13.12.2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*سُبحَان اللہ اور سُبُّوحٌ میں فرق*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ہمیں ”مقبول تسبیح“ کی توفیق عطاء فرمائیں...سبحان اللہ وبحمدہ.....

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

آج اس مبارک تسبیح کے سلسلے کا آخری سبق ہے اس لیے خصوصی توجہ فرمائیں...

(۱) حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی ”کتاب الزھد“ میں روایت ذکر فرماتے ہیں کہ...حضرت سیدنا سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے ایک ہزار محلات تھے..ان محلات کا بالائی حصہ شیشے سے اور نچلا حصہ فولاد سے بنا ہوا تھا..ایک بار آپ (اپنے میلوں پھیلے تخت پر) ہوا میں سفر فرما رہے تھے کہ آپ کا گزر ایک کسان پر سے ہوا...کسان نے آپ (کے تخت) کو دیکھا تو (بطور رشک، حسرت اور تمنا کے) کہا کہ داؤد علیہ السلام کے بیٹے کو بہت بڑی سلطنت نصیب ہوئی ہے..ہوا نے اس کی یہ بات اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کانوں تک پہنچا دی..آپ فوراً اترے اور اس کسان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا؛

میں نے تمہاری بات سن لی ہے..اور میں تمہیں یہ سمجھانے کے لیے آیا ہوں کہ..تم ایسی چیز کی تمنا نہ کرو جو تمہارے بس میں نہیں ہے..(اور یاد رکھو کہ) کسی بندے کا ایک بار تسبیح پڑھنا جسے اللہ تعالی قبول فرما لیں..یہ آل داؤد کی سلطنت سے بہتر ہے..(کیونکہ مال و سلطنت ختم ہو جائے گی مگر تسبیح کا اجر و ثواب ختم نہیں ہوگا) اس پر کسان نے کہا..اللہ تعالی آپ کا غم دور کر دے جیسے آپ نے میرا غم دور کر دیا..(کتاب الزُھد)

(۲) تسبیح کہتے ہیں..اللہ تعالی کی پاکی اور عظمت بیان کرنے کو...یعنی اللہ تعالی ہر عیب، کمی، کمزوری، نقص، جسم، تشبیہ اور برائی سے پاک ہیں....

(۳) ”سبحان اللہ“ کہنا یہ بھی تسبیح ہے...”سُبُّوحٌ“ یہ بھی تسبیح ہے..اور ”قدوس“ کہنا یہ بھی تقدیس و تسبیح ہے...سب سے افضل تسبیح..”سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم “..اور بہت اعلی تسبیح.....”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“ ہے....

(۴) ”سبحان اللہ“ بھی تسبیح....”سُبُّوحٌ“ بھی تسبیح..مگر ان دونوں میں فرق ہے..”سُبحان“ اللہ تعالی کا ”نام“ نہیں ہے..”سُبُّوحٌ“ اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے..”سبحان اللہ“ اسم فعل ہے..اور ”سُبُّوحٌ“ اسم صفت..

(۵)”سبحان اللہ“ اسم فعل ہے..یعنی لفظ کے اعتبار سے ”اسم“ اور معنی کے اعتبار سے ”فعل“..جب کسی ”کام“ کا کوئی ”نام“ رکھ لیا جائے تو اسے ”اسم فعل“ کہتے ہیں..تسبیح کرنا یعنی اللہ تعالی کی پاکی بیان کرنا ایک ”کام“ ہے..اس کام کا نام ”سبحان اللہ“ رکھ لیا گیا..چنانچہ ”سبحان اللہ“ کا ترجمہ یوں بنے گا....میں اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتا ہوں...جب کہ ”سُبُّوحٌ“ اسم ہے یعنی اللہ تعالی کا نام اور اللہ تعالی کی صفت..اللہ تعالی”سُبُّوحٌ“ ہیں..یعنی وہ ذات جو پاک ہے..اور جس کی پاکی بیان کی جاتی ہے..اس لیے آپ ”سُبُّوحٌ“ کو پکار سکتے ہیں..اور ”ورد“ کر سکتے ہیں یاسُبُّوحٌ، یاسُبُّوحٌ....مگر ”سبحان“ کو نہیں پکار سکتے کہ”یا سُبحانُ“...

بس یہ موضوع مکمل ہوا..سمجھنے والوں کا بھی بھلا....اور نہ سمجھنے والوں کا بھی بھلا..اللہ تعالی ہم سب کو ”مقبول تسبیح“ نصیب فرمائیں..”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“..

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


 


10.12.2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*تسبیح اور تقدیس*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ہمیں...اپنے اسم مبارک”سُبُّوحٌ“..اور ”قدوس“ کا فیض وافر نصیب فرمائیں..ہمارے دل میں، ہماری روح میں، ہمارے جسم میں..ہماری دنیا میں..ہماری قبرمیں..ہمارے حشر میں اور جنت میں..

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

”سُبُّوحٌ“اللہ تعالی کا نام ہے...صفاتی نام..یہ نام حدیث صحیح سے ثابت ہے..اور ”قدوس“ اللہ تعالی کا نام ہے ”صفاتی نام“ یہ نام قرآن مجید کی سورہ الحشر آیت (23) میں آیا ہے..

