شریف‘‘ کی ناقدری سے بچائیں… ’’جمعہ شریف‘‘ میں بڑے بڑے ’’مقامات‘‘ اور
’’راز‘‘ پوشیدہ ہیں… جو چاہتا ہو کہ اسے قیامت میں اللّٰہ تعالیٰ کا زیادہ قرب اور
’’دیدار‘‘ نصیب ہو تو وہ ’’جمعہ نماز‘‘ کے لئے جلدی آئے… امام کے زیادہ قریب
بیٹھے… اور خاموشی سے توجہ کے ساتھ خطبہ سنے… جو چاہتا ہو کہ اسے قیامت کے دن حضور
اقد صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ قرب ملے وہ جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن کثرت سے
درود شریف پڑھا کرے… اللہ جل شانہ کا قُرب… اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
قرب… یہ بہت ہی اونچی، مہنگی اور عظیم نعمت ہے… اسی لئے زندہ دل مسلمان ہمیشہ
دھڑکتے دل کے ساتھ ’’جمعہ شریف‘‘ کا انتظار کرتے ہیں… اور وہ دل کی خوشی سے پورا
ہفتہ جمعہ شریف کی تیاری کرتے ہیں کہ… اس دن کیا پہننا ہے… کتنا صدقہ ادا کرنا ہے…
کتنا درود شریف پڑھنا ہے اور کس طرح جلد از جلد جمعہ نماز کے لئے پہنچنا ہے۔
’’جمعہ شریف‘‘ کی نعمتوں میں سے ایک بھاری
اور انمول نعمت… اس دن ’’سورۃ الکہف‘‘ کی تلاوت ہے… ہم نے پڑھ لیا کہ… جمعہ کی رات
اور جمعہ کے دن ’’سورۃ الکہف‘‘ پڑھنے سے ’’مسلمان‘‘ کو ’’نور‘‘ نصیب ہوتا ہے… یہ
’’نور‘‘ زمانے کے لحاظ سے آخرت تک پھیلا ہوا ہوتا ہے… اور مکان و رقبے کے لحاظ سے
یہ مکہ شریف اور آسمان تک ہوتا ہے… یہ نور کیا ہے؟… بڑی دلچسپ تفصیل ہے… مکتوب
میں جگہ کم ہوتی ہے… ’’ نور‘‘ ایک روحانی طاقت، بجلی، پاور، روشنی اور قوت کا نام
ہے… اس کی ادنی سی مثال جیسے بیٹری کی چارجنگ… بیٹری میں نور اور بجلی ہو تو چلتی
ہے اور چلاتی ہے… اگر خالی ہو تو پلاسٹک کا ٹکڑا ہے… مؤمن کے دل کو نور کی ضرورت
ہوتی ہے… مؤمن کی بصیرت کو نور کی ضرورت ہوتی ہے… مؤمن کی آنکھوں کو نور کی
ضرورت ہوتی ہے… نور ہوتا ہے تو حقیقت نظر آتی ہے… سمجھ آتی ہے… نور نہ ہو تو
انسان دنیا کے دھوکوں اور اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے… کافر کتنے ذہین ہوتے ہیں… مگر
نور سے محروم… اسی لئے اللہ تعالیٰ کو نہیں جانتے… اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نہیں
پہچانتے… پھر آخرت بہت بڑی ہے… وہاں کے اندھیرے بہت گہرے ہیں… وہاں کی منزلیں بہت
مشکل ہیں… وہاں کے لئے بھی نور، روشنی اور قوت ہم نے دنیا سے لے کر جانی ہے… جو
’’نور‘‘ ہم یہاں سے لے کر جائیں گے وہی ہمارے آگے چمکے گا… قرآن مجید میں بھی اس
کا تذکرہ ہے… جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات… یا دونوں میں ’’سورۃ الکہف‘‘ کی تلاوت…
ہمارے لئے قیمتی نور کا انتظام ہے… یہ نور دل میں، آنکھوں میں، سمجھ میں اور قسمت
میں اترتا ہے… اور قیامت کے دن کے لئے بھی محفوظ رہتا ہے… ’’سورۃ الکہف‘‘ کے کچھ
فضائل اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ۔
22/03/2022
مقام جمعہ
24
اللّٰہ اکبر… اللہ تعالیٰ
سب سے بڑے… اللہ تعالیٰ ’’کلام‘‘ بھی ہر ’’کلام‘‘ سے بڑا… جمعہ شریف کے دن ’’سورۃ
الکہف‘‘ کی تلاوت پر بات چل رہی تھی! ’’سورۃ الکہف‘‘ کے فضائل پر آج مزید احادیث
مبارکہ پڑھتے ہیں:
۱
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے سورۃ الکہف کی پہلی دس آیات یاد
کرلیں وہ دجال کےفتنے سے محفوظ رہے گا… اور ایک روایت میں ہے کہ… آخری دس
آیتیں‘‘۔
[صحیح مسلم۔ حدیث رقم:۸۰۹، ط:دار الکتب العلمیہ،
بیروت]
۲ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’جس نے سورۃ الکہف کی پہلی اور آخری آیات
پڑھیں تو اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک ’’نور‘‘ ہوگا… اور جس نے مکمل سورت پڑھی
تو اس کے لئے آسمان سے زمین تک نور ہوگا۔‘‘
[مسند احمد۔ حدیث رقم:۱۵۶۲۶، ط:مؤسسۃ الرسالۃ]
۳ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو سوتے وقت ’’سورۃ الکہف‘‘ کی دس آیات
پڑھے وہ دجال کےفتنے سے محفوظ ہوگا… اور جو سوتے وقت ’’سورۃ الکہف‘‘ کا آخری حصہ
پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن اس کے سر سے پاؤں تک نور ہوگا۔‘‘
[ابن مردویہ۔ یہ کتاب نہیں مل رہی]
۴ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’سورۃ الکہف کا نام’’تورات‘‘ میں ’’حائلہ‘‘
ہے… یہ اپنے پڑھنے والے کے لئے جہنم سے حائل (یعنی رکاوٹ) بن جائے گی۔‘‘
شعب الایمان للبیہقی۔
حدیث رقم:۲۲۲۳،
ط:مکتبۃ الرشد للنشر والتوزيع بالرياض]
۵ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس گھر میں ’’سورۃ الکہف‘‘ پڑھی جائے اس
میں اس رات شیطان داخل نہیں ہوتا۔‘‘
[ابن مردویہ۔ یہ کتاب نہیں مل رہی]
گزارش ہے کہ… جمعہ کے دن
یا جمعہ کی رات ’’سورۃ الکہف‘‘ کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں… اور اس مبارک سورت
کو سمجھنے کی فکر اور کوشش بھی کریں۔
23/03/2022
مقام جمعہ
25
اللّٰہ تعالیٰ کی ’’جمعہ
شریف‘‘ کے دن خاص رحمتیں ہیں۔
مسند
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ میں حضرت سیدنا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ:
