بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

نظریہ......اور.....معاملہ

السلام علیکم ورحمةالله وبرکاته..

اللہ تعالی مسلمانوں کو یقین اور ”توکل“ کے ذریعہ کامیاب فرماتے ہیں...مکہ مکرمہ میں مسلمانوں نے اللہ تعالی پر ”توکل“ کیا ہجرت پر نکلے...اللہ تعالی نے ان کو ”مدینہ منورہ“ عطاء فرما دیا...پھر انہوں نے اللہ تعالی پر یقین اور توکل کیا ”جہاد“ پر نکلے تو پورے جزیرۃ العرب کا نقشہ پلٹ گیا....مکہ کے حاکم کفار....ذلیل و ناکام ہو گئے...مدینہ منورہ کی منافق اشرافیہ ذلیل و رسوا ہو گئی...زمانہ دراز سے لوگوں کو اپنے مال سے غلام بنانے اور آپسمیں لڑوانے والے یہودی...ذلیل و رسوا ہو گئے...پورے ملک عرب میں اسلام چھا گیا...مسلمان غالب آگئے...

اگر یہ مسلمان زمانے کے حالات دیکھتے رہتے...دنیا کے ساتھ چلنے کی باتیں کرتے رہتے...کفر کی حکومت میں اپنے لئے عافیت کے گوشے ڈھونڈتے رہتے تو اسلام آگے نہ بڑھتا...مسلمان غالب نہ ہوتے...انہوں نے کفار و منافقین سے دشمنی مول لی...اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا...اللہ تعالی پر کامل یقین اور بھروسہ کیا...اور اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل اعتبار کیا...تب مکہ مکرمہ بھی واپس مل گیا...اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف تیس سال میں...اسلام دنیا پر چھا گیا...اور مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئے...خلاصہ ان مبارک آیات کا یہ ہوا کہ...کفار کو کبھی کامیاب نہیں سمجھنا...کفار کی کبھی فرمانبرداری نہیں کرنا...منافقین کے ستانے سے اپنا دین اور جہاد نہیں چھوڑنا...کفار و منافقین کی ظاہری ترقی دیکھ کر کبھی مرعوب اور متاثر نہیں ہونا...یہ تو ہوا نظریہ اور عقیدہ...باقی رہا کفار کے ساتھ معاملہ تو وہ حالات کے تحت مختلف ہوگا...جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں...گستاخیاں کرتے ہیں...سازشیں اور شرارتیں کرتے ہیں تو ان سے سخت نفرت اور دشمنی رکھنی لازمی ہوگی...جو کفارمسلمانوں سے  نہیں لڑتے کوئی اور شرارت یا سازش بھی نہیں کرتے تو ان کے ساتھ حسن سلوک اس نیت سے ہوگا کہ وہ اسلام قبول کر لیں...جو کافر طاقتور ہیں، مالدار ہیں...ان کے سامنے مستغنی، باعزت اور باوقار رہنا ہوگا...جو غریب ہیں اور مسلمانوں کے لئے بےضرر ہیں ان کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرنا ہوگا تاکہ وہ...کفر کی ذلت و ناکامی سے نکل کر اسلام کی عزت اور کامیابی میں آجائیں....اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ”توکل“ کی عظیم نعمت نصیب فرمائیں...حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ”سراپا توکل“ تھے...پھر بھی قرآن میں ان کو بار بار ”توکل“ کی یاددہانی کرائی جا رہی ہے...جبکہ ایک ہم ہیں...شاید ”توکل“ کی خوشبو سے بھی محروم...

(گزارش) الحمدللہ”تَوَكَّلُوْۤا“ اور ”تَوَکَّل٘“....دو صیغوں کی آیات مکمل ہو گئیں...اگلے مکتوب سے ان شاءاللہ ”تَوَكَّلْنَا“ کی آیات پر بات ہوگی...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله