<مکتوب خادم>

میراث1

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں "قناعت" نصیب فرمائیں..دوسروں کا مال ناحق کھانے اور قبضہ کرنے سے ہماری حفاظت فرمائیں..

ہمارے شاندار مذہب..یعنی دین اسلام نے ہمیں.."قانون میراث" عطاء فرمایا ہے..ایک شاندار، ایماندار قانون..

ہر آدمی نے ضرور مرنا ہے..اور جو بھی مرتا ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور چھوڑ جاتا ہے..اب مرے ہوئے آدمی کے چھوڑے ہوئے مال اور سامان کا کیا ہوگا؟ ماضی میں کتنے لوگ مرے ہوئے آدمی کے مال پر آپسمیں لڑتے ہوئے مارے جاتے تھے..اور پھر ان کے چھوڑے ہوئے مال پر اور لوگ لڑنے لگ جاتے تھے..

بعض قوموں نے اس لڑائی کو روکنے کے لیے کچھ قوانین بنا لیے،مگر یہ قوانین چونکہ "وحی" کی روشنی سے محروم تھے..اسلئے "ظالمانہ" تھے..مثلاً یہودیوں نے قانون بنایا کہ میراث کا مالک صرف بڑا بیٹا ہوگا..قریش نے قانون بنایا کہ میراث کے مالک صرف وہ جوان اور طاقتور رشتہ دار ہوں گے جو لڑ سکتے ہوں اور دفاع کر سکتے ہوں..ہندوؤں نے قانون بنایا کہ میراث کے مالک صرف مرد رشتہ دار ہوں گے عورتیں بالکل نہیں..ان غلط اور ظالمانہ قوانین نے معاشروں کو "انصاف" سے محروم کردیا..دین اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے..اللہ تعالیٰ کا احسان دیکھیں کہ..اللہ تعالیٰ نے خود "ورثاء" کے حصے مقرر فرمادئیے..

پیدا کرنے والے رب سے بہتر کون جانتا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انصاف کون کر سکتا ہے؟..

ایک مومن کو چاہیے کہ وہ دیگر احکامات کی طرح "میراث" کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانے..تب وہ ایسی رحمتیں، نعمتیں اور برکتیں دیکھے گا کہ جو اس سے پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گی..

بہت پہلے عرض کیا تھا کہ "علم میراث" کا خلاصہ مکتوب کے ذریعے بیان کیا جائے گا..بس وہی سلسلہ آج سے شروع کرنے کا ارادہ ہے ان شاء اللہ..

یا اللہ آسان فرما..قبول فرما..

مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن شاندار..ایماندار

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

 

 

<مکتوب خادم>

میراث2

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں”قانون میراث“ نازل فرمایا..اہل علم فرماتے ہیں کہ..

”قرآن مجید میں جتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ”قانون میراث“ کو بیان کیا گیا ہے..نماز روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں کئے گئے ہیں“..

یعنی میراث کی ”جزئیات“ تک خود قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں..ویسے تو نماز روزہ کی آیات..میراث کی آیات سے بہت زیادہ ہیں..قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے خود وارثوں کے حصے بیان فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ..اس تقسیم کی حکمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، تم لوگ پوری طرح نہیں سمجھ سکتے..اور فرمایا کہ جو لوگ ہمارے ان احکامات کی تعمیل کریں گے ہم ان کو جنت میں جگہ دیں گے..اور جو لوگ ہماری بات کو نہیں مانیں گے وہ جہنم کے مستحق ہوں گے..

آجکل دنیا میں جو ”حکومت“ کا قانون توڑتا ہے وہ مجرم کہلاتا ہے..جبکہ میراث کے احکامات تو اللہ جل شانہ کا ”قانون“ ہیں..اس قانون کی اہمیت کا اندازہ ہر مؤمن، مسلمان خود لگا سکتا ہے..اس لئے ”علم میراث“ بہت اہم اور عالی شان علم ہے..اور ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسے سیکھیں، دوسروں کو سکھائیں..اور اس پر پورا پورا عمل کریں..

عجیب بات یہ ہے کہ”علم میراث“ بہت آسان علم ہے..تھوڑا بہت حساب جاننے والا کوئی بھی مسلمان..صرف ایک ہفتے میں یہ پورا علم سیکھ سکتا ہے..خصوصاً جب وہ کسی ماہر استاذ کی نگرانی میں ہو..مگر اس کے باوجود اکثر مسلمان اس علم سے محروم ہیں..

در اصل یہ بہت قسمت والا علم ہے، شان والا علم ہے..اور قیامت کے قرب میں یہ علم اٹھا لیا جائے گا..اسی لئے بہت کم اور خوش نصیب افراد یہ علم حاصل کرتے ہیں..جبکہ حضرات صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ..حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر کو لکھا کہ تمہیں جب بھی کھیل کود کی خواہش ہو تو صرف تیر اندازی کیا کرو..اور جب بات چیت اور گپ شپ کی خواہش ہو تو صرف ”علم میراث“ کی باتیں کیا کرو..

میراث میں غلطی کی وجہ سے حرام مال پھیلتا ہے..اور شیطان یہی چاہتا ہے کہ حرام مال پھیل جائے تاکہ مسلمان ترقی نہ کر سکیں اور ان کے اعمال بھی قبول نہ ہوں..اس لئے وہ پورا زور لگاتا ہے کہ ”علم میراث“ کو نہ کوئی سیکھے اور نہ کوئی اس پر عمل کرے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث3

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہمیں”علم میراث“ کی نعمت نصیب فرمائیں..

1.حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:-

تم ”علم میراث“ سیکھو اور لوگوں کو  سکھاؤ کہ یہ نصف علم ہے،یہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے اٹھا لیا جائے گا“ (ابن ماجہ)..

2.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:-

تم علم سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ..تم ”علم میراث“ سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ تم قرآن سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں..اور عنقریب علم گھٹا دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے..یہانتک کہ دو آدمی میراث کے حصہ میں اختلاف کریں گے اور کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو ان کے درمیان فیصلہ کرسکے (الدارمی)..

3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:-

”وہ عالم جو علم میراث نہ جانتا ہو“ وہ ایسی ٹوپی کی طرح ہے جس کے لئے کوئی سر نہ ہو (جامع الاصول)..یعنی اس کا علم بے رونق،بے برکت اور بے شان ہوگا..

4. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-

جس شخص نے کسی ایسی میراث کو روکے رکھا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے حصے کو روک دیں گے (بیہقی)

اس موضوع پر احادیث مبارکہ اور بھی ہیں..دراصل ”علم میراث“ ہمارے دین کا اہم حصہ ہے اور اس علم کا کمزور ہونا ”علامات قیامت“ میں سے ہے..اس لئے پکا ارادہ کریں کہ ان شاءاللہ یہ علم سیکھیں گے..مسلمانوں کو سکھائیں گے..اور خود بھی اس پر عمل کریں گے..کل سے ان شاءاللہ مکتوب میں میراث کا باقاعدہ سبق شروع ہو جائے گا..آسان اور مختصر ان شاءاللہ تعالیٰ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث4

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ”شرح صدر“ نصیب فرمائیں..

”علم میراث “ کے پہلے سبق میں دو باتیں ہیں..ان کو یاد کر لیں..

1. ”میراث“ اس مال کو کہتے ہیں جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے..معلوم ہوا کہ ”میراث“ کے لئے ”موت“ ضروری ہے..جب تک موت نہ آئے ” میراث “نہیں بنتی..چنانچہ ”زندہ شخص“ کا مال خود اسکی اپنی ملکیت ہوتا ہے..اسکی مرضی کہ تقسیم کردے یا تقسیم نہ کرے..اسکی مرضی کسی کو دے یا نہ دے..اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اسمیں ”میراث“ کے شرعی حصوں کا اہتمام کرنا ضروری نہیں ہے..بہتر تو یہی ہے کہ وہ..اگر اپنی اولاد میں مال تقسیم کررہا ہے تو انصاف اور برابری کرے..لیکن اگر وہ دینداری یا کسی اور معقول وجہ سے..بعض اولاد کو کم اور بعض کو زیادہ دے تو اسے اسکی اجازت ہے..جب تک”مرض الوفات “ شروع نہ ہو..ہر شخص کو اپنے سارے مال پر پورا اختیار ہوتا ہے..اور اس کے مال پر”میراث“ کا کوئی حکم یا قانون جاری نہیں ہوتا..اور نہ اسکی اولاد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس سے اپنا حصہ مانگیں..ہاں! اس مال پر دیگر شرعی حقوق مثلاً زکوٰۃ..اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ ہوتے ہیں..

2. ”میراث“ کا معاملہ اختیاری نہیں ہے..بلکہ لازمی ہے..جیسے ہی کوئی مرتا ہے اس کا مال خود بخود اسکی ملکیت سے نکل کر..اس کے شرعی وارثوں کا ہو جاتا ہے..مرنے والا کسی کو حصہ دینا چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو..اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..

مثلاً کوئی چاہتا ہے کہ..میرے مرنے کے بعد میرے فلاں بیٹے یا بیٹی کو یا میری بیوی کو میری میراث میں سے کوئی حصہ نہ ملے تو..اس کے چاہنے کا اعتبار نہیں ہو گا..حصہ اس کے شرعی وارث کا خود بخود ہو جائے گا..اگر وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو ”عاق“  کردے تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوگا..

اسیطرح ہر شرعی وارث کو..میراث میں سے اس کا حصہ خود بخود مل جاتا ہے..کوئی وارث لینا چاہے..یا نہ لینا چاہے..اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..ہاں اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنا حصہ وصول کرکے پھر کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے..خلاصہ یہ کہ..میراث کے احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود نافذ ہو جاتے ہیں..اسمیں بندوں کا کوئی اختیار نہیں ہے..کسی کے مرتے ہی اس کا سارا مال اس کے شرعی وارثوں کا ہو جاتا ہے..اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق..

ہاں کوئی شخص اپنی زندگی میں صرف اپنے تہائی مال یعنی مال کے تیسرے حصے کے بارے میں وصیت کر سکتا ہے..اس کا بیان اگلے سبق میں ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث5

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ”نور“ نصیب فرمائیں:-

ہم نے دو باتیں یاد کرلیں..

1.میراث کے سارے احکامات کسی کے مرنے کے بعد شروع ہوتے ہیں..زندگی میں ہر شخص کا مال صرف خود اسی کی ملکیت ہوتا ہے..

2.میراث کے حصے اللہ تعالی نے فرض اور مقرر فرما دیئے ہیں..کوئی دینا چاہے یا نہ دینا چاہے، کوئی لینا چاہے یا نہ لینا چاہے..کوئی نیک ہو یا بد..کوئی فرمانبردار ہو یا نا فرمان..اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..کسی کے مرتے ہی اس کے شرعی وارث اپنے اپنے حصہ کے مطابق اس کے مال کے مالک بن جاتے ہیں..ان دو باتوں کے بعد آج بات کریں گے ”وصیت“ کی..

زندگی میں ہر شخص اپنے مال کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہے کر سکتا ہے..حتی کہ اگر وہ اپنا سارا مال نیکی کے راستے میں لگانا چاہے تو اسے اختیار ہے..لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے اہل و اولاد کے لئے بھی انکی ضرورت کے بقدر چھوڑ دے..اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنا مال اپنی اولاد یا رشتہ داروں میں تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے..مگر تقسیم کرنے یا دینے کا مطلب ہے کہ وہ جس کو دے رہا ہے اس کو مکمل مالک بنا کر دے دے..یہ نہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کو دیا جائے..یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال فلاں کو دے دیا جائے..یہ ”وصیت“ کہلاتا ہے..اور وصیت میں دو باتیں ضروری ہیں..

1.وصیت صرف اپنے مال کی تہائی یعنی تیسرے حصے کی کرے..مثلاً ایک شخص  کے سارے مال کی قیمت تیس ہزار ہے تو وہ صرف دس ہزار کی وصیت کر سکتا ہے..اگر وہ اپنے سارے مال کے بارے میں ”وصیت“ کرگیا تو اس کے مرنے کے بعد اسکی وصیت مال کے صرف تیسرے حصے پر جاری ہوگی..باقی پر نہیں..

2.کوئی شخص کسی ایسے شخص کے لئے ”وصیت“ نہیں کر سکتا..جو شخص اس کا شرعی وارث ہو..مثلاً یہ وصیت کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیٹے کو میری گاڑی دے دی جائے..یا میری بیوی کو میرا مکان دے دیا جائے..یہ وصیت درست نہیں کیونکہ بیٹا اور بیوی اس کے مال کے شرعی وارث ہیں..چنانچہ ان کے لئے کی گئی ”وصیت“ کا اعتبار نہیں ہوگا..اور وہ گاڑی اور مکان سب ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوں گے..

خلاصہ یہ کہ..اگر کوئی شخص اپنے مال کے بارے میں ”وصیت“ کرنا چاہتا ہو تو وصیت صرف تہائی مال میں کرے اور ان افراد کے لئے کرے جن کو اسکی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا..چنانچہ وہ آدمی جس کی اولاد، بیٹے اور بیٹیاں موجود ہوں..چونکہ اس کے بھائی کو اسکی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا تو وہ اپنے بھائی کے لئے وصیت کر سکتا ہے..اسی طرح کسی نیک کام کی وصیت بھی تہائی مال میں کر سکتا ہے کہ..میرے مرنے کے بعد میرا تہائی مال جہاد میں دے دیا جائے یا مسجد بنائی جائے..یا میرا حج بدل ادا کرایا جائے..یا میری نمازوں، روزوں کا فدیہ دیا جائے وغیرہ..ایسی وصیت جائز اور نافذ ہوگی..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث6

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ”علم نافع “ عطاء فرمائیں..جب کوئی مسلمان وفات پا جائے تو پیچھے رہ جانے والے لوگ..اس کے مال اور چھوڑی ہوئی چیزوں کو بالکل استعمال نہ کریں..اور نہ فوراً ”ورثاء“ میں تقسیم کریں..سب سے پہلے اس مال سے تین کام کئے جائیں گے..ان تین کاموں کو کرنے کے بعد اگر ”مال“ بچ گیا تو ”ورثاء“ میں تقسیم ہو گا..اور اگر سارا مال ان کاموں میں ہی خرچ ہو گیا تو پھر”ورثاء“ کو کچھ نہیں ملے گا..میت کے چھوڑے ہوئے مال میں سے سب سے پہلے اسکی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جائے گا..یعنی کفن، دفن، غسل وغیرہ کے اخراجات..یہ ہوا پہلا کام..اگر میت کا سارا مال اس کے کفن دفن میں خرچ ہو گیا تو بس معاملہ ختم..لیکن اگر کفن دفن کے بعد بھی مال بچ گیا تو اب اس سے ”میت“ کے قرضے ادا کئے جائیں گے..قرضے ادا کرنے کے بعد اگر مال بچ جائے تو اب دیکھا جائے گا کہ”میت“ نے کچھ ”وصیت“ بھی کی ہے یا نہیں..

اگر اس نے کوئی”وصیت“ کی ہو تو مال کے تہائی حصہ سے یہ وصیت پوری کی جائے گی..وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال بچے گا وہ میت کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہو گا..خلاصہ یہ ہوا کہ..میت کے چھوڑے ہوئے مال سے ترتیب کے ساتھ یہ کام کرنے ہیں..

(1) تجہیز و تکفین..

(2) قرض کی ادائیگی..

(3) وصیت کی تکمیل..

(4) ورثاء میں تقسیم..

اب ہم ان چار کاموں کی مختصر تشریح کریں گے..

(تجہیز و تکفین)

شریعت کے مطابق کفن..نہ بہت قیمتی ہو نہ بہت ادنیٰ..قبر سادہ اور کچی..پھر غسل دینے اور قبر کھودنے والوں کی اجرت معروف کے مطابق..اگر مفت قبر نہ ملے تو قبر خریدنے کی قیمت..بس یہ ہیں تجہیز وتکفین کےاخراجات..

ان اخراجات میں اسراف کی اجازت نہیں..نہ رسومات میں خرچ کی اجازت ہے..نہ امام صاحب کو مصلیٰ دینے کی اور نہ کچھ صدقہ خیرات کرنے کی..

عورت کا اگر خاوند موجود ہو تو عورت کا کفن دفن اس کے ذمہ واجب ہے..عورت کے مال میں سے نہ لیا جائے..لیکن اگر خاوند نہیں ہے تو مرنے والی کے ”ترکہ“ یعنی چھوڑے ہوئے مال میں سے اس کے کفن، دفن کا انتظام کیا جائے گا..اگر کوئی شخص وفات پا گیا اور اس نے اتنا مال نہیں چھوڑا کہ اس کے کفن، دفن کا انتظام ہو سکے تو اس کے ”ورثاء“ سے ”چندہ“ کیا جائے گا..جس ”وارث“ کو اسکی میراث میں سے زیادہ حصہ ملنا تھا اس سے زیادہ چندہ..اور جس کو کم ملنا تھا اس سے کم چندہ لیا جائے گا..اور اگر اسکے ”ورثاء“ موجود نہ ہوں..یا وہ چندہ دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو پھر..اس کے کفن، دفن کا انتظام ”اسلامی حکومت“ کے ذمہ ہو گا..اور اگر ”اسلامی حکومت“ بھی موجود نہ ہو تو..کفن، دفن کا انتظام اس کے ”اہل محلہ“ یا ”اہل شہر“ میں سے ان مسلمانوں پر واجب ہو گا جو اس ”میت“ کے حال سے واقف ہوں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث7

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہم سب کو”قرضہ“ سے حفاظت اور خلاصی عطاء فرمائیں..

”کفن دفن“ کے بعد اگر ”میت“ کا کچھ مال بچ جائے تو..اس سے ”میت“ کے ” قرضے“ادا کئے جائیں گے..

(1)اگر ”میت“ کے ذمہ کوئی ”قرضہ“نہ ہو تو..بہت اچھا..پھر تیسرے کام یعنی”وصیت“ کی طرف متوجہ ہوں گے..

(2) اگر ”میت“ کے ذمہ”قرضہ“ ہو..اور اس کا چھوڑا ہوا سارا مال اس قرض کی ادائیگی میں لگ رہا ہو تو..فوراً لگا دیا جائے.. قرض اتار دیا جائے تاکہ..اس کی روح آزاد ہو جائے..آخرت آسان ہو جائے..

(3)اگر ”قرض“ زیادہ ہو..اور چھوڑا ہوا مال کم ہو تو دیکھا جائے گا کہ..قرض صرف ایک آدمی کا ہے یا زیادہ کا..اگر ایک آدمی کا ہو تو سارا مال اسے دے دیا جائے..اور اگر کئی افراد کا ہو تو ان کے قرضے کے تناسب سے انمیں مال تقسیم کردیا جائے..

(4)قرض زیادہ تھا اور مال تھوڑا..چنانچہ کسی کا قرضہ پورا ادا نہ ہوا..اب قرض خواہوں کی مرضی کہ وہ باقی قرضہ معاف کر دیں..اور اجر کے مستحق بنیں..یا معاف نہ کریں اور اپنا معاملہ قیامت پر چھوڑ دیں..جہاں اللہ تعالی نیکیوں اور گناہوں کے ادلے بدلے سے ان کا قرض اس مقروض آدمی سے دلوائیں گے ان شاء اللہ..

(5) قرض خواہوں کا قرضہ..صرف میت کے مال سے ہی ادا ہوگا..ورثاء کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ اپنے مال سے اسکا قرضہ ادا کریں..اور نہ قرض خواہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ”ورثاء “ سے مانگے..ہاں اگر ”ورثاء“ احسان کرتے ہوئے اپنے مال سے اس کا قرضہ ادا کردیں تو یہ بڑے اجر اور صلہ رحمی والا عمل ہے..

(6)میت کے مال میں سے سب سے پہلے اس کے وہ قرضے ادا کئے جائیں گے..جو اس نے”مرض الوفات “سے پہلے کسی سے لئے..یا جن کا اس نے اقرار کیا..یا جو اس کے ذمے شرعاً لازم ہوئے..بیوی کا مہر بھی اسی قسم کا ”قرض“ ہے..اگر زندگی میں ادا نہ کیا تو مرنے کے بعد اس کے مال میں سے ادا کیا جائے گا..

(7) اگر یہ واضح قرضے ادا کرنے کے بعد بھی مال بچ رہا ہو تو پھر وہ قرضے ادا کئے جائیں گے جن کا میت نے اپنے” مرض الوفات “ میں اقرار کیا..مثلاً کسی کا مال دھوکے وغیرہ سے لے لیا تھا یا چھپا لیا تھا جب مرنے لگا تو اقرار کرلیا..کہ میں نے فلاں کا اتنا حق دینا ہے.. واضح قرضے ادا کرنے کے بعد ایسے قرضے ادا کئے جائیں گے..

(8)میت کے ذمہ اللہ تعالی کے جو قرضے ہیں..مثلاً فرض زکٰوۃ نہیں دی،فرض حج ادا نہیں کیا..روزے چھوڑے، انکا فدیہ ادا نہیں کیا وغیرہ..ایسے قرضے میت کے تہائی مال میں سے تب ادا کئے جائیں گے..جب وہ انکی وصیت کرے..اگر اس نے وصیت نہیں کی تو ورثاء کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ..میت کے مال میں سے یہ قرضے ادا کریں..

(9)میت نے بالکل کچھ مال نہیں چھوڑا..یا جتنا چھوڑا تھا وہ سارا کفن دفن میں لگ گیا..اور اس کے ذمے لوگوں کے قرضے بھی ہیں تو اب حکم یہ ہے کہ..قرض لینے والوں کی مرضی کہ وہ اسے اپنے قرضے معاف کردیں..اور بڑا اجر کمائیں..یا اپنا معاملہ قیامت کے فیصلے پر چھوڑ دیں..

(10)قرض کا معاملہ سخت ہے..ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے قرض کی تفصیلات ہمیشہ لکھ کر ایسی جگہ رکھا کرے جہاں یہ تحریر محفوظ رہے..اور اس کے مرنے کے بعد ورثاء کے علم میں آ جائے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث8

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کی توفیق سے آج ”وصیت“ پر بات ہوگی ان شاءاللہ..

کفن، دفن اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر مال بچ جائے تو اس.. بچے ہوئے مال کے تیسرے حصے سے”میت“ کی”وصیت“ پوری کی جائے گی..

(1) ”وصیت“ کا اختیار اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندے پر بڑا انعام اور احسان ہے کہ..وہ مرنے کے بعد بھی اپنے مال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے..نیکیاں کرسکتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کی تلافی کر سکتا ہے..

(2) جس آدمی پر کوئی قرضہ نہ ہو اور نہ ہی اس کے کوئی شرعی وارث ہوں تو ایسا آدمی اپنے سارے مال کی وصیت بھی کر سکتا ہے کہ..فلاں کام میں لگا دیا جائے..یا فلاں کو دے دیا جائے وغیرہ..

(3) جس آدمی کے ”ورثاء“ موجود ہوں..وہ اپنے سارے مال کی ”وصیت“ نہیں کر سکتا.. صرف ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے..اگر وہ اپنے سارے مال کی وصیت کرے گا تو اس کے مرنے کے بعد وصیت صرف تہائی مال میں ہی جاری ہو گی..ہاں اگر اس کے ”ورثاء“ اجازت دے دیں تو باقی مال میں بھی وصیت جاری ہو گی مگر شرط یہ ہے کہ سارے ”ورثاء“ عاقل بالغ اور موجود ہوں..نابالغ وارث کی اجازت معتبر نہیں ہے..اور غیر موجود وارث کا پتا نہیں کہ اجازت دے گا یا نہیں..

(4) کوئی شخص ان افراد کے لئے وصیت نہیں کر سکتا جن کو اسکی ”میراث“ میں سے حصہ ملنا ہے..حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”وارث“ کے لئے ”وصیت“ نہیں ہو سکتی..اس کا حصہ تو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے.. چنانچہ کوئی شخص اگر اپنے وارث کے لئے وصیت کرے گا تو اس وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا..ہاں اگر باقی ورثاء جو عاقل بالغ ہوں خوشی سے اجازت دے دیں تو اس وصیت کو نافذ کر سکتے ہیں..

(5) جس آدمی کے ذمے فرض حج، فرض زکوٰۃ، روزوں کا فدیہ وغیرہ اللہ تعالی کے حقوق ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ..ان کی وصیت کر جائے..کیونکہ اگر وہ انکی وصیت نہیں کرے گا تو ”ورثاء“ پر ضروری نہیں کہ وہ اس کے مال سے اس کے ان فرائض کو ادا کریں..انہیں حق حاصل ہو گا کہ وہ کفن دفن..اور لوگوں کے قرضے ادا کرنے کے بعد سارا مال آپس میں شرعی ترتیب سے تقسیم کر لیں..اس لئے ہر وہ شخص جو مالدار ہو وہ ان امور کی وصیت کر جائے تاکہ وہ گناہ گار نہ ہو..

وصیت کے باقی احکامات اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ..

مغرب سے جمعہ مبارک، مقابلہ حسن مرحبا..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث9

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ کا احسان کہ..”وصیت“ کا خیر والا دروازہ کھلا رکھا..

(لیجئے وصیت کے باقی احکامات)

(1) وصیت کے ذریعے انسان اپنے لئے صدقات جاریہ کا انتظام بھی کر سکتا ہے..اور بڑی عظیم نیکیاں بھی کما سکتا ہے..مثلاً کسی آدمی کے کئی بیٹے ہیں..

ایک بیٹے کا اسکی زندگی میں انتقال ہو گیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے پیچھے رہ گئے..اب اس آدمی کی میراث میں سے اس کے یتیم پوتے پوتیوں کو کچھ نہیں ملے گا.. کیونکہ اس کے اور بیٹے موجود ہیں..اور بیٹا موجود ہو تو پوتے کو میراث نہیں ملتی..اب یہ شخص اپنے پوتے پوتیوں کے لئے کچھ مال کی وصیت کر جائے تو کتنی بڑی نیکی اور صلہ رحمی ہو گی..

(2) کوئی شخص زندگی میں بخل کا شکار رہا اب اگر وہ وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کے بعد میرا تہائی مال جہاد میں دیا جائے..مسجد بنائی جائے، کنواں کھدوایا جائے تو اس نے مرنے کے بعد اپنے مال سے وہ کما لیا جو زندگی میں نہ کما سکا..

(3) جس آدمی کا مال کم ہو اور اس کے بچے چھوٹے یا ضرورت مند ہوں تو ایسے شخص کو چاہیے کہ کوئی وصیت نہ کرے..کیونکہ وصیت کرے گا تو بچوں کی میراث اور کم ہو جائے گی..جبکہ اپنے بچوں کو کھلانا پلانا بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے..اس لئے وصیت صرف وہ کرے جو زیادہ مال چھوڑ کر جا رہا ہو..یا جس کے ورثاء ( بچے، بیوی، والدین وغیرہ) زیادہ ضرورت مند نہ ہوں..یا اس کے ذمے فرائض ہوں..

(4) وصیت اپنے مال، جائیداد کے بارے میں کی جا سکتی ہے..اپنے”اعضاء“ کے بارے میں نہیں کہ..میرے مرنے کے بعد میری آنکھیں فلاں کو دے دی جائیں..ہمارے پاس یہ ”اعضاء“ اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں..یہ ہماری ملکیت نہیں ہیں کہ ہم ان کے ساتھ جو چاہیں کریں..

(5) کسی گناہ کے کام کی وصیت بڑا گناہ ہے..”ورثاء“ کو چاہیے کہ ایسی وصیت پر ہرگز عمل نہ کریں..

(6) وصیت کرنے والے کو اپنی زندگی میں..اپنی وصیت تبدیل کرنے یا ختم کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے..اگر اس نے لوگوں کے سامنے کوئی وصیت کی ہو..اور پھر اس وصیت کو ختم کرنا یا بدلنا چاہتا ہو تو لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کرے..اور اگر وصیت چپکے سے لکھ کر رکھی ہے تو جب چاہے اپنی زندگی میں اسے ختم کر سکتا ہے..یا بدل سکتا ہے..

(7) اپنے کسی وارث کو عاق کرنے کی وصیت..یا کسی وارث کو حصہ نہ دینے کی وصیت باطل اور فضول ہے..دس اخباروں میں اشتہار دے دے تب بھی کسی کو عاق نہیں کر سکتا..اس کے مرنے کے بعد ہر وارث کو پورا حصہ ملے گا..اگر وارث واقعی بہت برے ہیں تو اپنا سارا مال اپنی زندگی میں ہی اچھے کاموں میں لگا دے..یا اچھے لوگوں میں تقسیم کر دے..

(8) اگر کسی کے ذمے لوگوں کے قرضے ہوں..یا اس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں..یا اس کے پاس اجتماعی اموال ہوں تو ایسے آدمی پر لازم ہے کہ..ان قرضوں،امانتوں کی تفصیل لکھ کر رکھے..اس پر ایسی دو راتیں نہیں گزرنی چاہییں کہ اس نے یہ سب لکھ کر نہ رکھا ہو..اگر وہ نہیں لکھے گا تو اپنی آخرت کو خطرے میں ڈالے گا..

(9) کسی نے اپنے مال کے بارے میں کئی وصیتیں کیں..اس کے تہائی مال سے یہ ساری وصیتیں پوری نہیں ہو سکتیں تو ان وصیتوں کو پہلے پورا کیا جائے گا جو زیادہ ضروری ہیں مثلاً فرائض کی ادائیگی..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث10

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمارا سینہ اسلام کے لئے کھول دیں..

میت کے مال سے پہلا خرچہ کفن دفن..دوسرا خرچہ قرضوں کی ادائیگی..تیسرا خرچہ وصیت پوری کرنا..یہ تینوں کام کرنے کے بعد بھی مال بچ جائے تو وہ ”ورثاء“ میں تقسیم ہوگا..اور یہیں سے اصل”علم میراث“ شروع ہوتا ہے کہ..وراثت کا مال کن ”ورثاء“ میں تقسیم ہوگا..اور کتنا کتنا تقسیم ہوگا..مگر اس سے پہلے ایک ضروری بات سمجھ لیں..تین چیزیں ایسی ہیں جو کسی بھی وارث کو وراثت سے محروم کر دیتی ہیں..(1)قتل (2)کفر (3) غلامی

• قاتل کو مقتول کے مال میں سے وراثت نہیں ملے گی..یہ قتل کرنا جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے..قتل کرنے والی چیز سے قتل کیا ہو..یا کسی اور چھوٹی موٹی چیز سے..قتل کرنے والے کو اپنے مقتول کے مال سے کچھ حصہ نہیں ملے گا خواہ یہ اس کا بیٹا ہو..البتہ قتل کی دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں ایک اپنے دفاع میں قتل کرنا اور دوسرا سرکاری ڈیوٹی کے طور پر قتل کرنا مثلاً کوئی اسلامی حکومت میں جلاد ہو..

• مسلمان کو کافر کے مال میں سے اور کافر کو مسلمان کے مال میں سے وراثت نہیں ملتی..

• غلام کو وراثت سے کچھ نہیں ملتا..

ایک اور چیز وراثت سے محروم کرنے والی ہے..”اختلاف دار“.. یعنی دو افراد دو الگ الگ ریاستوں میں ہوں..اور ان دو ریاستوں کے درمیان دشمنی ہو.. یہ مسئلہ مسلمانوں کے لئے نہیں ہے..مسلمان رشتہ دار خواہ کتنے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہوں..ان کے درمیان وراثت جاری ہوگی.. البتہ وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملکوں میں رہتے ہیں..اور اسلامی قانون وراثت کے مطابق اپنی میراث تقسیم کرتے ہیں..ان کے ان ”ورثاء“ کو ان کے مال سے کچھ حصہ نہیں ملے گا جو.. دوسری مخالف ریاست میں رہتے ہیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 11

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں..

”ورثاء“ اور ان کے حصوں کی تفصیل سے پہلے ایک اور بات بھی سمجھ لیں..

وراثت سے محرومی والی چیزیں بس وہی تین ہیں جو کل ہم نے پڑھیں..(1) قتل (2) کفر (3) غلامی..

مگر ہمارے معاشرے میں کچھ اور اسباب کی وجہ سے بھی وراثت سے محروم کیا جاتا ہے..جو کہ بڑا ظلم اور گناہ ہے..

(1) عورت ہونا اور عورت کا دوسرا نکاح کرنا..اسلام نے عورت کو وراثت میں پورا اور مقرر حق دیا ہے..مگر لوگ اس میں غفلت اور ظلم کرتے ہیں..وہ کہتے ہیں اس کی شادی پر ہم نے خرچ کر دیا تھا وغیرہ.. یاد رکھیں زندگی میں آپ کسی پر جتنا خرچ کر لیں..اس کا اثر میراث پر نہیں پڑتا..میراث میں سے پورا حصہ دینا ہوگا..نہیں دیں گے تو اس کا جو حصہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوچکا ہے اس پر قبضہ کرنے والے..حرام مال پر قبضہ کرنے والے ہوں گے..اسی طرح اگر عورت اپنے خاوند کی وفات کے بعد عدت گزار کر دوسری شادی کر لے تو بھی اسے اپنے پہلے خاوند کی میراث میں سے حصہ ملے گا..جو لوگ نہیں دیتے وہ بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں..

(2)چھوٹا بچہ ہونا..اس کی وجہ سے کئی لوگ بچوں کو میراث نہیں دیتے یہ گناہ اور ظلم ہے..کسی کا ایک بیٹا عالم فاضل ہو اور دوسرا ایک دن کا دودھ پیتا بچہ..دونوں کو میراث میں سے برابر حصہ ملے گا..حتی کہ جو بچہ حمل میں ہوگا اس کو بھی میراث میں سے پورا حصہ ملے گا..

(3) نافرمان اور گناہ گار ہونا..

کئی جگہ ان ورثاء کو میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے جو نافرمان یا گناہ گار ہوں..یہ بالکل غلط ہے..ایک شخص نے دو بیٹے چھوڑے..ایک تہجد گزار ہے اور اس نے ساری عمر والد کی خدمت کی ہے..جبکہ دوسرا فاسق و فاجر ہے اور زندگی میں باپ کو ستاتا رہا ہے..میراث میں دونوں کو برابر حق اور حصہ ملے گا..آپ سوچیں گے کہ یہ ”انصاف“ تو نہ ہوا..جواب یہ ہے کہ..اگر شریعت مختلف وجوہات کی وجہ سے..میراث کے قانون میں تبدیلی کی اجازت دے دے تو لوگ..اس قانون کو کھلونا بنا لیں گے..کوئی کسی کو فرمانبردار قرار دے گا تو کسی کو نافرمان..کوئی کسی کے نزدیک نیک ہوگا مگر دوسروں کے نزدیک گناہ گار..اور یوں کبھی فیصلہ نہیں ہوسکے گا..نیکی اور خدمت کا صلہ دینا ہے تو..ہر شخص اپنی زندگی میں دے سکتا ہے..میراث کا قانون تو مضبوط بنیادوں پر نافذ ہوگا..اور مضبوط بنیاد ہے..بیٹا ہونا..رشتہ دار ہونا..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 12

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں ”جنت“ کا وارث بنائے..آج تین باتیں یاد فرما لیں..

(1) ”مُؤرِّث“ کی موت کے وقت اس کا جو جو وارث زندہ ہوگا..صرف اسے میراث ملے گی..مثلاً ایک شخص کے تین بیٹے ہیں..اس کی زندگی میں اس کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا..جبکہ دو بیٹے اس کی وفات کے وقت تک زندہ تھے..تو میراث ان دو بیٹوں کو ملے گی..جو بیٹا پہلے وفات پا گیا اس کو کچھ نہیں ملے گا..اسی طرح ”مُؤرِّث٘“ کی موت کے وقت جو بیوی اس کے نکاح میں ہوگی..اسے میراث ملے گی..اور جن کو پہلے طلاق دے چکا ان کو کچھ نہیں ملے گا..خلاصہ یہ کہ کسی کی موت کے وقت اس کے جو وارث زندہ ہوں گے..یا اس کے نکاح میں ہوں گے ان کو وراثت میں حصہ ملے گا..پھر اگر میراث تقسیم ہونے سے پہلے ان وارثوں میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو وہ اپنے حصے کا مالک شمار ہوگا..اور اس کا حصہ اس کے وارثوں کو ملے گا..

(2) ”میت“ کا ہر وہ مال جو موت کے وقت اس کی ملکیت میں ہو گا..اس میں وراثت جاری ہوگی..روپیہ پیسہ ہو یا زمین زیور..کسی کو دیا ہوا قرضہ ہو یا کمیٹی وغیرہ میں ادا کیا ہوا مال..سابقہ پینشن کے واجبات ہوں یا قسطوں پر لی گئی چیز کی ادا کی ہوئی قسطیں..اس کی جیب میں موجود الائچی تک شریعت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کرنا لازم ہے..سابقہ پینشن کی جو رقم اکٹھی ملے وہ بھی وراثت میں چلے گی..ہاں آئندہ کے لئے اگر پینشن جاری ہوئی تو وہ صرف اسی کی ہوگی جس کے نام سرکاری طور پر جاری ہوئی ہے..وراثت کے مال کو جلد تقسیم کرنا چاہیے..تأخیر کی جائے تو خاندان میں جھگڑے اور بے برکتی آجاتی ہے..اور  ورثاء میں سے کسی کی وفات بھی ہو سکتی ہے..تب اس کا حصہ اس کے ورثاء تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے..وراثت کی تقسیم میں ورثاء کو چاہیے کہ حرص و لالچ سے بچیں اور ایک دوسرے کا اکرام ملحوظ رکھیں..اگر مرے ہوئے شخص کا مال بھی ہمیں اپنی موت یاد نہیں دلا رہا تو خطرے کی بات ہے..

(3) ہر شخص کے پانچ رشتہ دار ایسے ہیں..جو اگر اس کی موت کے وقت زندہ ہوں تو انہیں ضرور وراثت ملتی ہے..

مرد کے لئے..

(1) باپ (2) ماں (3) بیوی (4) بیٹا (5) بیٹی..

عورت کے لئے..

(1) خاوند (2) باپ (3) ماں (4) بیٹا (5) بیٹی..