’’حضرت جبریل علیہ السلام ایک
سفید آئینہ… جس پر ایک نقطہ تھا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ یہ
(آئینہ) جمعہ کا دن ہے… آپ کو اور آپ کی امت کو اس کے ذریعہ ’’فضیلت‘‘ دی گئی
ہے… اور لوگ، یہود و نصاریٰ اس میں آپ سے پیچھے ہیں… اور آپ کے لئے اس دن میں
خیر ہے (دوسری روایت میں ہے کہ بہت زیادہ خیر ہے) اور اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ
کوئی بندہ مؤمن اس میں کوئی بھی خیر مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعاء ضرور
قبول فرماتا ہے… اور یہ دن ہمارے ہاں ’’یوم المزید‘‘ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا… اے جبریل! یوم المزید کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا… آپ کے رب نے فردوس میں ایک
وادی بنائی ہے جس میں ’’مشک‘‘ کے ٹیلے ہیں جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ
جتنے فرشتے چاہتا ہے نازل فرماتا ہے… اور اس کے ارد گرد نور کے منبر ہوتے ہیں، جن
پر انبیاءf
کی نشست ہوتی ہے اور ان منبروں کے اردگرد سونے کے بنے ہوئے یاقوت اور زبرجد سے
مزین منبر ہوتے ہیں… جن پر شہداء اور صدیقین ہوتے ہیں… (اور باقی اہل جنت) ان کے
پیچھے مشک کے ٹیلوں پر بیٹھ جاتے ۔
پھر اللہ تبارک و تعالی
فرماتے ہیں:
میں تمہارا رب ہوں میں نے
تمہارے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا فرما دیا اب تم مجھ سے (مزید) مانگو میں عطاء
فرماؤں گا… تو وہ عرض کرتے ہیں:
اے ہمارے رب ہم آپ کی
رضا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں… میں تم سے راضی ہوں اور تم جو بھی تمنا
کرو وہ پوری ہوگی اور میرے پاس تمہارے لئے مزید (نعمتیں بھی) ہیں… تو وہ (اہل جنت)
جمعہ کے دن سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اس دن ان کا رب ان کو (مزید) خیر عطاء فرماتا
ہے۔
پس یہ جمعہ کا دن وہی ہے
جس میں اللہ تعالیٰ نے عرش پر ’’استواء‘‘ فرمایا… اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا
کیا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔‘‘
[زاد المعاد۔ ج:۱، ص:۳۵۶، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،
بيروت]
آخرت میں تو سب کی
آنکھیں کھل جائیں گی… ایمان والے دنیا ہی میں ’’جمعہ شریف‘‘ کو پہچان لیتے ہیں…
اور اس سے محبت رکھتے ہیں… اور جمعہ نماز کا وقت… جو اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص
رحمتوں کے نزول کا وقت ہوتا ہے… اس میں وہ جلد از جلد نماز اور ذکر کے لئے مسجد
پہنچ جاتے ہیں اور جمعہ کی ’’اذان اول‘‘ کے بعد… کسی بھی دوسرے کام میں مشغول ہو
کر… سخت گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔
24/03/2022
انفاق فی
سبیل اللہ مہم
موت سے
پہلے پہلے
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں
کامیاب زندگی… کامیاب انجام اور کامیاب آخرت نصیب فرمائیں… ہمیں وہ ’’کامیابی‘‘
نصیب فرمائیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کامیابی ہے… الحمدللہ ’’یوم الجمعہ‘‘ کے
تعارف، احیاء اور اقامت کی مہم چلی… اللہ تعالیٰ کا شکر کہ بہت نصرت فرمائی… ارادہ
تھا کہ ’’جمعہ شریف‘‘ کی حقیقت، مقام، فضائل اور اعمال پر ’’چالیس مکتوبات‘‘ اور
’’پانچ مضامین‘‘ پیش کئے جائیں گے۔
الحمدللہ پچیس مکتوبات
اور تین مضامین آچکے ہیں… دیگر اہل علم حضرات کے کئی مضامین بھی آپ جمعہ کے
خصوصی شمارے میں ملاحظہ فرماچکے ہیں… جن مسلمانوں نے مضامین اور مکتوبات کو غور سے
پڑھا ہوگا انہیں ’’جمعہ شریف‘‘ کے بارے میں کافی علم اور معلومات حاصل ہوئی ہوں گی
ان شاء اللہ۔
فی الحال ’’انفاق فی سبیل
اللہ‘‘ کا موسم شروع ہو چکا ہے… اس لئے ’’مقام جمعہ‘‘ کے مکتوبات کو عارضی طور پر
روکا جا رہا ہے… البتہ چالیس احادیث مبارکہ کو مکمل کرنے کے لئے… ایک مضمون اور
آئے گا ان شاءاللہ… عید الفطر کے بعد… مقام جمعہ کی محنت ایک بار پھر اٹھے گی تو
امید ہے کہ… مکتوبات کا سلسلہ بھی مکمل ہو جائے گا ان شاءاللہ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے راستے
میں مال خرچ کریں… موت سر پر کھڑی ہے… وہ جب آنکھوں کے سامنے آئے گی تو پہلی سوچ
یہ ہوگی کہ… کاش میں زیادہ سے زیادہ مال… اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دیتا…
مگر اسوقت انسان کچھ نہیں کر سکے گا… پورے دین کی محنت کے لئے… اسلام کے غلبے کی
محنت کے لئے… اور دین کے اعلیٰ مقاصد کے لئے دل کھول کر… مال خرچ کریں… اس سے
آخرت بھی سنور جائے گی… اور دنیا میں بھی کچھ کمی نہیں آئے گی… بلکہ مزید برکت
نصیب ہوگی ان شاء اللہ۔
25/03/2022
مختصر
فہرست
اللّٰہ تعالیٰ جن مسلمانوں کو حکمت،
عقل، سمجھ اور دانائی عطاء فرماتے ہیں… وہ مسلمان دن رات اپنا مال اللہ تعالیٰ کے
راستے میں خرچ کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں… دین پر
خرچ کرتے ہیں… ایسے عقلمند افراد اپنے مال کے ذریعے دنیا و آخرت کی بڑی بڑی