ان پانچ رشتہ داروں کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو بعض صورتوں میں وراثت ملتی ہے اور بعض حالات میں نہیں..اسکی تفصیل آگے آئے گی ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 13

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہمیں..شریعت کے ہر حکم کے ساتھ قلبی محبت نصیب فرمائیں..”میراث“ کی تقسیم شروع ہو رہی ہے..جو کہ بالکل آسان ہے..ہم نے تقریباً پینتیس 35 قسم کے رشتہ دار یاد رکھنے ہیں..اور یہ یاد رکھنا ہے کہ کس رشتہ دار کو کتنا حصہ ملے گا..اور کس رشتہ دار کے ہوتے ہوئے کس رشتہ دار کو وراثت نہیں ملے گی..مثلاً دو رشتہ دار ہیں ایک باپ اور ایک دادا..اسمیں ہم نے باپ کے حصے یاد کرنے ہیں..اور دادا کے حصے بھی اور یہ بات بھی یاد رکھنی ہے کہ..باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو کچھ نہیں ملے گا..لیجئے شروع کرتے ہیں..شرعی اعتبار سے رشتہ دار تین قسم کے ہیں..

(1) ذوی الفروض..یعنی مقرر حصوں والے..یہ وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے شریعت نے خود مقرر فرما دیئے ہیں..یہ کل بارہ رشتہ دار ہیں چار مرد اور آٹھ عورتیں..

چار مرد یہ ہیں

(1) باپ (2) دادا (3) ماں شریک بھائی (4) خاوند

اور آٹھ عورتیں یہ ہیں

(1) بیوی (2) ماں (3) بیٹی (4) پوتی (5) حقیقی بہن (6) باپ شریک بہن (7) ماں شریک بہن (8) دادی اور نانی

ان میں سے بعض رشتہ داروں کو تو ہر حال میں حصہ ملتا ہے..جیسا کہ کل کے مکتوب میں گزر چکا..جبکہ بعض کو کبھی ملتا ہے..کبھی نہیں..تفصیل آگے آتی رہے گی ان شاءاللہ..ایک گزارش یہ ہے کہ..نئے افراد کے ذہن میں ہر مکتوب کے بعد سؤالات آسکتے ہیں..وہ پریشان نہ ہوں..جیسے جیسے تفصیل آتی جائے گی..ان کو جوابات خود ملتے جائیں گے ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

میراث 14

اللہ تعالیٰ ہمیں اچھی زندگی اور حسن خاتمہ نصیب فرمائیں..

رشتہ داروں کی پہلی قسم”ذوی الفروض“ ہے..یہ کل بارہ قسم کے رشتہ دار ہیں جو ہم نے کل پڑھ لئے..رشتہ داروں کی دوسری قسم ”عصبات نسبی“ ہیں..یعنی میت کے وہ خونی رشتہ دار جو خود بھی مرد ہوں اور انکی میت کے ساتھ رشتہ داری بھی کسی مرد کے واسطے سے ہو..عورت کے واسطے سے نہ..مثلاً ”پوتا“..یہ مرد رشتہ دار ہے..اور اس کے ساتھ رشتہ داری ایک مرد یعنی اپنے بیٹے کے واسطہ سے ہے..اسمیں بارہ طرح کے رشتہ دار آ جاتے ہیں..

(1) بیٹا (2) پوتا (3) باپ (4) دادا (5) حقیقی بھائی (6) باپ شریک بھائی (7) حقیقی بھائی کے بیٹے (8) باپ شریک بھائی کے بیٹے (9) حقیقی چچا (10) باپ شریک چچا یعنی اپنے والد کا باپ شریک بھائی (11) حقیقی چچا کے بیٹے (12) باپ شریک چچا کے بیٹے..

”عصبات“ کا شریعت میں کوئی حصہ مقرر نہیں..بلکہ ”ذوی الفروض“ کے حصے نکال کر جو مال بچے گا وہ سارا ان کو مل جائے گا..اور اگر کچھ نہ بچا تو محروم رہ جائیں گے..اور ان کو ملنے کی بھی ترتیب ہے مثلاً بیٹا موجود ہو گا تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا..باپ موجود ہو گا تو دادا کو کچھ نہیں ملے گا..باپ، بیٹا وغیرہ موجود ہوں تو بھائی کو کچھ نہیں ملے گا..بھائی موجود ہوں تو چچا کو کچھ نہیں ملے گا..تفصیل آگے آئے گی ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 15

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہمیں ”صلہ رحمی“ کی توفیق عطاء فرمائیں..رشتہ داروں کی تیسری قسم ”ذوی الارحام“ ہیں..یہ ”میت“ کے وہ رشتہ دار ہیں جو نہ ”ذوی الفروض“ ہیں..اور نہ ”عصبات“..ان کا حصہ نہ قرآن و حدیث میں مقرر ہے اور نہ اجماع سے..اور ”میت“ سے انکی رشتہ داری کسی ”عورت“ کے واسطے سے ہوتی ہے..یا وہ خود ”عورت“ ہوتی ہے..مثلاً خالہ، پھوپھی، ماموں، بھانجے، نواسے وغیرہ..عام طور پر ”وراثت“ میں انکا نمبر آتا ہی نہیں کیونکہ جب تک ذوی الفروض اور عصبات میں سے ایک فرد بھی وارث موجود ہوگا تو ”ذوی الارحام“ کو وراثت سے کچھ نہیں ملے گا..اور عصبات کا سلسلہ بہت وسیع ہے..ہر کسی کا کوئی نہ کوئی ”عصبہ“ رشتہ دار موجود ہوتا ہے..بہرحال پھر بھی اگر کوئی ایسا ہو کہ اس کا نہ کوئی ”ذوی الفروض“ رشتہ دار موجود ہو نہ عصبہ..یا وہ صرف اکیلے خاوند بیوی ہوں اور انمیں سے ایک کا انتقال ہو جائے..تو پھر ذوی الارحام کو وراثت میں سے حصہ ملے گا..ایسا موقع کم ہی آتا ہے..پھر بھی ”ذوی الارحام“ کی اجمالی فہرست ذہن میں رکھ لیں..

یہ کل گیارہ قسم کے رشتہ دار ہوسکتے ہیں..

(1) بیٹی کی مذکر و مؤنث اولاد نواسے نواسیاں وغیرہ (2) پوتی کی مذکر و مؤنث اولاد (3) نانا اور نانا کا باپ دادا (4) نانا کی ماں (5) بہنوں کی اولاد مذکر و مؤنث یعنی بھانجے بھانجیاں (6) بھائیوں کی مؤنث اولاد یعنی بھتیجیاں (7) ماں شریک بھائیوں کے بیٹے (8) باپ کی بہنیں اور انکی اولاد (9) باپ کے ماں شریک بھائی اور انکی اولاد (10) ماں کے بھائی اور انکی اولاد (11) ماں کی بہنیں اور انکی اولاد..اب ہم ”ذوی الفروض“ اور ”عصبات“ کی تفصیل شروع کریں گے تو آپ کے لئے میراث کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 16

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی”نورانی علم“ نصیب فرمائیں..

آج سے جو ”اسباق“ شروع ہو رہے ہیں..یہ بہت ہی آسان ہیں..ان کو اگر آپ روز یاد کرتے جائیں گے تو دس دن تک..آپ خود ”میراث“ تقسیم کرنے کے قابل ہو جائیں گے..ان شاءاللہ..

ہم نے پڑھ لیا تھا کہ..بارہ قسم کے رشتہ دار ”ذوی الفروض“ یعنی ”مقرر حصوں“ والے کہلاتے ہیں..

(1) باپ (2) دادا (3) خاوند (4) ماں شریک بھائی (5) ماں (6) بیوی (7) بیٹی (8) پوتی (9) سگی بہن (10) باپ شریک بہن (11) ماں شریک بہن (12) دادی، نانی..

آج ہم ”باپ“ کا مسئلہ سمجھیں گے..

• اگر کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے اور اس کا ”والد“ زندہ ہو تو اسے ”میراث“ میں سے ضرور حصہ ملتا ہے..اب اسکی تین صورتیں ہیں..

(1) اگر ”میت“ کی ”مذکر“ (یعنی نرینہ اولاد)..مثلاً بیٹا، پوتا.. موجود ہو تو ”میت“ کے والد کو اسکی ”میراث“ کا ”چھٹا“ حصہ ملے گا..

مثلا کسی نے اپنی ”میراث“ میں کل تیس ہزار روپے چھوڑے..اور اس کے بیٹے یا پوتے (ایک یا زیادہ) موجود ہیں اور والد بھی زندہ ہے تو ”والد“ کو سارے مال کا چھٹا حصہ ملے گا..یعنی پانچ ہزار روپے..

(2) اگر ”میت“ کی مذکر اولاد نہ ہو..لیکن مؤنث (زنانہ) اولاد موجود ہو، جیسے بیٹی، پوتی..تو ”والد“ کو ”چھٹا حصہ“ بھی ملے گا..اور تمام ”ذوی الفروض“ رشتہ داروں کے حصے دینے کے بعد کچھ مال بچ گیا تو وہ بھی ”والد“ کو مل جائے گا..

(3) اگر ”میت“ کی کوئی اولاد ہی نہ ہو..اس کا ”والد“ زندہ ہوتو ”والد“  ”عصبہ“ بن جائے گا..یعنی سارے مال کا وارث..یہ اس صورت میں ہوگا جب ”میت“ کا کوئی بھی ”ذوی الفروض“ رشتہ دار موجود نہ ہو..لیکن اگر ”میت“ کی اولاد تو نہیں ہے..مگر اس کا کوئی اور ”ذوی الفروض“ رشتہ دار موجود ہے تو اس رشتہ دار کا حصہ نکال کر..باقی سارا مال ”والد“ کو مل جائے گا..

مثلاً ایک شخص نے میراث میں کل چالیس ہزار روپے چھوڑے..اور اس کے ”ذوی الفروض“ رشتہ داروں میں سے صرف ”والد“ موجود ہے تو یہ ساری رقم ”والد“ کو مل جائے گی..اور اس کے ”ذوی الفروض“ میں سے ”بیوی“ بھی موجود ہے تو ”بیوی“ کا حصہ نکال کر باقی سارا ”والد“ کو مل جائے گا..”بیوی“ کو اس صورت میں چوتھا حصہ یعنی..چالیس میں سے دس ہزار ملیں گے..اور ”والد“ کو باقی سارے تیس ہزار..

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

خلاصہ یہ کہ..جس”میت“ کا والد زندہ ہو..اور اس میت کی نرینہ اولاد بھی ہوتو والد کو چھٹا حصہ..اگر صرف مؤنث اولاد ہو تو والد کو چھٹا حصہ اور ذوی الفروض سے بچا ہوا مال..اور اگر میت کی اولاد نہ ہو تو والد ”عصبہ“ بن جائے گا..ساری میراث کا مالک یا ذوی الفروض سے بچی ہوئی میراث کا مالک..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 17

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ آسان فرمائیں..آج کا سبق تو بہت ہی آسان ہے..

”ذوی الفروض“ رشتہ داروں میں سے آج ”دادا“ پر بات کریں گے..

”میت کا دادا“ ان وارثوں میں سے ہے..جسے اپنے پوتے کی وراثت میں سے کبھی حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں..

(1) اگر ”میت“ کا والد زندہ ہو..اور دادا بھی زندہ ہو تو ”دادا“ کو کچھ بھی نہیں ملے گا..اور وہ ”ورثاء“ کی فہرست سے نکل جائے گا..

(2) اگر ”میت“ کا والد پہلے وفات پا چکا ہو اور دادا موجود ہو تو اب ”دادا“ ”والد“ کی جگہ ہوگا..جو کچھ والد کو ملنا تھا اب دادا کو ملے گا..یعنی اگر میت کی مذکر اولاد موجود ہو تو دادا کو چھٹا حصہ ملے گا..اگر صرف مؤنث اولاد موجود ہو تو دادا کو چھٹا حصہ اور ذوی الفروض سے بچا ہوا مال بھی ملے گا..اور اگر میت کی اولاد نہ ہو تو دادا ”عصبہ“ ہوگا..گزشتہ کل کا سبق دیکھ لیں..”دادا“ کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو والد کے لئے تھا..

”ذوی الفروض“ میں تیسرا مرد ”خاوند“ ہے..

اگر کسی عورت کا انتقال ہو جائے اور اس کا خاوند زندہ ہو تو..خاوند کو اپنی بیوی کی میراث میں سے ضرور حصہ ملے گا..اور اسکی دو صورتیں ہیں..

(1) اگر عورت کی اولاد ہو تو خاوند کو اسکی میراث کا چوتھا حصہ ملے گا..مثلاً کسی عورت کی کل میراث چالیس ہزار روپے ہے اور اس کی اولاد موجود ہے تو خاوند کو چوتھا حصہ یعنی دس ہزار روپے ملیں گے..(عورت کی اولاد سے مراد کوئی بیٹا، بیٹی..یا بیٹے کی اولاد پوتا پوتی وغیرہ ہیں)

(2) اگر وفات پانے والی عورت کی اولاد نہیں ہے تو خاوند کو اسکی آدھی میراث ملے گی..تمام چھوڑے ہوئے مال کا ”نصف“..یعنی چالیس ہزار میں سے بیس ہزار..اب تک ہم نے والد، دادا اور خاوند کے حصے پڑھ لئے..ان کو اچھی طرح یاد کرلیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 18

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہمیں ”جہالت“ کی تاریکی سے بچائیں..

ہم پڑھ چکے کہ ”ذوی الفروض“ رشتہ داروں میں چار مرد اور آٹھ عورتیں ہیں..آج چوتھے مرد کی بات ہو گی جوکہ ماں شریک بھائی ہے..(اسی کے ساتھ ماں شریک بہن کا مسئلہ بھی آ جائے گا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے)

 ماں شریک بھائی

کسی عورت کی شادی ہوئی اور اس سے اسکی اولاد بھی ہوئی..پھر اس کے خاوند کا انتقال ہو گیا..یا خاوند نے طلاق دے دی..اس عورت نے ”عدت“ کے بعد دوسری شادی کرلی..اس سے بھی اسکی اولاد ہوئی..اب پہلے خاوند سے ہونے والی اولاد..اور دوسرے خاوند سے ہونے والی اولاد آپس میں ”ماں شریک“ بہن بھائی کہلائیں گے.. کیونکہ ان کی ”ماں“ ایک ہے..جبکہ ”باپ “ الگ الگ..عربی میں انکو ”اخیافی“ یا ”خیفی“ بہن بھائی کہتے ہیں..”بیوہ“ یا ”طلاق یافتہ“ عورت کا..عدت گزرنے کے بعد دوسرا نکاح کرنا..کوئی عیب،جرم یا گناہ نہیں ہے..اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت ہے..وہ اگر اپنے خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد اپنے بچوں کی خاطر دوسرا نکاح نہ کرے تو اس کے لئے اجر و ثواب ہے.. لیکن اگر نکاح کر لے تو بالکل جائز ہے..جو لوگ بیوہ یا مطلقہ عورت کے دوسرے نکاح کو عیب سمجھتے ہیں..وہ  بہت سخت گناہ اور غلطی کرتے ہیں..کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کو انہوں نے ”عیب“ سمجھا (نعوذ باللہ)..اگر کسی کا انتقال ہو جائے..اور اس کے ماں شریک بھائی بہن موجود ہوں تو انہیں اپنے بھائی کی وراثت میں سے کبھی حصہ ملتا ہے..اور کبھی نہیں..اسکی تفصیل یہ ہے..

(1) اگر ”میت“ کے باپ یا دادا موجود ہوں..یا میت کی اولاد موجود ہو تو ماں شریک بھائی..اور ماں شریک بہن کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا..اور وہ ”ورثاء“ کی فہرست سے خارج ہو جائیں گے..

(2) اگر ”میت“ کے باپ دادا بھی نہیں ہیں..اولاد بھی نہیں ہے تو دیکھا جائے گا کہ ماں شریک بھائی یا بہن ایک ہے یا زیادہ..اگر صرف ایک ہو تو اسے میراث کا ”سدس“ یعنی چھٹا حصہ ملے گا..

(3) اور اگر ماں شریک بھائی یا بہنیں ایک سے زیادہ ہوں تو ان کو میراث میں سے ایک تہائی..یعنی تیسرا حصہ ملے گا..جسے وہ آپس میں برابر تقسیم کر لیں گے..یہاں بہن کو بھی بھائی کے برابر ملے گا..مثال کے طور پر..ایک شخص کا انتقال ہوا..اس نے کل میراث ”تیس ہزار“ روپے چھوڑی ہے..اس کے ماں شریک بھائی بہن بھی زندہ ہیں..اور اسکی اپنی اولاد بھی ہے..کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ..تو اس صورت میں ماں شریک بھائی بہنوں کو..ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا..اور اگر اسکی کوئی اولاد نہیں ہے مگر اس کا والد یا دادا زندہ ہے تو اب بھی ماں شریک بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا..لیکن اگر اسکی اولاد بھی نہیں ہے اور باپ دادا بھی زندہ نہیں تو اب ماں شریک بھائی بہنوں کو حصہ ملے گا..اور وہ اس طرح کہ..اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن تو اسے چھٹا حصہ..یعنی پانچ ہزار مل جائیں گے..اور اگر ایک سے زیادہ ہوں مثلاً دو ہوں..ایک ماں شریک بھائی اور ایک ماں شریک بہن..تو ان دونوں کو مشترکہ طور پر میراث کا ایک تہائی..یعنی تیسرا حصہ ملے گا..تیس ہزار میں سے دس ہزار..پھر وہ دس ہزار ان دونوں میں برابر تقسیم ہوں گے..یعنی پانچ پانچ ہزار..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 19

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ..”مقدس علم“ کے ابواب سیکھنے کی توفیق عطاء فرمائی..

بارہ ”ذوی الفروض“ رشتہ داروں میں سے پانچ کے احکامات ہم پڑھ چکے..

(1) باپ (2) دادا (3) خاوند (4) ماں شریک بھائی (5) ماں شریک بہن..

آج ہم ”بیوی“ کی بات کریں گے..

اگر کسی کا انتقال ہو جائے اور اس کی”بیوی“ زندہ ہوتو ”بیوی“ کو اپنے خاوند کی ”میراث“ میں سے ضرور حصہ ملتا ہے..

تفصیل اسکی یہ ہے..

(1) اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اسکی بیوی کو ”میراث“ کا چوتھا حصہ ملے گا..

(2) اگر ”میت“ کی اولاد موجود ہو تو ”بیوی“ کو ”میراث“ کا آٹھواں حصہ ملے گا..

مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا..

اس کا کل ترکہ (یعنی میراث) چالیس ہزار روپے ہے..اور اس کی کوئی بھی اولاد نہیں ہے..نہ بیٹا، نہ بیٹی، نہ بیٹے کی اولاد یعنی پوتا پوتی..تو اب اس کی بیوی کو..کل ترکے کا چوتھا حصہ..یعنی دس ہزار روپے ملیں گے..

اور اگر اسکی اولاد (ایک یا زیادہ) موجود ہو تو ”بیوی“ کو کل میراث کا آٹھواں حصہ یعنی پانچ ہزار روپے ملیں گے..

عربی میں چوتھے حصے کو ”رُبُع“..آٹھویں حصے کو ”ثُمُن“..

چھٹے حصے کو ”سُدُس٘“.. تیسرے حصے کو ”ثُلث“ اور آدھے کو ”نصف“ کہتے ہیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 20

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہماری ”اولاد“ کو صالح اور ”خوش نصیب“ بنائے..

آج ”بیٹی“ کی بات ہوگی..اور کچھ ”مشق“ بھی ان شاءاللہ..

اگر کسی (مرد یا عورت) کا انتقال ہو جائے..اور اس کی ”بیٹی“ یا ”بیٹیاں“ موجود ہوں تو ان کو ”میراث“ میں سے ضرور حصہ ملے گا..جس کی تفصیل یہ ہے..

(1) اگر ”بیٹی“ ایک ہو..اور میت کا بیٹا نہ ہو تو ”بیٹی“ کو نصف یعنی آدھی میراث مل جائے گی..

(2) اگر بیٹیاں ایک سے زائد ہوں تو ان کو ”دوتہائی“ وراثت ملے گی جو انمیں برابر برابر تقسیم ہو گی..

مثلا ایک شخص کا انتقال ہوگیا..اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے..مگر ایک بیٹی ہے..اور اس نے کل وراثت تیس ہزار روپے چھوڑی ہے تو اس بیٹی کو ساری وراثت کا آدھا حصہ..یعنی پندرہ ہزار مل جائیں گے..اور اگر اس کی دو بیٹیاں ہیں تو ان دونوں کو دوتہائی وراثت ملے گی..یعنی بیس ہزار..پھر وہ ان دونوں میں آدھی آدھی تقسیم ہو گی..یعنی دس دس ہزار..

(3) اگر بیٹی کے ساتھ میت کا بیٹا بھی موجود ہوں تو اب بیٹی ”عصبہ“ بن جائے گی.. یعنی ”ذوی الفروض“ میں تقسیم کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا..وہ بیٹے اور بیٹی میں تقسیم ہو جائے گا..اور بیٹے کو بیٹی سے ڈبل حصہ ملے گا..اور اگر ”ذوی الفروض“ موجود نہ ہوں تو..سارا مال بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم ہو جائے گا..اور بیٹوں کو بیٹیوں سے دگنا ملے گا..

مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا.. اس نے تیس ہزار روپے وراثت چھوڑی..اس کا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی..تو یہ سارا مال ان دونوں کو مل جائے گا..بیس ہزار بیٹے کو..اور دس ہزار بیٹی کو..

اور اگر اس کے ”ذوی الفروض“ میں سے کوئی زندہ ہے..مثلاً والد..تو والد کو چھٹا حصہ دیں گے..اور باقی سارا مال بیٹے اور بیٹی کا ہو جائے گا..اور بیٹے کو بیٹی سے دگنا ملے گا..

 مشق

سؤال (1)

ایک عورت کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور خاوند ہے..کل ترکہ چالیس ہزار ہے..تقسیم کریں..

سؤال (2)

ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کی کل وراثت تیس ہزار ہے..ورثاء میں ایک بیٹی اور والد ہیں..تقسیم کریں..

سؤال (3)

ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں تین بیٹیاں، ایک بیوی اور دادا ہیں..

جواب (1)

خاوند کو دس ہزار، بیٹے کو بیس ہزار، بیٹی کو دس ہزار..

جواب (2)

بیٹی کو پندرہ ہزار، والد کو پانچ ہزار..اور پھر بچا ہوا دس ہزار بھی..یعنی کل پندرہ ہزار..

جواب (3)

بیوی کو آٹھواں حصہ..بیٹیوں کو دو تہائی مال..دادا کو چھٹا حصہ..اور پھر جو کچھ بچ گیا..

(عربی میں دو تہائی کو ثُلُثَان٘ کہتے ہیں)

(تیس ہزار کا تیسرا حصہ یعنی دس ہزار ایک تہائی (ثلث) کہلاتا ہے..یوں دو تہائی (ثلثان) بیس ہزار ہوں گے)

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 21

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہماری ”نسلوں“ میں قیامت تک دین اسلام جاری فرمائیں..

آج ”پوتی“ کی بات ہوگی..ان شاء اللہ..

اگر کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے..اور اس کی پوتی یا پوتیاں موجود ہوں تو ان کو کبھی وراثت میں حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں..

یہاں ایک ”غلط فہمی“ کا ازالہ کرلیں..”ذوی الفروض“ رشتہ داروں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے ”ذوی الفروض“ کو ضرور وراثت کا حصہ ملے گا..ایسا بالکل نہیں ہے..”ذوی الفروض“ میں سے صرف والد، خاوند، بیوی، بیٹی اور والدہ کو تو ضرور حصہ ملتا ہے..جبکہ باقی کو کبھی ملتا ہے، کبھی نہیں..”ذوی الفروض“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان رشتہ داروں کو وراثت ملی تو ان کے حصے مقرر ہیں..چھٹا، آٹھواں، چوتھا، آدھا..تہائی..دو تہائی..ان مقرر حصوں کی وجہ سے ان کو ”ذوی الفروض“ یعنی مقرر حصوں والا کہتے ہیں..اب دیکھیں کہ ”بیٹا“ ”ذوی الفروض“ میں سے نہیں ہے..کیونکہ اس کا کوئی حصہ مقرر نہیں..مگر اس کو میراث ضرور ملتی ہے..کبھی ساری اور کبھی جو بچ جائے..اس کے لئے کوئی خاص حصہ مقرر نہیں آدھا، چوتھا وغیرہ..

آئیے پوتی کی بات کرتے ہیں..

(1) اگر میت کا بیٹا موجود ہو (ایک یا زیادہ) تو پوتی کو کچھ نہیں ملے گا..

(2) اگر میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو مگر اس کی دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں تو پوتی کو کچھ نہیں ملے گا..

(3) اگر میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں صرف ایک پوتی ہو تو اسے ساری میراث کا نصف یعنی آدھا حصہ ملے گا..

(4) اگر میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں..اور اس کی دو یا دو سے زیادہ پوتیاں ہوں تو ان کو دو تہائی مال ملے گا جو انمیں برابر تقسیم ہوگا..

(5) اگر میت کا بیٹا، بیٹی نہ ہوں..اور اس کی ایک سے زیادہ پوتیاں ہوں اور ان کے ساتھ پوتا بھی ہو تو یہ ”عصبہ“ بن جائیں گی..یعنی دیگر ”ذوی الفروض“ میں تقسیم کرکے جو کچھ بچے گا وہ پوتے پوتیوں میں تقسیم ہو جائے گا..اور پوتے کو پوتی سے دگنا ملے گا..

(6) اگر میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو لیکن صرف ایک بیٹی ہو..تو پوتیوں کو چھٹا حصہ ملے گا..خواہ ایک پوتی ہو یا زیادہ ہوں..

پوتی کا مسئلہ تھوڑا پھیلا ہوا لگتا ہے..مگر یہ آسان ہے دراصل ”پوتی“ بالکل ”بیٹی“ کی جگہ آجاتی ہے..جبکہ میت کا بیٹا نہ ہو یا دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں نہ ہوں..اگر آپ کو ”بیٹی“ کا مسئلہ یاد ہوگا تو پوتی کا بھی تقریبا وہی مسئلہ ہے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 22

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ”دین“ کی ”فقہ“ نصیب فرمائیں..

آج ”ذوی الفروض“ میں سے ”سگی بہن“ کی بات ہوگی ان شاءاللہ..

”میت“ کی سگی یا حقیقی بہن وہ ہوتی ہے کہ جس کے اور ”میت“ کے ماں باپ ایک ہوں..اس بہن کو ”میراث“ میں سے کبھی حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں..

تفصیل یہ ہے..

(1) اگر ”میت“ کے ”اصول مذکر“ یعنی باپ یا دادا موجود ہوں..یا ”میت“ کے”فروع مذکر“ یعنی بیٹا یا پوتا موجود ہوں تو ”سگی بہن“ کو ”میراث“ میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا..

(”میت“ کے ”اصول مذکر“ ان مردوں کو کہتے ہیں جن سے یہ پیدا ہوا ہو..اصول معنی جڑیں اور ”فروع مذکر“ وہ مرد جو اس سے پیدا ہوئے ہیں..فروع معنی شاخیں)

(2) اگر ”میت“ کے باپ یا دادا، بیٹا یا پوتا تو نہ ہوں مگر اس کی

”فروع مؤنث“ یعنی بیٹی یا پوتی ایک یا زیادہ موجود ہوں تو سگی بہن ” عصبہ “ بن جائے گی..یعنی باقی ذوی الفروض کو دیکر جو کچھ بچے گا وہ اسے مل جائے گا..

(3) اگر ”میت“ کے ”اصول مذکر“ میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوں..یعنی نہ باپ نہ دادا اور نہ اسکی کوئی مذکر یا مؤنث اولاد تو اب ”سگی بہن“ کا حکم ”بیٹی“ والا ہوگا..ایک ہوئی تو آدھا (نصف مال) دو یا زیادہ ہوئیں تو دو تہائی یعنی ثلثان..اگر ساتھ ”حقیقی بھائی“ بھی موجود ہو تو”عصبہ“ بن جائے گی..(بیٹی کے حالات ایک بار دیکھ لیں)..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

وقفہ..

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہماری ”زندگی“ ”اوقات“ اور ”موت“ میں ”برکت“ عطاء فرمائیں..

الحمدللہ ”میراث“ کے 22 اسباق ہو چکے ہیں..کئی خوش نصیب افراد نے یاد بھی کر لئے ہیں..آج ”جمعہ المبارک“ کا دن ہے تو سوچا کہ کچھ ”وقفہ“ اور کچھ ”ترغیب“ ہو جائے..”وقفہ“ ان کے لئے جو محنت سے ”قانون میراث“ پڑھ رہے ہیں..وہ عظیم رب کے ”قانون“ میں (ایل ایل بی) کر رہے ہیں..ساتھ وہ اس نعمت پر شکر بھی ادا کر رہے ہیں کہ..

”نورانی علم“ خود ان کے گھر اور ان کی جیب تک پہنچ جاتا ہے.. یہ حضرات و خواتین آج جمعہ کے دن اپنے پچھلے اسباق ”دھرا“ لیں..یاد کرلیں..دین کے مبارک علم کا ایک سبق یاد کرنا ساری رات مصلے پر نفل عبادت میں گزارنے سے بدرجہا افضل ہے..اور ”ترغیب“ ان کے لئے ہے جن کی اب تک ”توجہ“ نہیں ہو رہی..وقت تو ان کے پاس بھی کافی ہوتا ہے مگر فضول اور نا مناسب چیزوں میں ضائع ہو جاتا ہے..ان تک ”مکتوب“ پہنچتا ہے تو سوچتے ہیں..بعد میں پڑھ لیں گے..فارغ ہوکر سمجھ لیں گے..اور یوں فرصت کے قیمتی لمحات گزر جاتے ہیں..اور نعمت کے تقسیم ہونے کا وقت ختم ہو جاتا ہے..ایسے حضرات و خواتین کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے مدد مانگیں..خوش نصیبی کی فریاد کریں..اور اپنی زندگی کو قیمتی بنائیں..میراث کا علم نہ سیکھنا قیامت کی بُری نشانیوں میں سے ہے..اب صرف پانچ سات اسباق باقی رہ گئے ہیں..آپ تمام اسباق کو سامنے رکھ کر ایک کاغذ پر..رشتہ داروں کے نام، ان کی ترتیب اور ان کے حصے لکھ لیں..پھر سب سے پہلے خود کو لیں کہ اگر میری موت آج ہوگئی تو کون کون وارث ہوگا..اور کسے کتنا حصہ ملے گا..اور کسے نہیں ملے گا..اسی طرح روز ایک دو زندہ افراد جن کے رشتہ دار آپ کو معلوم ہوں..ان کے مسئلے کی مشق کرتے رہیں..اگلے پانچ سات اسباق کے بعد آپ کے لئے ایسا صفحہ بنانا بالکل آسان ہوجائے گا..اس صفحے کو سامنے رکھ کر آپ روز مشق کرتے رہیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ ”میراث“ کے ماہر بن جائیں گے..ان شاءاللہ..اس لئے نہ تھکیں..اور نہ سستی کریں..

ہم دین کو زندہ کرنے والے بنیں گے تو..ہمیں حقیقی زندگی نصیب ہو گی..میراث سبق 23 کل پیش ہوگا ان شاءاللہ تعالیٰ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 23

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی اپنے دین کا ”علم“ نصیب فرمائیں..

آج بات ہو گی ”علاتی“ بہن کی..عربی میں باپ شریک بھائی اور بہن کو(علاتی بہن، بھائی) کہتے ہیں..

یعنی”میت“ اور اس کا”باپ“ ایک ہو جبکہ”ماں“ الگ الگ..

”علاتی بہن“ کا مسئلہ بالکل آسان ہے..اگر کسی کی ”سگی بہن“ نہ ہو تو ”باپ شریک بہن“ اس کے ”قائم مقام“ بن جائے گی..اور اس کے احکامات تقریبا سگی بہن والے احکامات ہوں گے..پھر بھی تفصیل پڑھ لیتے ہیں..

”علاتی بہن“ کو ”میراث“ میں سے کبھی حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں..

(1) اگر میت کے اصول (یعنی باپ دادا) فروع (یعنی بیٹا پوتا) حقیقی بھائی..یا حقیقی بہن (جس کے ساتھ بیٹی یا پوتی ہو)..میں سے کوئی بھی موجود ہو تو باپ شریک بہن کو میراث میں سے کچھ نہیں ملتا..

یعنی”باپ شریک بہن“ کو میراث میں شامل کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ ان مذکورہ چھ رشتہ داروں میں سے کوئی ایک بھی موجود نہ ہو..اگر کوئی ایک بھی موجود ہوا تو ”علاتی بہن“ ورثاء میں شامل نہیں ہوگی..

(2)اور اگر یہ سب موجود نہ ہوں تو ”علاتی بہن“ کا حکم

”بیٹی“ والا ہو گا..ایک ہوئی تو نصف مال..دو یا زیادہ ہوئیں تو دو تہائی مال ملے گا..

(3) اگر اوپر والے تمام رشتہ دار تو موجود نہیں ہیں مگر میت کی فروع مؤنث (یعنی بیٹی یا پوتی) موجود ہے تو ”علاتی بہن“ عصبہ بن جائے گی..

(4) اگر اوپر والے تمام رشتہ دار تو موجود نہیں ہیں مگر ”میت“ کی صرف ایک ”سگی بہن“ موجود ہو تو علاتی بہن کو چھٹا حصہ ملے گا..اور اگر میت کی دو یا زیادہ سگی بہنیں موجود ہوں تو ”علاتی بہن“ کو کچھ نہیں ملے گا..لیکن اگر ان دونوں صورتوں میں علاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی بھی موجود ہوا تو یہ”عصبہ“ بن جائے گی..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 24

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ”والدین“ کے حقوق..ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں..

آج ”ماں“ یعنی ”والدہ“ کی بات ہوگی..اگر کسی کا انتقال ہو جائے..اور اس کی ”ماں“ زندہ ہو تو ”ماں“ کو اس کی میراث میں سے ضرور حصہ ملے گا..

تفصیل یہ ہے..

(1) اگر میت کی اولاد موجود ہو..(ایک یا زیادہ) یا اس کے بھائی بہن موجود ہوں..دو یا زیادہ..تو میت کی ”ماں“ کو اس کی میراث میں سے”سُدُس“ یعنی چھٹا حصہ ملے گا..

(2) اگر میت کی کوئی اولاد موجود نہ ہو (نہ بیٹا، نہ بیٹی، نہ پوتا، نہ پوتی) اور نہ اس کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی موجود ہوں..اور نہ میت کی بیوی یا خاوند اس کے والد کے ساتھ موجود ہوں تو اس کی ”والدہ“ کو اسکی میراث کا پورا ”ثلث“ یعنی تیسرا حصہ ملے گا..

(3) اگر میت کی کوئی اولاد موجود نہ ہو..اور نہ اس کے دو یا زیادہ بہن بھائی موجود ہوں..مگر اس کی بیوی یا خاوند..اس کے والد کے ساتھ موجود ہوں تو ”والدہ“ کو بچی ہوئی میراث کا تیسرا حصہ ملے گا..مثلا ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کی اولاد نہیں ہے اور اس کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی بھی نہیں ہیں..مگر اس کا والد اور بیوی موجود ہیں تو میراث میں سے ”ذوی الفروض“ کو ان کے حصے دیکر باقی جو میراث بچے گی..اس کا تیسرا حصہ والدہ کو دیا جائے گا..یا کسی عورت کا انتقال ہوا..اس کی اولاد نہیں ہے..اور اس کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی بھی نہیں ہیں..مگر اس کا والد اور خاوند موجود ہیں تو ”والدہ“ کو بچی ہوئی میراث کا تیسرا حصہ ملے گا..

 خلاصہ

”والدہ“ کو ”میراث“ دینے کے لئے ”میت“ کی ”اولاد“ اور ”بہن بھائی“ دیکھیں..اگر یہ موجود ہوں تو ”والدہ“ کو چھٹا حصہ ملے گا..اولاد اور بہن بھائی موجود نہ ہو تو دیکھیں کہ میّت کا والد..میت کی بیوی یا خاوند کے ساتھ موجود ہے یا نہیں..اگر موجود ہو تو ”والدہ“ کو بچی ہوئی میراث کا تیسرا حصہ ملے گا..یعنی میت کے خاوند یا بیوی کو دینے کے بعد جو بچے گا اس کا تیسرا حصہ..اور اگر اولاد بھی نہ ہو، دو یا زیادہ بہن بھائی بھی نہ ہوں اور والد بھی خاوند یا بیوی کے ساتھ موجود نہ ہو تو ”والدہ“ کو پوری میراث کا تیسرا حصہ ملے گا..مثلاً میت کی صرف بیوی موجود ہے ساتھ والد نہیں ہے..یا خاوند موجود ہے ساتھ والد نہیں ہے..یا والد موجود ہے مگر خاوند یا بیوی موجود نہیں ہے..تو والدہ کو تیسرا حصہ ملے گا..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 25

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی نے ”بزرگوں“، ”بڑوں“ میں برکت رکھی ہے..

آج ”دادی“ اور ”نانی“ کی بات ہوگی..ان شاءاللہ..”دادی“ اور ”نانی“ کو کبھی ”وراثت“ سے حصہ ملتا ہے اور کبھی نہیں.. تفصیل یہ ہے..

(1) اگر کسی کا انتقال ہو جائے اور اس کی دادی یا نانی زندہ ہو..مگر ”میت“ کی ”ماں“ موجود نہ ہو تو دادی یا نانی کو اس کی میراث میں سے ”سُدُس“ یعنی چھٹا حصہ ملے گا..اگر دادی اور نانی دونوں زندہ ہوں تو دونوں کو اکٹھا ”سُدُس“  یعنی چھٹا حصہ ملے گا..جو وہ آپس میں تقسیم کر لیں گی..

(2) اگر ”میت“ کی ”والدہ“  زندہ ہو تو دادی اور نانی کو کچھ نہیں ملتا..