نعمتوں کے مالک بن جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کے مال کو بہت بڑھا دیتے
ہیں… اور انہیں اپنی رضاء اور محبت نصیب فرماتے ہیں… قرآن و حدیث میں غور کریں تو
انفاق، صدقہ، خیرات اور عطیات کے ایسے عجیب فضائل سامنے آتے ہیں کہ… مسلمان کی
روح اندر تک خوش ہو جاتی ہے… اور انسان کا دل زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کے لئے
مچلنے لگتا ہے… انفاق اور صدقہ کے فضائل کی ایک مختصر فہرست ملاحظہ فرمائیے:
۱ یہ
عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے… یعنی انفاق و صدقہ کرنے والاانسان اللہ
تعالیٰ کے غضب سے بچ جاتا ہے۔
۲ یہ
عمل گناہوں کو اور ان گناہوں کے برے اثرات کو مٹا دیتا ہے۔
۳ یہ
عمل جہنم سے بچاؤ کا اہم ذریعہ ہے۔
۴ اس
عمل کی برکت سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔
۵ یہ
عمل تمام جسمانی بیماریوں کا علاج ہے… صدقہ خود دواء اور بڑا علاج ہے۔
۶ یہ
دل کے امراض کا علاج ہے… بخل، بزدلی، کم ہمتی وغیرہ باطنی امراض۔
۷ یہ
عمل کرنے والوں کے لئے فرشتے روز دعاء فرماتے ہیں۔
۸ اس
عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندے کے مال کو بڑھا دیتے ہیں اور اس میں برکت عطاء
فرما دیتے ہیں۔
۹ اس
عمل کو کرنے والوں کے لئے جنت میں داخلے کا خاص دروازہ ہوگا جس کا نام ’’باب
الصدقۃ‘‘ ہے۔
۱۰ اس
عمل کی برکت سے انسان بہت سے عیبوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
باقی اگلے مکتوب میں ان شاء اللہ۔
26/03/2022
مزید فضائل
اللہ تعالیٰ ہماری ’’قسمت‘‘ کھول دیں…
اور ہمیں اپنے راستے میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے والابنا دیں… اللہ تعالیٰ کے
راستے میں مال خرچ کرنے… صدقہ خیرات کرنے اور دین پر مال لگانے کے فضائل کا خلاصہ
چل رہا ہے۔
اس کا دوسرا حصہ ملاحظہ فرمائیے:
۱۱ اس
عمل کی برکت سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔
۱۲ تقوی
نصیب ہوتا ہے۔
۱۳ اللہ
تعالیٰ کی طرف سے حفاظت ملتی ہے۔
۱۴ فلاح
اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
۱۵ اس
عمل سے انسان ’’البرّ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ نیکی کا مرتبہ پاتا ہے۔
۱۶ یہ
عمل ایمان کے سچا ہونے کی دلیل بن جاتا ہے… الصدقۃ برہان… صدقہ دلیل ہے۔
۱۷ انسان
کا دل کھل جاتا ہے… دل کو اطمینان اور راحت نصیب ہوتی ہے۔
۱۸ اس
عمل سے مال پاک ہو جاتا ہے… خصوصاً تاجر حضرات جو قسمیں کھاتے ہیں، جھوٹ منہ سے
نکل جاتا ہے اس سے مال پر جو برے اثرات پڑتے ہیں… صدقہ خیرات سے وہ دُھل جاتے ہیں
ان شاء اللہ۔
۱۹ اس
عمل کی برکت سے بلائیں اور مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔
۲۰ اخلاص کے ساتھ جو
مال خرچ کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو مستقل بڑھاتے رہتے ہیں… چنانچہ تھوڑے
سے انفاق اور صدقے کا اجر بھی پہاڑوں جیسا ہو جاتا ہے۔
باقی اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ۔
27/03/2022
محبوب عمل
اللہ تعالیٰ اپنے جن
بندوں سے محبت فرماتے ہیں… ان کو ’’سخی‘‘ بنا دیتے ہیں… اور ان کے دل سے بخل، لالچ
اور کنجوسی کی گرہ کھول دیتے ہیں… اور انہیں زیادہ سے زیادہ مال اپنے راستے میں
خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرماتے ہیں… انفاق اور صدقہ کے فضائل کا خلاصہ چل رہا ہے…
اس کا تیسرا حصہ ملاحظہ فرمائیے:
۲۱ اس
عمل کی بدولت ’’نفاق‘‘ سے حفاظت ملتی ہے۔
۲۲ اس عمل کی برکت سے
اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے۔
۲۳ اس عمل کی برکت سے
انسان جنَّت کے قریب ہو جاتا ہے۔
۲۴ اس عمل کی برکت سے
انسان اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے قریب ہو جاتا ہے۔
۲۵ یہ عمل ’’بُری
موت‘‘ اور ’’برے خاتمے‘‘ سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
۲۶ اس عمل کی برکت سے
انسان کے لئے بہت سے بند دروازے کھل جاتے ہیں۔
۲۷ اس عمل سے آخرت
کی خوشی اور چہرے کی تروتازگی نصیب ہو جاتی ہے۔
۲۸ یہ عمل دنیا کی
ستر تکلیفوں کو دور کرا دیتا ہے۔
۲۹ اس
عمل کے ذریعہ اپنے وفات پا جانے والے اقارب کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔
۳۰ اس عمل کی برکت سے
انسان بڑے بڑے مقامات پالیتا ہے۔
۳۱ اس
عمل سے انسان کی روح کو تزکیہ، پاکیزگی اور بلندی نصیب ہوتی ہے…اور ساتھ ساتھ عمر
میں بھی برکت ہو جاتی ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ… صدقہ
خیرات… اور مال کی قربانی کے فضائل اور فوائد بہت زیادہ ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں
’’شرح صدر‘‘ نصیب فرمائیں… فی الحال انہی اکتیس فوائد پر یہ خلاصہ مکمل ہوا…
والحمدللہ رب العالمین۔
28/03/2022
مَرَض اور
علاج
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو
’’نفاق‘‘ سے بچائیں… ’’ایمان‘‘ نصیب فرمائیں… قرآن مجید میں ایک سورۃ
’’المنافقون‘‘ ہے… یہ بہت عجیب ’’سورۃ‘‘ ہے… اس کا دوسرا رکوع جو تین آیات پر