(3) اگر ”میت“ کا ”والد“ زندہ ہو (والدہ زندہ نہ ہو) تو دادی کو کچھ نہیں ملے گا البتہ ”نانی“ کو چھٹا حصہ ملے گا..(دادی اور نانی کا آسان اور عملی مسئلہ مکمل ہوا) ”دادی“ کہتے ہیں ”باپ“ کی ”والدہ“ کو اور ”نانی“ کہتے ہیں ”ماں“ کی ”والدہ“ کو.. عربی میں ان دونوں کو ”جدّہ صحیحہ“ کہتے ہیں..

”جدّہ“ کا مسئلہ بہت دور تک جاتا ہے..مثلا دادی نہ ہو تو دادا کی ماں..پھر دادی کی ماں، پھر پردادا کی ماں، پھر پردادی کی ماں وغیرھا..یہ سب جدّہ کہلاتی ہیں..اور نانی کے بعد ماں کی نانی..اور نانی کی نانی بھی ”جدّہ“ کہلاتی ہے..اگر قریب کی ”جدّہ“ موجود نہ ہو تو پھر اُس کے بعد والی ”جدّہ“ وارث ہوگی..کتابوں میں یہ مسئلہ بہت تفصیل سے لکھا ہوتا ہے..آپ وہ دیکھ کر گھبرا نہ جائیں،اس لئے اشارہ کردیا..ورنہ آج کل کی خوراک اور موسم میں کہاں اتنی دور دور والی ”دادیاں“ ”نانیاں“ پائی جاتی ہیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 26

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کا ”شکر“ ہے کہ..بارہ ”ذوی الفروض“ کی تفصیل ہم نے آسانی سے پڑھ لی..

اب ”عصبات“ کا بیان ہو گا..اور وہ اتنا آسان ہے کہ صرف ایک ”سبق“ سے ہی آپ پورا سمجھ لیں گے ان شاءاللہ..”عصبات“ کے بعد ”ذوی الارحام“ کا مسئلہ اور زیادہ آسان ہے..وہ بھی آپ ایک ”سبق“ سے سمجھ لیں گے ان شاءاللہ..یعنی اب ”میراث“ کے ضروری علم کو سمجھنے کے لئے..آپ کو صرف ”دو اسباق“ کی ضرورت ہے..مگر اُن دو ”اسباق“ سے پہلے ”ذوی الفروض“ کے بعض خلاصے پیش کئے جارہے ہیں..یہ آپ کے بہت کام آ سکتے ہیں..ان شاءاللہ..

ہم نے پڑھ لیا کہ..بعض ورثاء کو نصف یعنی ساری میراث کا آدھا مال ملتا ہے..بعض کو ”ربع“ یعنی مال کا چوتھا حصہ وغیرہ..

اس طرح وہ حصے جو مختلف ”ورثاء“ کو ملتے ہیں کل چھ ہیں..

(1) نصف آدھا (2) رُبُع یعنی چوتھائی (3) ثُمُن یعنی آٹھواں (4) ثُلُث یعنی ایک تہائی (5) ثُلثان یعنی دو تہائی (6) سُدُس یعنی چھٹا حصہ..

اب ہم دو فہرستیں بنائیں گے..پہلی فہرست کہ کونسا حصہ کس کس رشتہ دار کو ملتا ہے..اور دوسری فہرست کہ کون سے رشتہ دار کو کون کون سا حصہ مل سکتا ہے..

 پہلی فہرست

(1) نصف

یعنی ساری میراث کا آدھا حصہ یہ پانچ رشتہ داروں کو مل سکتا ہے..

• خاوند • بیٹی • پوتی • سگی بہن • باپ شریک بہن..

مثلاً خاوند کو نصف یعنی آدھی میراث تب ملتی ہے جب میت کی اولاد نہ ہو..باقی چار کو اسباق میں دیکھ لیں کہ ان کو ”نصف“ کب ملتا ہے..

(2) ربع

یعنی ساری میراث کا چوتھا حصہ..یہ دو رشتہ داروں کو مل سکتا ہے..

• خاوند • بیوی

(3) ثمن

یعنی میراث کا آٹھواں حصہ..یہ صرف ایک رشتہ دار کو ملتا ہے..اور وہ ہے ”زوجہ“ یعنی ”بیوی“

(4) ثُلُث

 یعنی ترکے کا تیسرا حصہ..یہ دو رشتہ داروں کو مل سکتا ہے..

•ماں •ماں شریک بھائی اور ماں شریک بہن جب دو یا دو سے زیادہ ہوں..

(5) ثلثان

یعنی ترکے کا دو تہائی حصہ..یہ چار رشتہ داروں کو مل سکتا ہے..

• بیٹی • پوتی • سگی بہن • باپ شریک بہن..

(6) سدس

یعنی ترکے کا چھٹا حصہ..یہ آٹھ رشتہ داروں کو مل سکتا ہے..

• باپ • دادا • ماں شریک بھائی • ماں شریک بہن • پوتی • باپ شریک بہن • ماں • دادی، نانی..

اب آپ اپنے اسباق کھول کر دیکھتے جائیں کہ..کس رشتہ دار کو کس حالت میں یہ حصے ملیں گے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 27

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی کی توفیق سے آج دوسری ”فہرست“ بنائیں گے کہ..”ذوی الفروض“ یعنی مقرر حصوں والے بارہ رشتہ داروں کو..مختلف حالات میں کون کون سے حصے مل سکتے ہیں..ہم نے پڑھ لیا کہ حصے کل چھ ہیں..

(1) نصف (2) ربع (3) ثمن(4) ثلث (5) ثلثان (6) سدس..

(1) باپ۔۔۔۔۔۔ان کو ”سدس“ ملتا ہے جب میت کی اولاد موجود ہو..

(2) دادا۔۔۔۔۔۔ان کو بھی”سدس“ ملتا ہے، جب میت کا باپ نہ ہو اور اولاد موجود ہو..

(3) ماں شریک بہن بھائی۔۔۔۔۔۔ان کو کبھی ”ثلث“ کبھی ”سدس“ تفصیل اسباق میں دیکھ لیں..

(4) خاوند۔۔۔۔۔۔کبھی نصف کبھی ربع

(5) بیوی۔۔۔۔۔۔کبھی ربع..کبھی ثمن

(6) بیٹی۔۔۔۔۔۔کبھی نصف کبھی ثلثان (دو تہائی)

(7) پوتی۔۔۔۔۔۔کبھی نصف کبھی سدس کبھی ثلثان

(8) سگی بہن۔۔۔۔۔۔کبھی نصف، کبھی ثلثان

(9) باپ شریک بہن۔۔۔۔۔۔کبھی نصف، کبھی سدس، کبھی ثلثان

(10) ماں۔۔۔۔۔۔کبھی ثلث، کبھی سدس، کبھی ثلث باقی (یعنی بچے ہوئے مال کا ایک تہائی)

(11) دادی، نانی۔۔۔۔۔۔سدس..

 ملاحظہ

فہرست میں نمبرات 11 لگے ہیں..کیونکہ ماں شریک بھائی اور ماں شریک بہن کو اکٹھا نمبر 3 میں لکھ دیا ہے..

الحمدللہ دو فہرستیں مکمل ہو گئیں..”ذوی الفروض“ کے مزید بھی کچھ مزیدار خلاصے ہیں..جن کو یاد کرنے سے ”علم میراث“ آسان ہو جاتا ہے..مگر آپ کو آخری دو اسباق کا شدت سے انتظار ہو گا..”عصبات“ اور ”ذوی الارحام“..کل ہم ”عصبات“ پڑھیں گے ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

 

<مکتوب خادم>

میراث 28

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہر مسلمان ”خاندان“ کو دین پر ”مضبوطی“ عطاء فرمائیں..آج ”عصبہ“ کی بات ہوگی..جسم کے ”پٹھے“ کو بھی ”عصبہ“ کہا جاتا ہے..یہ کسی بھی خاندان کے اہم افراد ہوتے ہیں..انہی سے خاندانوں کو طاقت ملتی ہے..

 عصبہ

میت کے وہ رشتہ دار جو ”مرد“ ہوں اور کسی ”مرد“ کے واسطے سے ”میت“ کے رشتہ دار ہوں..وہ میت کے ”عصبہ نسبی“ کہلاتے ہیں..

”عصبہ“ کے چار طبقے ہیں:-

(1) میت کے اپنے فروع، جز..یا یوں کہیں کہ میت کی اپنی نسل..

• بیٹا • پوتا • پڑپوتا..

(2) میت کے اصول..یعنی جن سے یہ پیدا ہوا..

• باپ • دادا • پردادا..

(3) میت کے والد کی نسل..

• حقیقی بھائی • باپ شریک بھائی • حقیقی بھائی کے بیٹے • باپ شریک بھائی کے بیٹے..

(4) میت کے دادا کی نسل..

• حقیقی چچا • باپ شریک چچا • حقیقی چچا کے بیٹے• باپ شریک چچا کے بیٹے..

 عصبات کا حکم

 وراثت میں ”عصبات“ کا حکم یہ ہے کہ ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے..”ذوی الفروض“ کو ان کے حصے دینے کے بعد جو مال بچے گا وہ ”عصبات“ میں تقسیم ہوگا..اگر ”ذوی الفروض“ میں سے کوئی زندہ نہ ہو تو سارا مال عصبات کو ملے گا..اور اگر ”ذوی الفروض“ میں تقسیم کرنے کے بعد کچھ نہ بچے تو ”عصبات“ کو کچھ بھی نہیں ملے گا..

 عصبات میں تقسیم اور ترتیب

عصبات کے چار طبقے ہیں..ان میں سے ہر اوپر والا طبقہ نیچے والے تمام طبقات کو میراث سے محروم کر دیتا ہے..

مثلا طبقہ اول بیٹا یا پوتا موجود ہوں تو نیچے کے تین طبقات کی چھٹی..پہلے طبقے والے موجود نہ ہوں..یعنی بیٹا یا پوتا موجود نہ ہوں تو دوسرا طبقہ حقدار بنے گا تب تیسرا چوتھا طبقہ وراثت سے محروم ہو جائے گا..یہی ترتیب آخر تک چلے گی..پھر ہر طبقے میں پہلا فرد..اپنے بعد والے افراد کو ”محروم“ کر دے گا..مثلا بیٹا موجود ہے تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا..پوتا موجود ہے تو پڑپوتے کو کچھ نہیں ملے گا..پہلے طبقے والے موجود نہ ہوں تو دوسرے میں بھی یہی ترتیب چلے گی..باپ موجود ہوگا تو دادا کو کچھ نہیں ملے گا..یہی ترتیب آخر تک چلے گی..ہاں اگر ایک ہی طبقے کے ایک ہی نمبر میں کئی افراد ہوں تو ان سب کو برابر حصہ ملے گا..مثلا پہلے طبقے میں پہلے نمبر پر کئی بیٹے ہوں تو سب کو میراث ملے گی..بیٹے نہ ہوں..مگر کئی پوتے ہوں تو ان سب کو میراث ملے گی..یہی معاملہ ہر جگہ چلے گا..مثلا ایک بھائی..یا زیادہ بھائی..ایک چچا یا زیادہ چچا..

 خلاصہ

ذوی الفروض سے جو مال بچے گا وہ ”عصبات“ کو مل جائے گا.. مگر ”عصبات“ اس ترتیب سے وارث ہوں گے..پہلے نمبر (1) والے وہ نہ ہو تو نمبر (2) والے وہ نہ ہو تو نمبر (3) والے اسطرح آخر تک..

ترتیب یہ ہے:

(1) بیٹا (2) پوتا (3) باپ (4) دادا (5) سگا بھائی (6) باپ شریک بھائی (7) سگے بھائی کے بیٹے (8) باپ شریک بھائی کے بیٹے (9) سگا چچا (10) باپ شریک چچا (11) سگے چچا کے بیٹے (12) باپ شریک چچا کے بیٹے..ہر پہلے نمبر والا..اپنے بعد والے تمام نمبرات کو محروم کردے گا..

 ضروری بات

عصبات میں رشتہ داری دور تک چلتی ہے..مثلا پوتا نہ ہو تو پڑپوتا وہ نہ ہو تو اس کا بیٹا..اسی طرح دادا نہ ہو تو پردادا وہ نہ ہو تو ان کا والد..یہی معاملہ سب عصبات میں ہے..آج کل عمریں زیادہ نہیں ہوتیں..اس لئے ہم نے معاملے کو دور تک نہیں کھینچا..

 سؤال

آپ کہیں گے کہ..پہلے طبقے میں سے بیٹا موجود ہو تو دوسرے طبقے والے محروم ہوتے ہیں..مگر صورتحال یہ ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی ”باپ“ کو حصہ ملتا ہے..جواب یہ ہے کہ باپ کو ”ذوی الفروض“ ہونے کی وجہ سے حصہ ملتا ہے عصبہ ہونے کی وجہ سے نہیں..یہاں یہی بتایا جا رہا ہے کہ ”باپ“ بیٹے کے ہوتے ہوئے ”عصبہ“ نہیں رہے گا..اس کے ”ذوی الفروض“ ہونے کی حیثیت باقی رہتی ہے..دیکھا آپ نے ”عصبات“ کی بحث کتنی آسان ہے ماشاء اللہ..مغرب سے جمعہ شریف اور مقابلہ حسن مرحبا..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

 

<مکتوب خادم>

میراث 29

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ”صلہ رحمی“ کو پسند فرماتے ہیں..

”میراث“ کی تقسیم اسطرح ہوتی ہے کہ..سب سے پہلے”ذوی الفروض“ کو ان کے ”حصے“ دیئے جاتے ہیں..ان سے اگر مال بچ جائے ”عصبات“ کو دیا جاتا ہے..اور اگر کسی کے ”عصبات“ موجود نہ ہوں تو بچا ہوا مال..پھر ”ذوی الفروض“ میں بانٹ دیا جاتا ہے..(سوائے خاوند اور بیوی کے)..لیکن اگر کسی ”میت“ کے ”ذوی الفروض“ بھی نہ ہوں..”عصبات“ بھی نہ ہوں..تو اب اس کا سارا مال اس کے ”ذوی الارحام“ رشتہ داروں میں تقسیم ہوگا..یا کسی میت کے ”ذوی الفروض“ میں سے صرف خاوند یا بیوی ہوں..اور عصبات بالکل نہ ہوں تو خاوند یا بیوی کا حصہ دیکر باقی سارا مال ”ذوی الارحام“ میں تقسیم ہوگا..

 ”ذوی الارحام“

”ذوی“ معنیٰ والے..”الارحام“ جمع ہے ”رحم“ کی..”رحم“ ماں کے پیٹ میں بچے کے بننے اور رہنے کی جگہ..یہ وہ رشتہ دار ہیں..جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں..اور ”میراث“ میں ان کا نمبر بہت دور ہے..عام طور سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا..ان کے بھی چار طبقے ہیں..

(1) میت کی اپنی وہ نسل جو نہ ”ذوی الفروض“ ہے، نہ ”عصبات“..جیسے نواسا، نواسی وغیرہ..

(2) میت کے وہ ”اصول“ جو نہ ”ذوی الفروض“ ہیں، نہ ”عصبات“..جیسے نانا..یا دادی کا باپ وغیرہ..

(3) میت کے ماں، باپ کی وہ نسل جو نہ ”ذوی الفروض“ ہے نہ ”عصبات“..جیسے بھانجا، بھانجی، بھتیجی وغیرہ..

(4) دادا، دادی اور نانی کی وہ اولاد جو نہ ”ذوی الفروض“ ہے نہ ”عصبہ“..جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں، باپ کا ماں شریک بھائی..

 ترتیب اور تقسیم

”ذوی الارحام“ میں جب تک پہلے طبقے والے موجود ہوں بعد والے طبقات کو کچھ نہیں ملتا..اور ایک طبقے کے رشتہ داروں میں بھی جو میت کے زیادہ قریب ہو اسے میراث ملتی ہے اور اس کے بعد والے محروم رہتے ہیں..

سب سے پہلے طبقہ اول کو لیں گے..اگر اس طبقہ کے رشتہ دار موجود ہوئے تو باقی تینوں طبقات کی چھٹی..اگر پہلے طبقے والے موجود نہ ہوئے تو دوسرا طبقہ مستحق ہوگا..اور اس کے بعد والے دو طبقے محروم..اسی طرح آخر تک ترتیب چلے گی..پھر جو طبقہ وارث ہوگا..اسمیں جو رشتہ دار زیادہ قریب والا ہو گا..وہ مستحق ہوگا..اور اس کے بعد والے سب محروم..قریب سے مراد وہ ہے جس کے اور میت کے درمیان واسطے کم ہوں گے..

جیسے بیٹی کی نواسی بھی موجود ہو اور پوتی کی نواسی بھی تو بیٹی کی نواسی کو میراث ملے گی..

 مشکل اور آسان

میراث میں”ذوی الارحام“ کا مسئلہ یاد رکھنا مشکل ہے..مگر چونکہ ان کا نمبر اکثر آتا ہی نہیں..اس لئے یہ مسئلہ آسان ہے کہ اس کے موٹے موٹے قوانین یاد رکھے جائیں جو کہ آج کے مکتوب میں آگئے ہیں الحمدللہ..اور وراثت کی ترتیب سے ”ذوی الارحام“ کی جامع فہرست میراث (15) میں گزر چکی ہے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 30

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی علم و حکمت عطاء فرمائیں..آج ”علم فرائض“ یعنی ”علم میراث“ کے دو اہم مسائل یاد کرلیں..یہ ”مسائل“ بہت ضروری اور بہت آسان ہیں..

 مسئلہ رد

اگر میت کے ”ذوی الفروض“ میں ان کے حصے تقسیم کرنے کے بعد بھی ”مال“ بچ جائے تو کیا کریں گے؟..اگر ”عصبات“ موجود ہوں تو بچا ہوا سارا مال ان کو دے دیں گے..لیکن اگر ”عصبات“ موجود نہ ہوں تو اس مال کا کیا کریں گے؟..جواب یہ ہے کہ یہ مال دوبارہ ”ذوی الفروض“ میں اُن کے اصل حصوں کے تناسب سے بانٹ دیں گے..مثلاً ایک شخص کا انتقال ہو گیا..اس کا کل ترکہ (یعنی چھوڑا ہوا مال) تیس ہزار روپے ہے..اس کے ورثاء میں صرف اسکی ماں اور اسکی بیٹی ہے..اب ہم نے شرعی قانون کے مطابق چھٹا حصہ یعنی پانچ ہزار ماں کو دے دئیے..اور نصف یعنی آدھی میراث پندرہ ہزار روپے بیٹی کو دے دئیے..اب دس ہزار باقی ہیں..کوئی ”عصبہ“ بھی موجود نہیں تو اب یہ دس ہزار بھی انہی دو ”ذوی الفروض“ یعنی ماں اور بیٹی کو دے دیا جائے گا..ماں کا حصہ سدس تھا اور بیٹی کا نصف..نصف یعنی آدھا مال..سدس یعنی چھٹے حصے سے تین گنا بڑا ہوتا ہے..تو دونوں میں نسبت 1 اور 3 کی ہوئی..چنانچہ باقی کے دس ہزار کو چار حصے بنا کر ایک حصہ ماں کو اور تین حصے بیٹی کو دے دیں گے..اسطرح کے مسئلے کو ”رَدّ“ کہتے ہیں..یعنی لوٹانا..اسمیں بس یہ خیال رہے کہ بچا ہوا مال تمام موجود ”ذوی الفروض“ میں لوٹائیں گے..سوائے خاوند اور بیوی کے..ان کو بچا ہوا مال دوبارہ نہیں ملے گا..تب بچے ہوئے مال کے لئے ”ذوی الارحام“ میں سے حقدار کو تلاش کریں گے..