مشتمل ہے… ’’نفاق‘‘ سے حفاظت کا خزینہ ہے… ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا
تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللهِ… الى قوله تعالى… وَاللهُ خَبِيْرٌ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ [المنافقون:
٩ تا ١١]
اے ایمان والو! نہ غافل
کریں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے… اور جو کوئی ایسا
کرے گا (کہ مال اور اولاد کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑے، قربانی، عبادت
اور نیکی میں غفلت کرے) تو وہی لوگ ہیں خسارے میں پڑنے والے… اور خرچ کرو (اللہ
تعالیٰ کی راہ میں) اس میں سے جو ہم نے تمہیں دیا ہے… اس سے پہلے کہ پہنچے تم میں
سے کسی کو موت، تب وہ کہے گا… اے میرے رب! مجھے تھوڑی مدت مہلت کیوں نہ دی کہ میں
مال صدقہ کرتا اور ہوجاتا نیک لوگوں میں… اور ہرگز اللہ تعالیٰ مہلت نہ دے گا کسی
جان کو جب اس کا وقت آ پہنچے… اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے۔
معلوم ہوا کہ انسان مال
اور اولاد کی محبت کی وجہ سے ’’نفاق‘‘ میں گرنا شروع ہوتا ہے… اور پھر گرتا ہی چلا
جاتا ہے… اور اس کا علاج یہ ارشاد فرمایا کہ… مال کی قربانی سے آغاز کرو… مال
قربان کرو گے تو تمہارے لئے ایمان، کامیابی… اور مزید سعادت کے دروازے کھلیں گے۔
مگر مال میں جن کی جان
اٹکی ہو… وہ مال کیسے خرچ کریں؟ سمجھایا زیادہ سے زیادہ موت کو یاد کرو… موت کا
سچا مراقبہ تمہارے دل کے زنگ کو دور کرے گا… تمہیں یہ شعور نصیب ہوگا کہ ہم نے
ضرور مرنا ہے… اور جب مر جائیں گے تو سب کچھ یہاں رہ جائے گا… تو کیوں نہ مرنے سے
پہلے ہی مال خرچ کریں… اور اللہ تعالیٰ کی رضا پائیں… قرآن مجید کے اس مختصر رکوع
پر غور فرمائیں… اس میں ’’نفاق‘‘ جیسے موذی مرض سے ’’شفاء‘‘ کا نسخہ موجود ہے… اور
اس میں کامیابی کا عجیب راز سمجھایا گیا ہے… اگر کھول کھول کر لکھا جائے تو صرف
اسی رکوع کی تفسیر پر کم از کم تیس مکتوب آسکتے ہیں… عاجزانہ درخواست ہے کہ قرآن
مجید کھولیں… سورۃ المنافقون… پارہ اٹھائیس… اس کی تلاوت کریں اور اس رکوع پر غور
فرمائیں… کیونکہ ایمان پر خاتمہ اور نفاق سے حفاظت ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔
29/03/2022
مالک یا
نوکر؟
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہمارے
’’مال‘‘ کا ’’مالک‘‘ بنائیں… ایک ’’تابعی بزرگ‘‘ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ’’درہم‘‘
دیکھا… پوچھا یہ کس کا ہے… اس نے کہا:… میرا ہے… فرمایا: یہ تمہارا نہیں ہے…
تمہارا تو جب بنے گا جب تم اسے ’’اجر‘‘ کمانے کے لئے خرچ کر دو گے… پھر یہ شعر
پڑھا:
انت للمال اذا أَمْسَكته
واذا انفقته فالمال لك
تم
مال کے ہو (یعنی تم اپنے مال کے خادم اور نوکر ہو) جب تک تم اسے اپنے پاس روکے
رکھو… ہاں جب تم اسے خیر کے کاموں میں خرچ کر دو گے تو مال تمہارا ہوجائے گا۔
یعنی ’’انفاق‘‘ سے مال
ختم نہیں ہوتا… بلکہ انسان اس مال کا پکا مالک بن جاتا ہے… ہمیشہ کا مالک… اب یہ
مال اس کے کام آتا رہے گا… دنیا میں بھی… قبر اور آخرت میں بھی۔
حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کے گھر میں ’’دنبہ‘‘ ذبح ہوا… سارا تقسیم ہو گیا… صرف ایک ’’دستی‘‘ بچ
گئی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے… دریافت فرمایا: کیا بچا؟ بتایا گیا کہ…
صرف ایک ’’دستی‘‘ بچی ہے… فرمایا… سارا بچ گیا سوائے ایک دستی کے۔
(ترمذی)
یعنی جو صدقہ ہو گیا وہ
ہمارا ہو گیا… وہ ہمارے لئے محفوظ ہو گیا… اور جو ہم استعمال کریں گے وہ خرچ ہو
جائے گا۔
30/03/2022
مَحبَّت کس
مال سے اچھی؟
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے
مال سے ’’محبت‘‘ عطاء فرمائیں… ایسی ’’محبت‘‘ کہ ہم اس مال کو سدا بڑھاتے جائیں…
ہمارا مال کونسا ہے؟ حدیث شریف ملاحظہ کریں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے کس کو اپنے ’’وارث‘‘ کا مال…
اپنے مال سے زیادہ محبوب ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال ہی
زیادہ محبوب ہوتا ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اپنا مال تو
وہ ہے جو آگے بھیج دیا… اور وارث کا مال وہ ہے جو کوئی اپنے پیچھے چھوڑ جائے
گا۔‘‘
(صحیح بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے تاکید کے ساتھ سمجھا دیا کہ… کسی
مسلمان کا اپنا مال وہ ہے جسے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں… دین کے کاموں پر خرچ…
یا صدقہ کر دیتا ہے… جب کہ وہ مال جسے بچا بچا کر رکھا جاتا ہے… چھپا چھپا کر رکھا
جاتا ہے وہ اس کا اپنا مال نہیں… وہ اس کے ’’ورثاء‘‘ کا مال ہے… اس کے مرتے ہی وہ
لے جائیں گے… اب حکمت و عقل کا تقاضا یہ ہے کہ… انسان اپنے ذاتی مال کو خوب
بڑھائے… یعنی زیادہ سے زیادہ مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے… یوں اس کا مال
بڑھتا جائے گا… اور وہ آخرت کا مالدار اور بادشاہ بن جائے گا… مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حُسن اور زاد شفاعت