 مسئلہ عول

اگر کسی میت کے ”ذوی الفروض“ رشتہ دار زیادہ ہوں..اگر ان سب کو ان کے شرعی حصے دئیے جائیں تو مال پورا نہ پڑتا ہو..کم ہو..تو ایسی صورت میں ہر ایک کی میراث میں سے کچھ کٹوتی ہو جائے گی..اور ہر ایک کی کٹوتی اس کے اصل حصے کے تناسب سے ہو گی..مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا..اسکی کل میراث تیس ہزار روپے ہے..اور اس کے ورثاء میں.. باپ، ماں، بیوی اور تین بیٹیاں ہیں..باپ کو چھٹا حصہ پانچ ہزار..ماں کو چھٹا حصہ پانچ ہزار..تین بیٹیوں کو دو تہائی..

یعنی بیس ہزار اور بیوی کو آٹھواں حصہ یعنی تین ہزار سات سو پچاس دیں تو..تقسیم شدہ رقم زیادہ ہو گی..جبکہ مال کم ہے..اب اسمیں”عول“ ہو گا یعنی کٹوتی..چنانچہ کل مال کے”ستائیس“ حصے بنائیں گے..چار حصے باپ کو..چار ماں کو..تین بیوی کو اور سولہ بیٹیوں کو مل جائیں گے..اسطرح سب کا حصہ تھوڑا تھوڑا کم ہو گیا..تیس ہزار بھی تقسیم ہو گئے..اور کمی کسی ایک کے سر نہیں آئی..آپ میں سے جو پہلے میراث پڑھے ہوئے نہیں ہیں وہ یقیناً تقسیم کے اس طریقے کو نہیں سمجھے ہوں گے..لیکن اگر پڑھتے رہے تو سمجھ جائیں گے ان شاءاللہ..اصل مقصد تو سب ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ..بعض اوقات ”ذوی الفروض“ کو ان کے مقرر حصوں سے زیادہ ملتا ہے اسے”رد“ کہتے ہیں..اور بعض اوقات مقرر حصوں سے کم ملتا ہے اسے”عول“ کہتے ہیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 31

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہم سب کو ”صدقات جاریہ“ کی توفیق عطاء فرمائیں..

اگر کسی کا انتقال ہو جائے اور اس کا کوئی وارث ابھی ”حمل“ کی صورت میں ہو..تو اس کے حصے کا کیا بنے گا؟..مثلاً کسی کا انتقال ہوا اور اس کی بیوی ”حمل“ سے ہے..یہ حمل یا تو بیٹا ہو گا یا بیٹی..اور بیٹا بیٹی کو میراث ضرور ملتی ہے..تو ایسی حالت میں بہتر تو یہی ہے کہ..بچہ پیدا ہونے تک ”میراث“ کی تقسیم  روک دی جائے..کیوں کہ معلوم نہیں کہ بیٹا ہو گا یا بیٹی..بیٹا ہو تو وہ بہت سے ”ذوی الفروض“ کو میراث سے محروم کر دیتا ہے..اس لئے ”تقسیم“ کو ملتوی رکھا جائے.. لیکن اگر ”ورثاء“ انتظار نہ کریں اور فوری تقسیم کرنا چاہیں تو اس ”حمل“ کو بیٹا قرار دے کر.. میراث تقسیم کر دی جائے..اور اس ”حمل“ کے لئے ”بیٹے“ کا حصہ نکال کر محفوظ رکھ لیا جائے..پھر اگر ”بیٹا“ ہی پیدا ہوا تو..پہلی تقسیم درست قرار دے دی جائے گی..لیکن اگر ”بیٹی“ پیدا ہوئی تو اسے ”بیٹی“ والا حصہ دے دیا جائے گا..اور پہلی تقسیم میں اس کو بیٹا قرار دینے کی وجہ سے جو رشتہ دار محروم ہوئے تھے..یا جن کو کم حصہ ملا تھا..ان کا حق ان کو دے دیا جائے گا..اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوا تو اسے میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا..

 الحمدللہ

میراث کا ضروری علم آپ نے پڑھ لیا  اسی پر مکتوبات کا یہ سلسلہ مکمل ہوا..آپ اتنے ”علم“ سے بھی کافی کام چلا سکتے ہیں..لیکن اگر آپ میراث کی تقسیم کا ”فنی طریقہ“ بھی سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو مزید پانچ سات اسباق پڑھنے کی ضرورت ہے..آپ میں سے جو سیکھنا چاہیں وہ اپنا نام بھیج کر ”باقاعدہ داخلہ“ لیں..اگر داخلے والوں کی خاطر خواہ تعداد آگئی تو مکتوبات کا وہ سلسلہ بھی شروع کر دیا جائے گا ان شاءاللہ..فی الحال آپ اپنے ان اسباق کو پکا کریں..ان کی بار بار مشق کریں..آپ نے ”مکتوبات میراث“ میں جو کچھ پڑھ اور سیکھ لیا ہے..ان کی مدد سے آپ عمومی طور پر پیش آنے والے.. نوے فی صد مسائل خود حل کر سکتے ہیں ان شاء اللہ تعالی..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 32

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں ”خیر کثیر“ عطاء فرمائیں..

میراث کے ”اسباق“ کا دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے..اسمیں ہم ان شاءاللہ میراث کی تقسیم کا وہ فنی طریقہ سیکھیں گے جس کی بدولت منٹوں میں میراث کی تقسیم طئے ہو جاتی ہے..مگر اس سے پہلے کچھ ایسے ”خلاصے“ پڑھ لیتے ہیں جن کو یاد کرنے سے ”علم میراث“ آسان ہو جاتا ہے..

 تعریف

• علم میراث وہ علم ہے جس کے ذریعہ میت کا چھوڑا ہوا مال اس کے شرعی ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے..

• اس علم کا نام علم الفرائض..علم المواریث..اور علم میراث بھی ہے..

• اس علم میں شریعت کے چند قوانین اور حساب کے چند قواعد سیکھے جاتے ہیں..

 فضیلت

یہ بہت ”عالیشان“ افضل اور ضروری علم ہے اور اس علم کو مکمل سیکھنا فرض کفایہ ہے..اور یہ علم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہونے کا شرف رکھتا ہے..اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ علم سیکھنے کا حکم فرمایا ہے..

 موضوع

اس علم کا موضوع..میت کا چھوڑا ہوا مال..اور اس کے ورثاء ہیں..(یعنی اس علم میں ان دو چیزوں پر بات کی جاتی ہے)

 غرض و غایت

اس علم کا مقصد یہ ہے کہ ہر وارث کو اس کا حق مل جائے اور مال کی تقسیم میں غلطی نہ ہو..

 اسباب

کوئی کسی کا وارث کیوں بنتا ہے؟ اس کے تین اسباب ہیں..

(1) نسب یعنی خونی رشتہ داری

(2) نکاح

(3) ولاء..یہ تیسرا سبب اس زمانے میں فی الحال موجود نہیں ہے..

 موانع

میراث سے محروم کرنے والی چیزیں (یعنی موانع) تین ہیں..

(1) قتل

(2) غلام ہونا

(3) دین کا اختلاف یعنی کافر ہونا..ایک چوتھا سبب بھی ہے وہ ہے ملک اور سلطنت کا اختلاف وہ فی الحال اس زمانے میں موجود نہیں..

 شروط

میراث جاری ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں..

(1) مُو٘رِث٘ کی وفات..یعنی جس کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اس کا مرنا ضروری ہے،زندگی میں کسی کا مال”میراث“نہیں بنتا..

(2) وارث کی حیات..یعنی وارث صرف وہی بنے گا جو”مُو٘رِث٘“ کی وفات کے وقت زندہ ہوگا..

(3) مُو٘رِث٘ اور وارث کے درمیان خونی رشتہ داری یا نکاح کا ثابت ہونا..اور میراث سے محروم کرنے والی چیزوں کا موجود نہ ہونا..

 ذوی الفروض

وہ رشتہ دار جن کے حصے شریعت نے مقرر فرمائے.. ہیں..ذوی الفروض بارہ ہیں..

 چار مرد  

خاوند، باپ، دادا، ماں شریک بھائی..

 آٹھ عورتیں

بیوی، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن، ماں اور دادی نانی..

 ترتیب

میت کے مال کو خرچ کرنے کی ترتیب یہ ہے..

(1) تجہیز و تکفین..

(2) قرض کی ادائیگی..

(3) تہائی مال میں وصیت کا اجراء..

(4) ورثاء میں تقسیم..

 لازمی ورثاء

وہ ورثاء جن کو ضرور میراث ملتی ہے پانچ ہیں..

(1) بیٹا (2) بیٹی (3) بیوی یا خاوند (4) باپ (5) ماں..

ان کے علاوہ باقی ورثاء کو کبھی میراث ملتی ہے کبھی نہیں..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 33

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہر مشکل آسان فرمائیں..

کسی کی بھی میراث تقسیم کرنی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ..اُسکی اولاد موجود ہے یا نہیں..اولاد بیٹے ہیں یا بیٹیاں..در اصل اولاد کے ہوتے ہوئے بہت سے رشتہ دار میراث سے محجوب (محروم) ہو جاتے ہیں..”میت کا بیٹا“ اگرچہ ”ذوی الفروض“ میں سے نہیں ہے..مگر اسے میراث ضرور ملتی ہے.. کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے ”ذوی الفروض“ میں سے اکثر افراد محروم ہو جاتے ہیں..اور کئی افراد کا حصہ کم ہو جاتا ہے..یوں بیٹے کو میراث ضرور مل جاتی ہے..آئیے تقسیم شروع کرتے ہیں..

(1) اگر کسی ”میت“ کے ذوی الفروض میں سے صرف ایک رشتہ دار موجود ہو اور باقی عصبات ہوں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ..مسئلے کی تقسیم اُسی ایک ذی الفرض رشتہ دار کے عدد سے کردیں گے..

مثلاً..ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کی بیوی اور ایک بیٹا موجود ہے..”بیوی“ ذوی الفروض میں سے ہے..اور یہاں اس کا حصہ ثمن (یعنی آٹھواں حصہ) بنتا ہے تو سارے مال کے آٹھ حصے بنائیں گے..ایک حصہ بیوی کو مل جائے گا..اور باقی سات حصے بیٹے کو دے دیں گے..

 سؤال:  ایک عورت کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں خاوند اور ایک بیٹا ہے..مال تقسیم کریں..

 جواب:  خاوند ذوی الفروض میں سے ہے اور یہاں اس کا حصہ ربع یعنی چوتھا بن رہا ہے تو کل مال کے چار حصے کریں گے..ایک حصہ خاوند کو اور تین حصے بیٹے کو مل جائیں گے.. مغرب سے جمعہ شریف مقابلہ حسن مرحبا!..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 34

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہمیں قیمتی علم عطاء فرمائیں..

اگر کسی میت کے ”ذوی الفروض“ رشتہ دار موجود نہ ہوں..البتہ عصبات موجود ہوں تو دیکھیں گے کہ ”عصبات“ میں سے کتنے افراد وارث بن رہے ہیں..بس ان افراد کو شمار کر لیں گے..اور اُسی عدد سے میراث تقسیم کر دیں گے..مثلاً میت کے ورثاء میں صرف تین بیٹے ہیں..تو کُل میراث کے تین حصے کردیں گے..اور ہر بیٹے کو ایک حصہ مل جائے گا..اور اگر وارث بننے والے عصبات میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں تو ہر مرد کو دو گنیں گے اور ہر عورت کو ایک..پھر جتنا عدد بنے گا اتنے حصے بنا کر ہر مرد کو دو حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ دے دیں گے.. مثلاً کسی  کا انتقال ہوا..اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں..اب ہر بیٹے کو دو شمار کریں اور ہر بیٹی کو ایک تو عدد نکلے گا نو (9)..اب ساری میراث کے نو حصے کرکے ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دے دیں گے..

 سؤال:  ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں چھ بیٹے، چھ بیٹیاں،ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں..

 جواب:  کل مال کے اٹھارہ حصے کریں گے..ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا جبکہ بھائی کو کچھ نہیں ملے گا..

 سؤال:  ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس کے والد اور پانچ بیٹے ہیں..تقسیم کریں..

 جواب:  والد چونکہ اس مسئلہ میں ذوی الفروض میں سے ہے اس لئے پہلے اس کا حصہ نکالیں گے جو کہ سدس یعنی چھٹا حصہ بنتا ہے..اور مسئلہ بھی اسی عدد سے حل کریں گے کہ سارے مال کے کل چھ حصے بنائیں گے..ایک حصہ والد کو اور باقی پانچ حصے بیٹوں کو مل جائیں گے..

 سؤال:  ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں تین بیٹے چھ پوتے ایک سگا بھائی اور ایک چچا موجود ہیں تقسیم کریں..

 جواب:  کل مال کے تین حصے کریں گے..ہر بیٹے کو ایک حصہ مل جائے گا..جبکہ پوتے، بھائی اور چچا کو کچھ نہیں ملے گا..

 سؤال: ایک عورت کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں خاوند اور والد ہیں.. تقسیم کریں..

 جواب:  خاوند ذوی الفروض میں سے ہے اور میت کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اس کا حصہ نصف 1/2 یعنی آدھا ہے..جبکہ باپ یہاں عصبہ ہے.. چنانچہ مال کے دو حصے کریں گے..ایک حصہ خاوند کو اور ایک باپ کو مل جائے گا..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 35

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ ہی علم عطاء فرمانے والے ہیں..

ہم نے پڑھ لیا کہ ”ذوی الفروض“ کو جو حصے ملتے ہیں وہ کُل چھ ہیں..کسی کو آدھا ملتا ہے یعنی نصف..کسی کو چوتھائی ملتا ہے یعنی ربع..کسی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے یعنی ثمن..کسی کو ایک تہائی ملتا ہے یعنی ثلث..کسی کو دو تہائی ملتا ہے یعنی ثلثان..اور کسی کو چھٹا ملتا ہے یعنی سدس..

اب ہم ان حصوں کو دو قسموں میں کرلیتے ہیں..

 پہلی قسم

نصف یعنی 1/2

ربع یعنی    1/4

ثمن یعنی   1/8

 دوسری قسم

ثلث یعنی   1/3

ثلثان یعنی 2/3

سدس یعنی 1/6

 خلاصہ

جس کو نصف ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے دو (2) جس کو ربع ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے چار (4) اور جس کو ثمن ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے آٹھ 8..

یہ ہوئی پہلی قسم..

جس کو ثلث ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے تین (3)..جس کو ثلثان ملتے ہیں اس کا عدد بھی تین (3) اور جس کو سدس ملتا ہے اس کا عدد ہوتا ہے چھ (6)..

اگر تمام ورثاء ایک ہی قسم کے ہوں تو سب سے چھوٹے حصے (یعنی سب سے بڑے عدد) سے مسئلہ بنا کر تقسیم کریں گے..

 تفصیل

اب قاعدہ یہ ہے کہ اگر تمام ورثاء ایک ہی قسم کے ہوں تو جو سب سے کم حصہ والا ہوگا اسی کے حصہ سے مسئلہ بنا کر میراث تقسیم کردیں گے..مثلاً تمام ورثاء اگر پہلی قسم والے ہوں کوئی نصف والا کوئی ربع والا کوئی ثمن والا تو سب سے کم حصہ چونکہ ”ثمن“ ہے تو میراث کے آٹھ حصے کرکے سب میں تقسیم کردیں گے..جیسے کسی عورت کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس کا خاوند ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہے..خاوند کا حصہ ربع ہے1/4..بیٹی کا حصہ نصف ہے 1/2 جبکہ بھائی عصبہ ہے..اب دونوں ذوی الفروض پہلی قسم سے ہیں..اور اس میں خاوند کا حصہ کم ہے تو مسئلہ چار سے بنائیں گے..سارے مال کے چار حصے کئے جائیں گے ایک حصہ خاوند کو دو حصے بیٹی کو ایک حصہ بھائی کو مل جائے گا..

 سؤال:  ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں بیوی، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہے تقسیم کریں..

 جواب:  بیوی کا حصہ 1/8 بیٹی کا حصہ 1/2.. مسئلہ آٹھ سے بنائیں گے..یعنی کل مال کے آٹھ حصے کریں گے..ایک حصہ بیوی کو چار حصے بیٹی کو اور باقی بھائی کو مل جائیں گے..یعنی تمام ورثاء اگر 1/2 1/4 1/8 والے ہوئے تو مسئلہ 8 سے بنائیں گے..اگر تمام ورثاء 1/2 1/4 والے ہوئے تو مسئلہ چار سے بنائیں گے..یعنی سب سے کم حصے سے جو دیکھنے میں سب سے بڑا عدد لگتا ہے..

 دوسری قسم کی مثالیں

اگر تمام ورثاء ”ثلث“ ثلثان اور سدس والے ہوئے تو سب سے کم حصہ چھٹا ہے یعنی 1/6 تو مسئلہ چھ سے بنائیں گے..

مثلاً کسی کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس کی ماں، دو ماں شریک بھائی اور ایک سگا بھائی موجود ہیں تو ماں کا حصہ سدس 1/6 ماں شریک بھائیوں کا حصہ ثلث 1/3ہے..چنانچہ مسئلہ چھ سے بنائیں گے..کل مال کے چھ حصے کریں گے..ایک حصہ ماں کو دو حصے ماں شریک بھائیوں کو اور باقی سگے بھائی کو مل جائے گا کیونکہ وہ عصبہ ہے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

وقفہ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالٰی ہمیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ”شفاعت“ نصیب فرمائیں..آج ”اسباق میراث“ کا ”وقفہ“ ہے اور ”زاد شفاعت“ کا دن ہے..

”اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ“

اہل ایمان، اہل دل اور اہل محبت کو ”زاد شفاعت“ مبارک ہو..

میراث سبق 36 کل آئے گا ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 36

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ کا شکر قیمتی اوقات پر..

ہم نے ”ذوی الفروض“ کی دو قسمیں پڑھ لیں..

 پہلی قسم

نصف، ربع، ثمن

 دوسری قسم

ثلث، ثلثان، سدس

 قاعدہ

اگر کسی میت کے ورثاء میں سے ایک پہلی قسم سے نصف والا ہو اور باقی ورثاء دوسری قسم والے ہوں تو مسئلہ (6) سے بنے گا..

مثلاً ایک عورت کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں اس کا خاوند، دو ماں شریک بھائی اور ایک سگا بھائی ہے..اس صورت میں خاوند کو نصف ملتا ہے..کیونکہ میت کی اولاد نہیں ہے..جبکہ ماں شریک بھائی چونکہ دو ہیں تو ان کا حصہ ایک تہائی ہے یعنی ثلث..تو یہاں قسم اول میں سے نصف..قسم دوم کے ساتھ آگیا تو مسئلہ چھ سے حل ہو گا..کل مال کے چھ حصے کریں گے..تین خاوند کو دو ماں شریک بھائیوں کو اور باقی ایک حصہ سگے بھائی کو مل جائے گا.. کیونکہ وہ عصبہ ہے..

 سؤال  ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں اس کا والد، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں..

 جواب  بیٹی کا حصہ نصف ہے جو قسم اول میں سے ہے اور والد کا حصہ سدس ہے..جو دوسری قسم میں سے ہے تو مسئلہ چھ سے حل ہوگا..کل مال کے چھ حصے کریں گے تین حصے بیٹی کو ملیں گے،ایک حصہ والد کو..اور باقی دو حصے بھی والد کو ملیں گے..کیونکہ وہ یہاں عصبہ بھی ہے اور ذوی الفروض میں سے بھی..اور بھائی کو کچھ نہیں ملے گا..(والد کے حصے والا سبق ایک بار دیکھ لیں)

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 37

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ دین اسلام کو غلبہ نصیب فرمائیں..اگر ورثاء میں سے ایک وارث ”ربع“ یعنی چوتھے حصے والا ہو..اور باقی ورثاء (ایک یا زیادہ) دوسری قسم والے ہوں..یعنی ثلث، ثلثان یا سدس والے ہوں تو میراث کی تقسیم بارہ 12 کے عدد سے ہوگی..یعنی یوں کہیں گے کہ..اگر پہلی قسم والوں میں سے ربع..دوسری قسم والے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ ”بارہ“ سے حل ہوگا..مثلاً ایک عورت کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں اس کا خاوند..دو بیٹیاں اور ایک چچا ہے..تو خاوند کو ربع ملے گا..دو بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو تہائی..اور باقی چچا کو مل جائے گا کیونکہ وہ ”عصبہ“ ہے..اور یہاں اس سے اوپر والے عصبات (بیٹا، پوتا، باپ، دادا، بھائی، بھتیجے وغیرہ) موجود نہیں ہیں..اب ربع چونکہ ثلثان کے ساتھ آگیا ہے تو مسئلہ (12) سے حل ہوگا..کل میراث کے بارہ حصے کریں گے..تین حصے خاوند کو..آٹھ حصے دو بیٹیوں کو اور ایک چچا کو مل جائے گا..

 میت عورت

  حصے 12

ورثاء     ۔ حصے ۔  تقسیم

خاوند        ربع        3

دو بیٹیاں ثلثان       8

چچا        عصبہ      1

سؤال..ایک شخص کا انتقال ہوا ورثاء میں ماں، بیوی اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں..

جواب.. بیوی کا ربع ہے..ماں کا ثلث..اور بھائی عصبہ..مسئلہ بارہ سے حل ہو گا..بیوی کو تین، ماں کو چار حصے ملیں گے باقی پانچ حصے بھائی کے ہو جائیں گے..

 میت مرد

  حصے 12

ورثاء     ۔ حصے ۔  تقسیم

بیوی        ربع         3

ماں         ثلث         4

بھائی      عصبہ       5..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 38

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ ہمارے دلوں کو دین پر جما دیں..اگر ورثاء میں سے ایک وارث ”ثمن“ یعنی آٹھویں حصے والا ہو..اور باقی ورثاء ایک (یا زیادہ) دوسری قسم والوں میں سے ہوں..یعنی ثلث، ثلثان یا سدس والے تو میراث کی تقسیم چوبیس کے عدد سے ہو گی..یعنی یوں کہیں گے کہ..قسم اول میں سے ثمن اگر قسم ثانی کے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چوبیس (24) کے عدد سے حل ہو گا..مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا..ورثاء میں بیوی، ماں اور ایک بیٹا ہے..اب بیوی کا حصہ ”ثمن“ ہے..ماں کا حصہ سدس یعنی چھٹا ہے..تو قسم اول کا ثمن قسم ثانی کے سدس کے ساتھ آگیا تو ساری میراث کے چوبیس حصے کریں گے..تین حصے بیوی کو،چار حصے ماں کو اور باقی سترہ حصے بیٹے کو مل جائیں گے..کیونکہ چوبیس کا آٹھواں حصہ تین بنتا ہے..چھٹا حصہ چار بنتا ہے..اور بیٹا عصبہ ہے..

میــــــــــــــــــــت مرد

  حصے 24

ورثاء   ۔   حصے ۔  تقسیم

بیوی        ثمن         3

ماں          سدس      4

بیٹا           عصبہ      17

سؤال: ایک شخص کا انتقال ہوا..ورثاء میں بیوی، ماں، دو بیٹیاں اور ایک سگا بھائی موجود ہے تقسیم کریں..

جواب: بیوی کو ثمن (آٹھواں حصہ) ماں کو سدس (چھٹا حصہ) بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو تہائی حصہ ملے گا..اور باقی بھائی کو..یہاں قسم اول کا ثمن..قسم ثانی کے ثلثان اور سدس کے ساتھ آگیا تو مسئلہ چوبیس سے حل ہو گا..کل مال کے چوبیس (24) حصے کریں گے..تین حصے بیوی کو، چار حصے ماں کو، سولہ حصے بیٹیوں کو اور ایک حصہ بھائی کو مل جائے گا..

میــــــــــــــــــــت مرد

  حصے 24

ورثاء   ۔   حصے ۔  تقسیم

بیوی        ثمن         3

ماں          سدس      4

دو بیٹیاں   ثلثان     16

سگا بھائی  عصبہ     1

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 39

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کو ”منور“ فرمائیں..

ایک بات سمجھ لیں..

ایک ہیں”علم الفرائض“ یعنی ”علم میراث“ کے ”شرعی قوانین“ ان قوانین میں کوئی ”تبدیلی“ نہیں ہو سکتی..نہ ہی انمیں کوئی اپنی عقل چلا سکتا ہے..بس جو شریعت نے فرما دیا وہ پکا ہے..الحمدللہ وہ تمام قوانین ہم نے تقریباً پڑھ لئے ہیں..”ذوی الفروض“ کون ہیں؟ ان کے حصے کیا کیا ہیں؟ ”عصبات“ کون ہیں؟ ان کے حصے اور ترتیب کیا ہے؟ ”ذوی الارحام“ کون ہیں..ان کا حکم کیا ہے؟..اب آپ چاہیں تو ”کیلکولیٹر“ سامنے رکھیں..اور شرعی قوانین کے مطابق میراث تقسیم کر دیں..مثلاً کسی شخص کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں اس کا والد، اسکی والدہ، اسکی بیوی..اور ایک بیٹا ہے..آپ والد والے قانون کو پڑھیں..معلوم ہو گا کہ اگر میت کا بیٹا موجود ہو تو والد کو سدس یعنی چھٹا حصہ ملتا ہے..پھر والدہ کا قانون دیکھیں وہاں آپ کو ملے گا کہ میت کی اولاد موجود ہو تو ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے..پھر بیوی کا قانون پڑھیں..معلوم ہو گا کہ میت کی اولاد موجود ہوتو بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے..اب آپ ساری میراث کا ٹوٹل جمع کرکے..اس کا آٹھواں حصہ بیوی کو..چھٹا حصہ باپ کو، چھٹا حصہ ماں کو دے دیں..یہ سب دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ بیٹے کو دے دیں گے..کیونکہ وہ عصبہ ہے..مثلاً کل میراث تیس ہزار روپے ہے..اس کا چھٹا حصہ 5ہزار بنتا ہے..تیس ہزار کو چھ پر تقسیم کریں تو حاصل پانچ ہزار آتا ہے..اب باپ کو پانچ ہزار دے دیں..ماں کو بھی پانچ ہزار دے دیں..جبکہ تیس ہزار کا آٹھواں حصہ تین ہزار سات سو پچاس (3750) روپے بنتا ہے وہ بیوی کو دے دیں..باقی بچے سولہ ہزار دو سو پچاس روپے (16250) وہ بیٹے کو دے دیں..مسئلہ حل ہوگیا..

مگر اہل علم نے بہت محنت کے بعد ”علم حساب“ کے کچھ ”قواعد“ بنائے ہیں..ان قواعد کے ذریعہ میراث تقسیم کرنا ضروری نہیں..مگر ان قواعد سے میراث کی تقسیم بہت آسان ہو جاتی ہے..اور یہ ”قواعد“ تجربے کی بنیاد پر اتنے پکے ہیں کہ انمیں غلطی کا امکان نہیں ہے ان شاءاللہ..اب آپ کی مرضی کہ آپ ان قواعد کو یاد کر لیں اور ان کے ذریعے میراث تقسیم کریں..یا خود علم حساب سے اپنے ایسے قواعد بنا لیں جن سے میراث کی شرعی تقسیم ٹھیک ٹھیک ٹھیک ہو سکے..اب اسی مسئلے کو دیکھیں..اہل علم کے قاعدہ کے مطابق اس میں ایک وارث ”ثمن“ والا ہے یعنی بیوی..اور وہ ایسے ورثاء کے ساتھ آرہا ہے جو ”سدس“ والے ہیں تو اب مسئلہ چوبیس کے عدد سے حل ہو گا..یعنی کل میراث کے چوبیس حصے بنائیں گے..اب (24) کا آٹھواں حصہ تین بنتا ہے..تو تین حصے بیوی کو مل جائیں گے..(24) کا سدس یعنی چھٹا حصہ چار بنتا ہے تو چار چار حصے والد اور والدہ کو دے دیں گے..جبکہ باقی تیرہ حصے بیٹے کو مل جائیں گے..تیس ہزار کے 24حصے بنائیں..فی حصہ بارہ سو پچاس روپے بنتا ہے..چنانچہ تین حصے بیوی کو ملیں گے..یعنی تین ہزار سات سو پچاس..چار حصے والد کو ملیں گے یعنی پانچ ہزار..والدہ کو بھی چار حصے یعنی پانچ ہزار..اور باقی بیٹے کو مل جائیں گے..آپ کہیں گے کہ اسطرح تو پہلی صورت یعنی کیلکولیٹر والی زیادہ آسان تھی..مگر ایسا نہیں ہے..یہاں مسئلہ بھی مختصر تھا اور میراث بھی کم تھی..اس لئے ہمیں پہلی صورت آسان لگ رہی ہے..لیکن جب ورثاء زیادہ ہوں اور مسئلہ بھی پیچیدہ ہو تو..اہل علم کے یہ تیار فرمودہ قواعد..منٹوں میں مسئلہ حل کر دیتے ہیں..ہم نے گزشتہ پانچ اسباق میں کئی قواعد پڑھ لئے ہیں..باقی قواعد اگلے مکتوبات میں ان شاءاللہ..مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن، زاد شفاعت مرحبا!

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 40

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ہم سب کو ٹھیک اور سیدھے راستے کا الہام نصیب فرمائیں..

”میراث“ کی تقسیم کے لئے اہل علم نے جو ”قواعد“ مقرر فرمائے ہیں..انمیں سے کئی ہم نے پڑھ لئے ہیں..جن کا خلاصہ یہ ہے..

(1) اگر ورثاء سارے ”عصبہ“ ہوں تو ان کو شمار کرلیں گے اور مسئلہ ان کی مجموعی تعداد سے حل ہوگا مثلا کسی کے وارث صرف چھ بیٹے ہیں تو مسئلہ (6) سے بنائیں گے..کل میراث کے چھ سے کریں گے ہر بیٹے کو ایک ایک حصہ مل جائے گا..

(2) اگر سارے ورثاء عصبہ ہوں..کچھ مرد اور کچھ عورتیں..تو مردوں کو دو اور عورتوں کو ایک شمار کریں گے..جو مجموعی تعداد بنے گی..میراث کے اتنے حصے کرلیں گے..ہر مرد کو دو اور ہر عورت کو ایک حصہ مل جائے گا..مثلا تین بیٹے دو بیٹیاں ہیں تو مسئلہ (8) سے حل ہوگا..میراث کے آٹھ حصے کر کے ہر بیٹے کو دو اور ہر بیٹی کو ایک مل جائے گا..

(3) اگر ”ورثاء“ میں ”ذوی الفروض“ موجود ہوں تو اگر صرف ایک ”ذی الفرض“ موجود ہے تو مسئلہ اسی کے حصے کے عدد سے حل ہوگا..مثلا وہ وارث نصف والا ہے تو دو سے  ربع والا ہے تو چار سے ثمن والا ہے تو آٹھ سے..ثلث یا ثلثان والا ہے تو تین سے اور سدس والا ہے تو چھ سے مسئلہ حل ہوگا..

(4) اگر ورثاء میں ”ذوی الفروض“ ایک سے زیادہ ہوں تو ہم ”ذوی الفروض“  کی دو قسمیں بنا لیتے ہیں..پہلی قسم نصف، ربع، ثمن والے..دوسری قسم ثلث، ثلثان یا سدس والے..

اگر تمام ورثاء ایک ہی قسم سے ہوں تو مسئلہ سب سے کم حصے (یعنی سب سے بڑے عدد) سے بنے گا..مثلاً سب ورثاء نصف، ربع، ثمن والے ہیں تو مسئلہ آٹھ سے بنے گا..سب نصف اور ربع والے ہیں تو مسئلہ ربع سے حل ہوگا..سب ثلث اور سدس والے ہیں تو مسئلہ سدس سے حل ہو گا..

(5) اگر ورثاء ”ذوی الفروض“ ہوں اور دونوں قسموں والے ہوں تو دیکھیں گے کہ قسم اول کا نصف اگر قسم ثانی کے ایک یا زیادہ ورثاء کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چھ سے حل ہو گا..اگر قسم اول کا ربع قسم ثانی کے ایک یا زیادہ کے ساتھ آجائے تو مسئلہ بارہ سے حل ہو گا..

اگر قسم اول کا ثمن قسم ثانی کے ایک یا زیادہ کے ساتھ آجائے تو مسئلہ چوبیس سے حل ہوگا..مسئلہ حل ہونے کا مطلب یہ کہ ہم میراث کے اتنے حصے بنا لیں گے اور تقسیم کردیں گے..یہ تھا پچھلے اسباق کا خلاصہ..اب آتے ہیں نئے سبق کی طرف..

• اگر ورثاء میں ”ذوی الفروض“ موجود ہوں تو مسئلہ ان سات اعداد میں سے کسی ایک سے حل ہوتا ہے..

2 ـ 3 ـ 4 ـ 8 ـ 6 ـ 12ـ 24

یعنی کل میراث ان سات اعداد میں سے کسی ایک عدد کے ذریعے تقسیم ہو گی..کل میراث کے یا تو دو حصے کریں گے یا تین یا چار یا آٹھ یا چھ یا بارہ یا چوبیس..کون سا عدد کب آئے گا یہ ہم پڑھ چکے ہیں..

• اگر ”حصے“ ورثاء میں ٹھیک ٹھیک تقسیم ہو جائیں تو بہت اچھی بات..ایسے ”مسئلے“ کو ”مسئلہ عادلہ“ کہتے ہیں..یعنی برابر برابر درست تقسیم ہو جانے والا مسئلہ..

• لیکن اگر ورثاء زیادہ ہوں..اور مال کم پڑ جائے..تو اب سب ورثاء کے حصوں میں سے کٹوتی ہوگی..ایسے مسئلے کو ”مسئلہ عائلہ“ کہتے ہیں..یعنی کمی اور کٹوتی والا مسئلہ..

• اور اگر مال زیادہ ہو اور ورثاء کم ہوں..تو بعض ورثاء کو اپنے مقرر حصے سے بھی زیادہ دیا جائے گا ایسے مسئلے کو ”مسئلہ ناقصہ“ کہتے ہیں..

”مسئلہ عادلہ“ یعنی برابر برابر تقسیم والا مسئلہ ہم پچھلے اسباق میں پڑھ چکے ہیں..اسکی بہت سی مثالیں بھی سمجھ چکے ہیں..اب صرف ہم نے ”مسئلہ عائلہ“ اور ”مسئلہ ناقصہ“ سمجھنا ہے..ان دونوں کو سمجھنے کے ساتھ ہی..ہمارا سبق مکمل ہو جائے گا ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 41

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی ”اہل علم“ ”اسلاف“ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں..اُن حضرات نے ہزاروں فرضی مسائل کی بار بار مشق کر کے.. ہمارے لئے ایسے ”قواعد“ بنا دیے ہیں کہ ہم آسانی سے ”میراث“ تقسیم کر سکتے ہیں..

آج ”مسئلہ عائلہ“ کی بات ہوگی..ورثاء زیادہ ہیں اور مال کم..اگر ہم ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ دیں تو مال کم پڑ جاتا ہے..اور سب کو پورا حصہ نہیں مل سکتا..اب ہم ہر کسی کے حصے میں سے..اس کے اصل حصے کے تناسب سے..کٹوتی کریں گے..یوں سب کو میراث بھی مل جائے گی..اور کسی ایک وارث کا حصہ کم نہیں ہوگا..بلکہ سب کا تھوڑا تھوڑا کم ہوگا..

ہم نے پڑھا تھا کہ..مختلف صورتوں میں..میراث کی تقسیم ان سات اعداد میں سے کسی ایک کے ذریعہ ہوتی ہے..

2 ـ 3 ـ 4 ـ 8 ـ 6 ـ 12ـ 24

اب قاعدہ یہ ہے کہ..جن مسائل میں میراث کی تقسیم پہلے چار عدد سے ہوتی ہے..وہ مسئلہ ہمیشہ ”عادلہ“ رہتا ہے..یعنی بالکل برابر برابر تقسیم ہوتا ہے.. اس میں ”عول“ نہیں آسکتا..چنانچہ جہاں بھی مسئلہ دو تین چار یا آٹھ سے حل ہو رہا ہو تو آپ بے فکر ہو جائیں..یہاں کمی، کٹوتی والی صورتحال پیدا نہیں ہوگی..

لیکن جہاں تقسیم آخری تین اعداد میں سے کسی سے ہو رہی ہو تو وہاں کبھی کبھار ”عول“ آسکتا ہے..یعنی میراث کم پڑ سکتی ہے..تو اب ہمیں اسی میراث کے زیادہ حصے بنا کر ”ورثاء“ میں تقسیم کرنے ہوں گے..اور زیادہ حصے بنانے کی وجہ سے ”میراث“ کی مالیت کم ہو جائے گی..مثلاً پہلے ہم نے ایک روٹی کے بارہ ٹکڑے کر کے ورثاء کو دینے تھے..اب تیرہ ٹکڑے کریں گے تو ہر کسی کا حصہ کچھ نہ کچھ کم ہو جائے گا..مثالوں سے آپ اچھی طرح سمجھ لیں گے ان شاءاللہ..اب اسمیں قاعدہ یہ ہے کہ..جہاں مسئلے کی تقسیم چھ سے ہوتی ہے..وہاں ”عول“ دس تک آسکتا ہے..یعنی پہلے وہ مسئلہ چھ سے حل ہو رہا تھا اب سات، آٹھ، نو یا دس سے حل ہوگا..اور جہاں مسئلہ بارہ کے عدد سے حل ہو رہا تھا وہ کبھی تیرہ،پندرہ یا سترہ سے حل ہوگا..اور جو مسئلہ چوبیس سے حل ہو رہا تھا وہ کبھی ستائیس سے حل ہوگا..

• یعنی چھ کا عول سات، آٹھ، نو یا دس آسکتا ہے..

• بارہ کا عول تیرہ، پندرہ یا سترہ آسکتا ہے..

• چوبیس کا عول ستائیس آسکتا ہے..

 خلاصہ

ہم نے پڑھا تھا کہ میراث کے تمام مسائل کا حل ان ”سات اعداد“ سے ہوتا ہے..