مرحبا۔
31/03/2022
ماہ اپریل
مُحکَم راز
اللہ تعالیٰ نے حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو زمین کے خزانوں کا مالک بنا دیا… وجہ یہ ہے
کہ وہ مال کی ’’حکمت‘‘ اور مال کا ’’راز‘‘سمجھ گئے تھے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے حضرت سیدہ اسماءk
سے فرمایا:
’’مال صدقہ کرتی رہو اور روک کر نہ رکھو…
ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بھی (مال کو) روک لے گا۔‘‘
(صحیح بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے:… اللہ تعالیٰ جل شانہ
ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے اولاد آدم! مال خرچ کرو… میں تم پر خرچ کروں گا۔‘‘
(صحیح بخاری)
سبحان اللہ! ایسے الفاظ
ہیں کہ دل جھوم اٹھتا ہے… ’’أَنفِق يا ابن آدم أُنفِق عَليكَ‘‘
’’اے ابن آدم ’’انفاق‘‘ کرو میں تم پر
’’انفاق‘‘ کروں گا۔‘‘
حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کے پاس جو کچھ تھا… سب لگا دیا… تب اللہ تعالیٰ نے ان کے قدموں
میں روم و فارس کے خزانے ڈال دیے… وہ پھر بھی مال جمع کرنے اور اس سے یادگاریں
تعمیر کرنے میں نہیں لگے بلکہ… اس مال کو دین کے غلبے… اور دین کی اشاعت کے لئے
لگاتے چلے گئے… ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں خاص مقام پاتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ
ان کو خلافت اور زمین کے خزانوں کی امانت عطاء فرماتا ہے… اللہ تعالیٰ آج کے
مسلمانوں کو بھی… یہ حکمت اور یہ ذوق نصیب فرما دیں۔
01/04/2022
موسم بہار
آ گیا
اللہ تعالیٰ ہمیں…
’’سخاوت‘‘ نصیب فرمائیں۔
الحمدللہ ’’حجاز‘‘ سے
’’افغانستان‘‘ تک ’’رمضان المبارک‘‘ شروع ہو چکا ہے… جبکہ ہمارے ہاں کل تین اپریل
بروز اتوار… پہلا روزہ ہوگا ان شاء اللہ… چاند رات کے معمولات پورے کریں… ’’موسم
بہار‘‘ یعنی ’’رمضان المبارک‘‘ کی خوشی محسوس کریں… اور رمضان المبارک کا شاندار
استقبال کریں… رمضان المبارک کا زیادہ فیض وہ مسلمان پاتے ہیں… جو ’’سخی‘‘ ہوتے
ہیں… اور پھر رمضان المبارک میں ان کی ’’سخاوت‘‘ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے… بےشک یہی…
حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ… اور آپ کی سنت ہے… آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ’’رمضان المبارک‘‘ میں ا طرح سے سخاوت فرماتے کہ… چلتی تیز ہواؤں
کی طرح یہ ’’سخاوت‘‘ مسلسل جاری رہتی… ہر کسی تک پہنچتی… اور دور دور تک اپنا فیض
پہنچاتی… حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں باب باندھا ہے:
’’باب ما اجود ما کان النبی صلی اللہ علیہ
وسلم یکون فی رمضان‘‘
’’کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے
زیادہ سخاوت رمضان المبارک میں فرمایا کرتے تھے۔‘‘
اللہ کرے ہم بھی… اپنے
آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلیں۔
02/04/2022
مسلمان اور
سخاوت
اللہ تعالیٰ نے ’’احادیث
مبارکہ‘‘ میں نور اور تازگی رکھی ہے… کل ہم نے ’’صحیح بخاری‘‘ کے ایک باب کا عنوان
پڑھا تھا… آج اس ’’باب‘‘ کی ’’حدیث شریف‘‘ پڑھ کر اپنے ایمان، روزے، دل اور چہرے
کو تروتازہ کرتے ہیں… یہ حدیث مبارکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’احوال‘‘ پر
مشتمل ہے۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنھمافرماتے ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے معاملہ
میں… لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت رمضان
میں اور زیادہ بڑھ جاتی جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے… اور
جبریل علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے…
یہانتک کہ رمضان مکمل ہو جاتا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کے
ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے تھے… جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم
سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی پہنچانے میں… چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی
ہو جاتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری)
رمضان المبارک کے دو اہم
ترین ’’اعمال‘‘ ہمارے سامنے آگئے… ایک مسلسل سخاوت اور دوسرا قرآن مجید کی بکثرت
تلاوت… قرآن مجید سننا اور سنانا… اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دونوں نعمتیں اس رمضان
المبارک میں… بھرپور نصیب فرمائیں… مسلمان جب تک… اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے طریقے پر تھے اور سخی تھے تو وہ ساری دنیا کو کھلاتے تھے، دیتے تھے… اور
خود خوشحال تھے… جب سخاوت چھوٹی… تو خوشحالی بھی روٹھ گئی… آج ہر جگہ محتاج ہیں…
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’سخاوت‘‘ کی ’’صفت‘‘ اور ’’نعمت‘‘ نصیب فرمائیں۔
03/04/2022
مُسلمان
اور بُخل؟
اللہ تعالیٰ ’’جواد‘‘
ہیں… الجَوَادُ جل شانہ… سب سے بڑے سخی… سخاوت کو پیدا فرمانے والے… حضرت آقا
محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے… اور آپ کی سخاوت
چلتی ہوا سے بھی بڑھ کر تھی… پھر کوئی مسلمان کس طرح سے بخیل ہو سکتا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے:
’’سخی آدمی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے،
لوگوں کے قریب ہوتا ہے، جنت کے قریب ہوتا ہے، جہنم سے دور ہوتا ہے… اور بخیل آدمی
اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے، جہنم کے
قریب ہوتا ہے… ایک ان پڑھ سخی اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادت گزار بخیل سے زیادہ
محبوب ہے۔‘‘
(سنن ترمذی)
رمضان المبارک کا ایک
تحفہ… ’’سخاوت‘‘ ہے… بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے دل نرم ہوتے ہیں… موت یاد آتی
ہے… بخل ٹوٹتا ہے، سخاوت ابھرتی ہے… اس لئے رمضان المبارک میں خوب بڑھ چڑھ کر
’’انفاق‘‘ کریں… صدقات کریں… رمضان المبارک میں خرچ کرنے کا اجر عام دنوں میں خرچ
کرنے سے بہت زیادہ ہے… اور اہم بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد… خصوصاً رات کو تہجد
کے بعد… اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگیں:
کنجوسی، لالچ اور بزدلی
سے بار بار اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں
اللهم اعوذ بك من البخل…
یا اللہ آپ کی پناہ چاہتا ہوں بخل (کنجوسی) سے
اللهم اعوذ بك من الجبن…
یا اللہ آپ کی پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے
اور
اللهم قني شح نفسي… یا
اللہ مجھے میرے نفس کے حرص اور لالچ سے بچا لیجئے
یقین کیجئے… یہ تین
دعائیں قبول ہو گئیں تو زندگی ہی بدل جائے گی… اور ہزاروں مسائل حل ہو جائیں گے ان
شاءاللہ۔
04/04/2022
ملائکہ
کرام کی دعاء
اللہ تعالیٰ ہمیں
’’ملائکہ کرام‘‘ کی صحبت اور اچھی دعائیں نصیب فرمائیں… اللہ تعالیٰ ہماری
’’شیاطین‘‘ کی صحبت اور اثرات سے حفاظت فرمائیں۔
’’ملائکہ کرام‘‘ یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ کی
مقدس اور پیاری مخلوق ہیں… ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کو مانیں… اور ان سے محبت رکھیں…
بعض لوگ لطیفوں اور مزاحیہ جملوں میں ’’فرشتوں‘‘ کے بارے میں نازیبا اور بے ادبی
والی باتیں کرتے ہیں جو کہ بہت برا عمل ہے… ہم ایمان لاتے ہیں اللہ تعالی پر…
اُسکے فرشتوں پر… اُس کی کتابوں پر… اُس کے رسولوں پر… اور آخرت کے دن پر… اور
تقدیر پر… یہ ایمان کے لازمی اجزاء ہیں… بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ جن کی برکت سے
ہمیں ’’ملائکہ کرام‘‘ کی صحبت اور دعاء مل سکتی ہے… اور ملتی ہے… ان میں سے ایک
عمل… انفاق، خیرات اور صدقہ بھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے
ایک کہتا ہے… یا اللہ انفاق (یعنی خرچ کرنے) والے کو بدلہ (یعنی مزید) عطاء فرما…
اور دوسرا کہتا ہے… یا اللہ مال روکنے والے کو بربادی (یعنی نقصان اور کمی) عطاء
فرما۔‘‘
(صحیح بخاری)
یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب
ملائکہ کی دعاء ہوتی ہے… جو قبول ہوتی ہے… چنانچہ ’’انفاق‘‘ یعنی خرچ کرنے والوں
کو اور زیادہ ملتا ہے… اور روک روک کر رکھنے والوں کو نقصان، کمی اور محتاجی کا
سامنا ہوتا ہے… مال کا تعلق گنتی سے نہیں کہ کس کے پاس کتنا ہے؟… مال کا تعلق راحت،
فائدے، برکت، سکون سے ہے کہ… کس کا مال اسے کتنی راحت اور فائدہ پہنچاتا ہے… اس
تناظر میں فرشتوں کی دعاء کو دیکھیں تو کوئی اشکال نہیں ہوگا… کئی لوگوں کے پاس
بہت مال ہوتا ہے… مگر وہ انہیں صرف بربادی، تکلیف اور مشقت ہی پہنچاتا ہے۔
05/04/2022
مُردہ سے
زندہ
اللّٰہ تعالیٰ ’’مُردہ‘‘
سے ’’زندہ‘‘ کو… اور ’’زندہ‘‘ سے ’’مردہ‘‘ کو نکالتے ہیں… مال بھی ایک ’’مُردہ‘‘
چیز ہے… سونا، چاندی، روپیہ، پیسہ، زمین… سب بے جان… لیکن اسی ’’مُردہ‘‘ مال سے
’’زندہ نعمتیں‘‘ خریدی جا سکتی ہیں… مال ’’فانی‘‘ ہے… مگر اسی فانی مال سے ہمیشہ
کی نعمتیں خریدی جا سکتی ہیں… حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جو کوئی اپنے حلال مال میں سے ایک کھجور کے
برابر صدقہ کرے… اور اللہ تعالیٰ صرف پاک و پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں… تو
اللہ تعالیٰ اس (کھجور برابر صدقے) کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہیں… اور
پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لئے یوں بڑھاتے جاتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے
بچھڑے کو پالتا ہے (بڑھاتا) ہے یہانتک کہ وہ (کھجور برابر صدقہ) پہاڑ جیسا ہو جاتا
ہے۔‘‘
(صحیح بخاری)
مُردہ اور فانی مال… اللہ
تعالیٰ کے راستے میں لگایا، خرچ کیا… صدقہ کیا تو اب وہ زندہ ہو گیا… ہمیشہ کے لئے
ہوگیا… بڑھنے والاہو گیا… کام آنے والاہو گیا… اور دنیا میں بھی خرچ کرنے والے کو
کوئی کمی نہیں آتی… سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم۔
06/04/2022
مال کا
اعزاز
اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں
’’زندگی‘‘ دی… آج ہم ’’زندہ‘‘ ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں ’’موت‘‘ دیں گے… پھر ہم
’’مر‘‘ جائیں گے… ایسا ضرور ہوگا… کوئی شک نہیں… جب ہم مر جائیں گے… ہمارا سارا
مال، سامان یہاں رہ جائے گا… یہ بھی پکی بات ہے… اور ہمارے ساتھ آخرت میں وہ جائے
گا جو دنیا میں… ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے خرچ کیا ہوگا… جہاد میں، صدقات
میں… دین کے کاموں میں… خیر کے کاموں میں… یہ مال ہمارے ساتھ آگے جائے گا… اگر
تین شرطیں پوری ہوئیں:
۱ پہلی
شرط ایمان ہے… بغیر ایمان کے… کوئی خرچہ، کوئی صدقہ آخرت میں کام نہیں آئے گا…
کافر جو مال اچھے کاموں میں لگاتے ہیں… انہیں اس کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا
ہے۔
۲ دوسری
شرط حلال مال… اللہ تعالیٰ صرف پاک اور پاکیزہ مال قبول فرماتے ہیں… حرام مال…
ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو بڑا گناہ ہے… البتہ حرام مال سر سے بوجھ اور گندگی
اتارنے کی نیت سے جلد از جلد غریبوں پر خرچ کر دینا چاہیے… اور اپنے پاس بالکل
نہیں رکھنا چاہیے۔
۳ تیسری
شرط یہ کہ خرچ کرتے ہوئے نیت… اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی ہو۔
جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے
وعدوں کو سچا مانتے ہیں وہ ان تین شرطوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ… عمدہ سے عمدہ…
اور اعلی سے اعلی مال… اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ بناتے ہیں… اور جن کا یقین پکا
نہیں وہ بس بچا کھچا، خراب، ردی اور بے کار مال خرچ کرتے ہیں… اور اچھا مال اس
دنیا میں چھوڑ کر… خالی ہاتھ مر کھپ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا
بہترین مال ’’دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی نصرت پر خرچ کرنے کا اعزاز نصیب
فرمائیں… مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن زاد شفاعت مرحبا۔
07/04/2022
میرا مال،
میرا مال
اللّٰہ تعالیٰ کے آخری
نبی… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال… حالانکہ
اس کا مال تو صرف تین چیزیں ہیں
۱ جو
اس نے کھا لیا اور فنا کردیا ۲ جو
اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کردیا
۳ جو
اس نے دے دیا اور ذخیرہ کرلیا (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے دے کر اپنے لئے
جمع کر لیا، بچا لیا، زخیرہ کرلیا) اور جو ان تین کے علاوہ ہے وہ اس کے ہاتھ سے
نکل جائے گا اور وہ اسے لوگوں کے لئے چھوڑ جائے گا۔‘‘
(صحیح مسلم)
سبحان اللہ! حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے پُرنور… پُرحکمت الفاظ پر غور کریں… ہر طرف میرا مال،
میرا مال کا شور اور جھگڑا چلتا رہتا ہے… حالانکہ حقیقت میں یہ مال اپنا نہیں
ہوتا… اپنا تب بنتا ہے جب اچھی نیت اور خوشدلی کے ساتھ دے دیا جائے… ماہرین معیشت
کہیں گے کہ… اگر یہ سوچ بن گئی تو قوم ترقی کس طرح کرے گی؟… جواب یہ ہے کہ اسی سوچ کی برکت تھی کہ…
مسلمانوں نے وہ ترقی کی کہ… پورے پورے شہر میں ایک آدمی بھی زکوٰۃ لینے والانہیں
ہوتا تھا… لوگ صدقہ اور زکوٰۃ اٹھا کر مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے… لوگوں کو
دراصل اللّٰہ تعالیٰ پر یقین نہیں رہا… اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ جمع کرا دیا
جاتا ہے وہ نہ کم ہوتا ہے، نہ ضائع ہوتا ہے… بلکہ دنیا ہی میں اس کے منافع کی
قسطیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں… جبکہ اصل منافع آخرت میں ملیں گے ان شاءاللہ۔
08/04/2022
مالک! فضل
فرمائیے
اللّٰہ تعالیٰ ہمارا سینہ
’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے لئے کھول دیں… کتنے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جن کے مال
کو… اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں قبول فرمایا… ان کے مال سے بڑے بڑے علاقے فتح
ہوئے… اور اسلامی سر زمین کا حصہ بنے… ان کے مال سے قیدی آزاد ہوئے… اسلامی
حکومتیں قائم ہوئیں… مسلمانوں نے بڑے بڑے معرکے لڑے… اور پھر قومیں کی قومیں اسلام
میں داخل ہوئیں… جو مال اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں لگ جائے وہ اسقدر قیمتی اور
عالی شان ہو جاتا ہے کہ… خود اللّٰہ تعالیٰ اس مال کے خریدار بن جاتے ہیں… اور اس
کے بدلے اپنی رضاء اور جنت عطاء فرماتے ہیں… اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کیا سونا اور
کیا مٹی؟… سونا بھی اللّٰہ تعالیٰ نے بنایا اور مٹی بھی اللّٰہ تعالیٰ نے بنائی…
مقصد یہ کہ… کوئی بھی مال اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال نہیں، قیمتی نہیں… لیکن جو مال
جہاد فی سبیل اللہ میں لگ جائے وہ مال… اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اتنا قیمتی بن
جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے خریدتے ہیں… آج دنیا میں جہاں جہاں اسلام نظر آرہا
ہے… مسلمان نظر آ رہے ہیں… ان سب کے پیچھے مجاہدین کا خون اور جہاد میں خرچ ہونے
والامال بھی ہے… اسی لئے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کی ترغیب دی گئی… اس کا حکم
دیا گیا… اور اس میں غفلت کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی گئی… اسلام کی ان عظیم
فتوحات میں جان خرچ کرنے والے… اور مال خرچ کرنے والے… آج تک مسلسل اجر پارہے
ہیں… ان کو اسلامی سرزمینوں پر ہونے والی ہر نیکی پر اجر ملتا ہے… ہر نماز، اذان
اور تسبیح تک کا اجر ملتا ہے… بے شک انہوں نے بہت کچھ پا لیا… مگر سوچیں کہ بخیلوں
نے کیا پایا؟… بےچارے زندگی بھر مال کو سنبھالنے کے دکھ سہتے رہے اور پھر سارا مال
چھوڑ کر مر گئے… یا اللہ! اے ہمارے مالک! ہمارے ساتھ فضل کا معاملہ فرمائیے،ہمیں
اور تمام مسلمانوں کو ’’بخل‘‘ اور ’’جبن‘‘ سے بچا لیجئے۔
09/04/2022
مَالِكُ
المُلْك جَلَّ شَانُهٗ کا پیغام
اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان
مبارک ہے:
{قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا
يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً
مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلَالٌ}
’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) میرے ان
بندوں کو جو یقین رکھتے ہیں… فرما دیجئے! کہ وہ قائم رکھیں نماز اور ہمارے دیئے
ہوئے میں سے خرچ کریں… چپکے سے اور ظاہر طور پر… اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس
میں نہ کوئی تجارت ہوگی نہ دوستی۔‘‘
[سورۂ ابراہیم: ٣١]
اللہ تعالی ٰکا پیغام
اپنے ایمان والے بندوں کے نام… یقین والے بندوں کے نام کہ… اگر کامیابی چاہتے ہو
تو دو کام ہمیشہ کرتے رہو۔
۱ نماز
کی مکمل پابندی
۲ اللہ
تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا
یہ دو عمل تمہاری زندگی کو
نور، سرور، عافیت اور خیر سے بھر دیں گے اور تمہاری آخرت کو محفوظ بنا دیں گے…
مگر جہاں تم نے ان دو اعمال میں غفلت کی تو پھر کامیابی اور خیر سے دور گرنا شروع
ہو جاؤ گے۔
عجیب نکتہ یہ ہے کہ جو ان
دو اعمال میں مضبوط ہوجائے… پکا ہو جائے… اس کے لئے باقی اعمال بھی آسان ہو جاتے
ہیں… اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرنا کبھی فرض، کبھی سنت اور مستحب ہوتا ہے… یہ خرچ
کرنا کبھی چھپا کر افضل… اور کبھی کھلم کھلا افضل ہوتا ہے… یہ خرچ کرنا رات کو بھی
ہو… دن میں بھی… بس کوئی دن خالی نہ جائے… کون سا خود بنا کر دینا ہوتا ہے… اللہ تعالیٰ
کے دیئے ہوئے میں سے تو دینا ہوتا ہے… کاش یہ بات سمجھ میں آجائے… اور دل کے بند
دروازے کھل جائیں۔
10/04/2022
مال کا
کمال
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ’’اوپر والاہاتھ‘‘
نصیب فرمائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
گرامی ہے:
’’اے ابن آدم! اگر تم ’’زائد‘‘ خرچ کر دو گے
تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے… اور اگر اسے روکے رکھو گے تو تمہارے لئے بُرا ہے… اور
پورے پورے پر کوئی ملامت نہیں… اور شروع کرو اپنے اہل و عیال سے… اور اوپر
والاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘
(صحیح مسلم)
حدیث مبارکہ کے ہر جملے میں… عجیب
معرفت والے راز بیان فرمائے ہیں… اپنی ضرورت سے زائد مال… خرچ کرو، صدقہ کرو تو اس
میں تمہیں ’’خیر‘‘ ملے گی… یقیناً وہ خیر کوئی بہت بڑی نعمت ہو گی… اور اگر ضرورت
سے زائد کو اپنے پاس روکے رکھو گے تو یہ تمہارے لئے شر ہے… زکوٰۃ وغیرہ اداء کرنے
کے بعد ضرورت سے زائد اپنے پاس رکھنا جائز ہے… مگر اس میں بھی کوئی نہ کوئی شر اور
تکلیف ضرور آ جاتی ہے… (اور اس سے بچنے کا طریقہ ایک اور حدیث شریف میں بیان
فرمایا گیا ہے)۔
اور اگر مال پورا پورا ہو… یعنی اپنی
ضرورت کا پورا ہو تو اسے انفاق اور صدقہ نہ کرنے پر کوئی ملامت نہیں… اور جب خرچ
کرنا شروع کرو تو آغاز اپنے اہل وعیال سے کرو… اور ہمیشہ یہ سوچ بنا لو کہ دینے
والاہاتھ… لینے والے ہاتھ سے اچھا ہوتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں جو نظریات سمجھائے
گئے ہیں… یہ نظریات ساری دنیا میں امن اور خوشحالی لانے کے اصول ہیں… جب یہ نظریات
نصیب ہو جائیں گے تو کون چوری کرے گا؟… کون ڈاکے کا سوچے گا؟… کون خیانت، رشوت اور
بدعنوانی کی طرف جائے گا؟… قناعت، سخاوت… ایثار، دوسروں کی فکر اور کھلا دل… کھلا
ہاتھ… گناہوں، عیاشیوں میں اڑانے کی بجائے… اپنے اہل و عیال سے آغاز اور پھر ہر
طرف… خیر ہی خیر… قریب بھی دور بھی… اللہ تعالیٰ دیتا جائے… بندہ خرچ کرتا جائے…
اوپر اوپر چڑھتا جائے… آگے آگے بڑھتا جائے… نہ اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی کمی… اور
نہ اس کے اجر کے خزانے محدود… بس فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اوپر
والاہاتھ… یعنی دینے والاہاتھ اپنی رضاء کے لئے نصیب فرما دیں… پھر دیکھیں ’’مال‘‘
کا ’’کمال‘‘… دنیا و آخرت میں خیر کے پہاڑ۔
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
11/04/2022