2 ـ 3 ـ 4 ـ 6 ـ 8 ـ 12ـ 24

 اب

اب ہم نے پڑھ لیا کہ ورثاء زیادہ اور مال کم ہونے کی صورت میں مال کے زیادہ حصے بنائے جا سکتے ہیں..تو بعض مسائل

7 ـ 9 ـ 10 ـ 13 ـ 15 ـ 17 اور 27 سے بھی حل ہوں گے..

 سات سے مسئلہ حل ہونے کی مثال

ایک عورت کا انتقال ہوا..ورثاء میں خاوند اور دو حقیقی بہنیں ہیں..خاوند کو یہاں نصف ملے گا..دو حقیقی بہنوں کو ثلثان یعنی دو تہائی..قاعدے کے مطابق مسئلہ (6) سے حل ہونا چاہیے..کیونکہ  قسم اول کا نصف قسم ثانی کے ثلثان کے ساتھ آگیا..اب (6) کا نصف (3) بنتا ہے وہ خاوند کو دیں..اور چھ کا دو تہائی چار بنتا ہے..وہ بہنوں کو دیں تو حصے کم پڑ گئے کیونکہ تین خاوند کے..اور چار بہنوں کے..یہ سات حصے ہو گئے..تو چھ کا عول ہوا..سات میں..چنانچہ اب سارے مال کے کل سات حصے کریں گے..انمیں سے تین خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے..کل میراث مثلا تیس ہزار تھی..اس کے اگر چھ حصے بناتے تو خاوند کو نصف یعنی تین حصے ملتے جو پندرہ ہزار بنتے..اور بہنوں کو چھ میں سے دو تہائی یعنی چار حصے ملتے جو بیس ہزار بنتے..یہ کل 35ہزار  ہو گئے..جبکہ میراث تیس ہزار ہے..تو اب ”عول“ آ گیا..تیس ہزار کے سات حصے کریں گے..تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے..خاوند کو اب پندرہ ہزار کی بجائے تقریباً تیرہ ہزار (سے کچھ کم)اور بہنوں کو بیس ہزار کی بجائے سترہ ہزار (سے کچھ زائد) مل جائیں گے.. یہاں چھ کا عول سات پر ہوا..مزید مثالیں آئندہ ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 42

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ ”العلیم“ ہیں..

• جو مسئلہ چھ سے حل ہوتا ہے اسمیں کبھی عول آجاتا ہے تو پھر وہ ”سات“ سے حل ہوتا ہے..ہم نے اسکی مثال کل پڑھ لی تھی..کبھی ”چھ“ والا مسئلہ ”آٹھ“ سے حل ہوتا ہے..

مثال: ایک عورت کا انتقال ہوا..ورثاء خاوند، ماں اور دو حقیقی بہنیں ہیں..قاعدہ کے مطابق مسئلہ چھ سے حل ہونا چاہیے..کیونکہ خاوند کا حصہ نصف ہے..ماں کا سدس اور دو بہنوں کا ثلثان..لیکن اگر چھ حصے بنائیں تو اس کا نصف یعنی تین حصے خاوند کو..سدس یعنی ایک حصہ ماں کو..اور ثلثان یعنی چار حصے بہنوں کو دئیے تو کل آٹھ ہوگئے..چنانچہ یہاں مسئلہ آٹھ سے حل ہوگا..کُل مال کے آٹھ حصے کریں گے..تین خاوند کو، ایک ماں کو اور چار بہنوں کو مل جائیں گے..

 اسیطرح چھ کا مسئلہ کبھی نو اور کبھی دس سے حل ہوتا ہے..

(نو کی مثال)

ایک عورت کا انتقال ہوا..ورثاء خاوند، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں..مسئلہ نو (9) سے حل ہوگا..

(دس کی مثال)

ایک عورت کا انتقال ہوا..ورثاء خاوند، ماں، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں..مسئلہ دس (10) سے حل ہوگا..خاوند کو تین ماں کو ایک دو حقیقی بہنوں کو چار اور دو ماں شریک بہنوں کو دو حصے مل جائیں گے..

• جو مسئلہ بارہ سے حل ہوتا ہے اسمیں بھی کبھی عول آجاتا ہے..پھر وہ کبھی تیرہ سے، کبھی پندرہ سے اور کبھی سترہ سے حل ہوتا ہے..

(تیرہ کی مثال)

ایک شخص کا انتقال ہوا..ورثاء بیوی، دو حقیقی بہنیں، ایک ماں شریک بہن ہے..بیوی یہاں ربع والی ہے دو حقیقی بہنیں ثلثان اور ایک ماں شریک بہن کا سدس ہوا..مسئلہ بارہ سے بنائیں تو بارہ کا چوتھائی یعنی تین حصے بیوی کو..بارہ کے دو تہائی یعنی آٹھ حصے بہنوں کو..اور بارہ کا چھٹا حصہ یعنی دو حصے ماں شریک بہن کو دیے تو حصے تیرہ بن گئے..چنانچہ اب میراث (12)کی جگہ (13) حصے بنا کر تقسیم کی جائے گی..

(پندرہ کی مثال)

ایک شخص کا انتقال ہوا ورثاء بیوی، دو حقیقی بہنیں، دو ماں شریک بہنیں ہیں..مسئلہ بارہ سے بننا چاہیے..مگر ورثاء زیادہ ہیں..مسئلہ (15)سے حل ہوگا تین حصے بیوی، آٹھ حصے حقیقی بہنوں اور چار حصے دو ماں شریک بہنوں کو مل جائیں گے..

(سترہ کی مثال)

ایک شخص کا انتقال ہوا ورثاء بیوی، ماں، دو حقیقی بہنیں اور دو ماں شریک بہنیں ہیں..مسئلہ بارہ سے بننا تھا مگر اب سترہ سے بنے گا..بیوی کو تین، ماں کو دو، حقیقی بہنوں کو آٹھ، ماں شریک بہنوں کو چار حصے ملیں گے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 43

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ ہمارے دلوں کے تالے کھول دیں..

• جو مسئلہ چوبیس سے حل ہوتا ہے..اسمیں کبھی عول آجاتا ہے تب وہ مسئلہ ستائیس سے حل ہو جاتا ہے..مثال لیجئے..ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء بیوی، دو بیٹیاں، والد اور والدہ ہیں..چونکہ میت کی اولاد موجود ہے تو بیوی کو ثمن یعنی آٹھواں حصہ..والد کو سدس یعنی چھٹا حصہ..والدہ کو بھی سدس یعنی چھٹا حصہ اور بیٹیوں کو ثلثان یعنی دو تہائی ملنے کا قانون ہے..قاعدے کے مطابق یہاں قسم اول کا ثمن..قسم ثانی کے ثلثان اور سدس کے ساتھ آگیا تو مسئلہ (24) سے حل ہوگا..(24) کا آٹھواں حصہ..یعنی تین حصے بیوی کو..(24) کا چھٹا حصہ یعنی چار حصے والد کو..چار حصے والدہ کو..اور (24) کا دو تہائی یعنی سولہ حصے دو بیٹیوں کو دیں تو یہ کل ستائیس بنتے ہیں..چنانچہ اب میراث کے (24) کی جگہ (27) حصے کریں گے..تین بیوی کو..چار والد کو، چار والدہ کو اور سولہ بیٹیوں کو دے دیں گے..

الحمدللہ ”عول“ کا مسئلہ مکمل ہوا..آپ نے دیکھا کہ ہمارے اسلاف اہل علم نے ہمارے لئے کتنی محنت فرمائی..اور ایسے قاعدے بنا دئیے کہ.. میراث کے تمام مسائل انہی ”قواعد“ کے اندر آگئے ہیں..اور اب آسانی سے حل ہو جاتے ہیں..ہمارے سامنے جب وہ مسائل آئیں گے جو دو، تین، چار اور آٹھ سے حل ہوتے ہیں تو ہم بے فکر رہیں گے کہ ان میں ”عول“ آ ہی نہیں سکتا..اور جو مسئلہ (6) سے حل ہوتا ہے وہ کبھی تو ”عادلہ“ ہوتا ہے یعنی پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے..مگر کبھی کبھار اسمیں عول آتا ہے..مگر یہ عول یا سات کا ہوگا یا آٹھ کا یا نو کا یا دس کا..بس اس کے علاوہ نہیں آسکتا..اور جو مسئلہ بارہ سے حل ہوتا ہے وہ کبھی تو ”عادلہ“ ہوگا..لیکن کبھی اس میں عول بھی آسکتا ہے..مگر یہ عول یا تو تیرہ کا ہوگا یا پندرہ کا یا سترہ کا..اور جو مسئلہ (24) سے حل ہوتا ہے..وہ کبھی ”عادلہ“ ہوتا ہے..لیکن کبھی اس میں”عول“ بھی آسکتا ہے..اور یہ ”عول“ صرف ”ستائیس“ کا ہو گا..حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک کبھی (24) کا عول (31) بھی آسکتا ہے..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 44

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالیٰ سے دارین میں ”عافیت“ کا سؤال ہے..

اگر ورثاء کم ہوں..اور مال زیادہ..اور ورثاء میں کوئی ”عصبہ“ بھی موجود نہ ہوں تو اب کیا کریں گے؟..

اگر کوئی ”عصبہ“ موجود ہوتا تو باقی سارا مال وہ لے جاتا..مگر عصبہ نہیں ہے..

مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا..وارث صرف دو بیٹیاں ہیں..ہم نے قانون پڑھ لیا ہے کہ..بیٹیاں جب دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کو دو تہائی ملتا ہے..

مثلاً کوئی تیس ہزار چھوڑ گیا..اور وارث صرف دو بیٹیاں تو تیس ہزار کا ثلثان..یعنی دو تہائی بیس ہزار..ان بیٹیوں کو مل جائے گا..باقی دس ہزار کا کیا کریں گے؟..

ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کے وارث صرف والدہ اور دو ماں شریک بھائی ہیں..والدہ کا حصہ سدس بنتا ہے یعنی چھٹا..اور دو ماں شریک بھائیوں کا ثلث یعنی تیسرا حصہ..مثلاً کل میراث تیس ہزار تھی..چھٹا حصہ یعنی پانچ ہزار ماں کو مل گئے..تیسرا حصہ یعنی دس ہزار ماں شریک بھائیوں کو مل گئے..باقی پندرہ ہزار کا کیا کریں گے؟..

جواب یہ ہے کہ..یہ باقی مال بھی انہی ”ذوی الفروض“ کو ان کے اصل حصے کے تناسب سے دے دیں گے..اور یہ باقی مال انمیں تقسیم کرنے کا قاعدہ بہت ہی آسان ہے..بس اسمیں یہ بات یاد رہے کہ بارہ ”ذوی الفروض“ میں سے خاوند اور بیوی کو صرف ایک ہی بار حصہ ملتا ہے..اگر میراث بچ جائے تو ان کو دوبارہ کوئی حصہ نہیں ملتا..البتہ باقی تمام ”ذوی الفروض“ کو بچی ہوئی میراث میں سے دوبارہ حصہ مل سکتا ہے..بچی ہوئی ”میراث“ کی دوبارہ تقسیم کے لئے اہل علم نے یہ تین قاعدے مقرر فرمائے ہیں..

 قاعدہ نمبر 1

اگر ورثاء میں خاوند یا بیوی موجود نہ ہو..اور باقی ”ذوی الفروض“ ایک ہی جنس یعنی ایک ہی قسم کے ہوں تو وہ عصبہ کی طرح ہو جائیں گے..ہم ان کو شمار کر کے ان کے مجموعے سے مسئلہ حل کر لیں گے..مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا وارث دو بیٹیاں ہوں بس..اب اگر شرعی تقسیم کریں تو بیٹیوں کو دو تہائی مل جائے گا اور باقی ایک تہائی میراث بچ جائے گی..چنانچہ یہاں بیٹیوں کو شمار کریں گے..وہ دو ہیں تو مسئلہ دو سے حل ہو گا..ساری میراث کے دو حصے کریں گے..ہر بیٹی کو ایک حصہ مل جائے گا..اور یوں ساری میراث تقسیم ہو جائے گی..تیس ہزار میں سے ہر بیٹی کو پندرہ ہزار..باقی قواعد کل کے سبق میں ان شاءاللہ..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

میراث 45

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

الله تعالیٰ اپنی معرفت کا نور نصیب فرمائیں..

میراث زیادہ ہو اور ورثاء کم..اور ورثاء سارے ذوی الفروض ہوں، عصبہ کوئی نہ ہو تو بچی ہوئی میراث انہی ذوی الفروض میں تقسیم ہو جائے گی..تقسیم کا پہلا قاعدہ ہم نے کل پڑھ لیا ہے..آج باقی قواعد ملاحظہ فرمائیے..

 قاعدہ 2

اگر ورثاء میں خاوند یا بیوی موجود نہ ہوں..اور باقی ورثاء ایک جنس یعنی ایک قسم کے نہ ہوں تو پہلے حسب ضابطہ انمیں میراث تقسیم کریں گے..پھر ان کے حصے شمار کریں گے..اور انمیں جمع کرکے جو مجموعہ بنے گا..ساری میراث دوبارہ اس ”مجموعہ“ سے تقسیم کریں گے..

مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں صرف اسکی والدہ اور دو ماں شریک بھائی ہیں..قانون کے مطابق یہاں والدہ کا حصہ سدس یعنی چھٹا ہے..اور دو ماں شریک بھائیوں کا حصہ ثلث یعنی تیسرا ہے..جب سدس اور ثلث آجائیں تو مسئلہ (چھ) سے حل ہوتا ہے..چھ کا چھٹا حصہ ایک بنتا ہے وہ ماں کو دے دیا..اور چھ  کا ثلث یعنی تیسرا حصہ دو بنتا ہے وہ دو بھائیوں کو دے دیا..اب کافی ساری میراث بچ گئی..چنانچہ دوبارہ تقسیم کریں گے..ماں کا حصہ ایک تھا..بھائیوں کے دو حصے تھے..ان کو جمع کریں..ایک اور دو کو جمع کیا تین حصے بنے..اب ساری میراث تین سے تقسیم ہو گی..تین میں سے ایک حصہ ماں کو اور دو حصے بھائیوں کو دے دیں گے..یعنی پہلے کل میراث مثلاً تیس ہزار کے ہم نے چھ حصے بنائے تھے..انمیں سے پانچ ہزار ماں کو اور دس ہزار ماں شریک بھائیوں کو دیا تھا..مگر اب اس تیس ہزار کے کل تین حصے بنائیں گے..دس ہزار ماں کو..اور بیس ہزار ماں شریک بھائیوں کو مل جائے گا..

 قاعدہ 3

• اگر ورثاء میں خاوند یا بیوی بھی موجود ہیں..اور کچھ ذوی الفروض اور بھی ہوں..میراث زیادہ اور ورثاء کم پڑ رہے ہوں..تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ..میراث میں سے پہلے خاوند یا بیوی کا حصہ نکال لیں گے..پھر باقی میراث دیگر ذوی الفروض میں ان دو قاعدوں سے تقسیم کریں گے..جو ہم نے آج اور گزشتہ کل پڑھ لئے ہیں..

 قاعدہ نمبر 1 کی مثال

ایک عورت کا انتقال ہوا..ورثاء میں خاوند اور چھ بیٹیاں ہیں..خاوند کا حصہ ربع یعنی چوتھا بنتا ہے..بیٹیوں کا حصہ دو تہائی بنتا ہے..کچھ میراث بچ جاتی ہے..اب طریقہ یہ ہے کہ چار سے مسئلہ بنا کر چوتھا حصہ خاوند کو دے دیں گے..اور باقی مال کے چھ حصے بنا کر چھ بیٹیوں کو ایک ایک حصہ دے دیں گے..

 قاعدہ نمبر 2 کی مثال

ایک شخص کا انتقال ہوا..اس کے ورثاء میں بیوی، بیٹی اور ماں موجود ہیں..بیوی کا حصہ ثمن یعنی آٹھواں ہے..بیٹی کا نصف یعنی آدھا..اور ماں کا سدس یعنی چھٹا ہے..یہ حصے دیکر میراث بچ رہی ہے..مثلاً کل میراث تیس ہزار تھی..بیٹی کو آدھی یعنی پندرہ ہزار مل گئی..ماں کو سدس یعنی پانچ ہزار اور بیوی کو ثمن یعنی تین ہزار سات سو پچاس روپے ملے..اب اس تقسیم کے بعد بھی میراث میں چھ ہزار دو سو پچاس روپے موجود ہیں..چنانچہ اب ”رد“ ہو گا..یعنی ذوی الفروض کو مزید میراث ملے گی..

قاعدہ یہ کہ پہلے ساری میراث کو بیوی کے حصے یعنی ”ثمن“ آٹھ سے تقسیم کریں گے..آٹھ حصے بنا کر آٹھواں یعنی ایک حصہ بیوی کو دے دیں گے..باقی میراث بیٹی اور ماں میں اسی قاعدے سے تقسیم ہو گی..جو ہم نے پڑھ لیا ہے کہ..بیٹی کا حصہ نصف ہے ماں کا سدس تو مسئلہ چھ سے بنے گا..چھ میں سے نصف یعنی تین حصے بیٹی کو..اور ایک حصہ ماں کو مل جائے گا..اب ماں اور بیٹی کے حصے شمار کر کے جمع کریں گے..تین اور ایک جمع چار ہوئے..تو ساری میراث کے چار حصے کریں گے..تین حصے بیٹی کو اور ایک حصہ ماں کو مل جائے گا..

بس اسی پر میراث کے ضروری اسباق کا یہ سلسلہ مکمل ہوا..الحمدللہ رب العالمین

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله

<مکتوب خادم>

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللهم لك الحمد ولك الشكر كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك..

الحمدلله الذي بنعمته تتم الصالحات..الحمدلله ثم الحمدلله..

”علم الفرائض“ کے وہ اسباق جو اہل اسلام کے لئے ضروری ہیں..مکمل ہوگئے..مزید بھی کچھ اسباق ہیں جن کا تعلق علماء کرام اور طلبہ سے ہے..اور وہ تصحیح وغیرہ کے کچھ ”حسابی قواعد“ ہیں..جنکی عامۃ المسلمین کو ضرورت نہیں..

آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ان (45) اسباق کو بار بار پڑھیں..ایک دوسرے کو پڑھائیں..اور فرضی مثالیں بنا کر انکی مشق کریں تاکہ یہ مبارک علم آپ کے سینے میں محفوظ رہے اور اس علم کو اپنے اور اپنے متعلقین کے عمل میں بھی زندہ کریں..رمضان المبارک کے بعد کوشش ہوگی کہ ان اسباق کو مزید اضافے اور مشقوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کردیا جائے ان شاءاللہ تعالیٰ..مگر یہ وعدہ نہیں ہے..اور نہ ہی اس کے انتظار میں آپ اس پر نور علم سے دور ہوں..اپنے موبائل سے ان اسباق کو اپنی کاپیوں پر اتارلیں..اور ان کو اچھی طرح یاد کرلیں..

اللہ تعالیٰ آپ سب کو بہت شرح صدر اور جزاء خیر عطاء فرمائیں..مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن اور زاد شفاعت مرحبا!..

والسلام

خادم..

          لااله الاالله محمد رسول الله