”سُبُّوحٌ“ میں اللہ تعالی کی تسبیح ہے..اور ”قدوس“ میں اللہ تعالی کی ”تقدیس“ ہے..

”تسبیح“کہتے ہیں....اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالی کی ذات....پاک ہے..ہر شرک سے اور ہر شریک سے..ہر عیب سے اور کمی سے..ہر کمزوری سے اور ہر مشابہت سے...اللہ تعالی ہر اس چیز سے بلند اور دور ہے جو چیز ”معبود حقیقی“ کی شان کے خلاف ہو....خلاصہ یہ ہوا کہ ”تسبیح“ میں ”تنزیہ ذات“ ہے کہ...پاکی کی صفت اللہ تعالی کی ذات میں شامل ہے..جبکہ ”تقدیس“ میں بھی اللہ تعالی کی پاکی کا بیان ہے..مگر یہ پاکی....اللہ تعالی کی ”صفات“ میں ہے کہ وہ ہر ظلم، گناہ، برائی، بدی اور فنا سے پاک ہے....”القدوس“ کے لفظ میں دو چیزیں لازمی طور پر شامل ہیں..ایک طاہر یعنی پاک ہونا..اور ایک بابرکت اور مبارک ہونا..ساتھ ساتھ اس میں تعظیم بھی ہے..یہ بات یاد رکھیں کہ....”تسبیح“ صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے...سبحان، سبوح اور تسبیح کا کسی ”غیر اللہ“ کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا...مگر ”تقدیس“ مجازی طور پر غیر اللہ کی جائز ہے...جیسے قرآن مجید نے شام و فلسطین کی زمین کو ”ارض مقدس“فرمایا ہے...اسیطرح وفات پاجانے والوں کو یہ دعاء دینا بھی جائز ہے کہ...قُدِّسَ سِرُّہ یا...قُدِّسَ رُوحُہٗ...یا قَدَّسَ اللہ سرّہ...اس کا آسان مطلب یہ ہوتا ہے کہ..اللہ تعالی مرحوم کی روح، قبر اور آخرت کو پاک فرمائیں اور اسمیں برکت نصیب فرمائیں...

”سبوح“ اور ”قدوس“ دونوں بہت بھاری، وزنی اور مؤثر ”اسماء الحسنی“ ہیں..دونوں کو جوڑ کر پڑھنے سے دونوں کی تأثیر ملتی ہے اور انسان کے اندر طہارت، پاکیزگی، قوت اور نور آجاتا ہے..تسبیح میں ”حمد“ شامل ہو تو وہ ”تقدیس“ بھی بن جاتی ہے..مثلا سبحان اللہ وبحمدہ..اور ”تقدیس“ میں تو تسبیح ویسے ہی شامل ہے..”سبحان الملک القدوس“ بندہ نے اہل علم کی مفصل گفتگو کو...مذکورہ بالا چند اشارات میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے...جو سمجھ گئے وہ بھی ٹھیک...جو نہ سمجھ سکے وہ بھی ٹھیک...مگر سب ہی دل سے پکاریں...

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


 


09.12.2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*منگل اور سترہ تاریخ*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ہمیں اپنی نعمتوں سے...فائدہ اٹھانے والا بنائیں..ہمیں اپنی نعمتوں کے قابل بنائیں..آج ”تسبیح“ اور ”تقدیس“ کے درمیان فرق پر مکتوب لکھنا تھا..مگر ”حجامہ“ کی خاص تاریخ آگئی..چاند کی سترہ تاریخ اور ساتھ منگل کا دن....یعنی سونے پر سہاگہ..یہ تاریخ اور دن جمع ہو جائیں تو ”حجامہ“ کے روحانی فوائد بھی بڑھ جاتے ہیں...اور جسمانی فوائد بھی...اللہ تعالی مجھے بھی ”نعمت شفاء“ نصیب فرمائیں اور آپ سب کو بھی......اور ہمیں آج ”سنت حجامہ“ کا پورا پورا فیض..اپنے فضل سے نصیب فرمائیں....

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

ملائکہ، مخلوق، مسلمان

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی کی تسبیح ساری ”مخلوق“ کرتی ہے..

وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ..(الاسراء۴۴)

ترجمہ؛ ہر چیز اللہ تعالی کی تسبیح اور حمد کرتی ہے....

مگر ”کافر“ نہیں کرتے..اس لیے وہ بے حیثیت ہیں، بے وقعت ہیں، دو چار دن کا تماشا ہیں..ہم جب تسبیح کرتے ہیں تو ساری مخلوق کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں..جبکہ کافر اور اس کی روح اکیلی رہ جاتی ہے....آئیے دل سے تسبیح کریں..

..سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح..

اب ایک بات سمجھیں...ہم جب ”سبوح“ پڑھتے ہیں تو ہم نے اللہ تعالی کی ”تسبیح“ کی..یعنی اللہ تعالی کی پاکی اور تنزیہ کا اقرار کیا...اور جب ہم ”قدوس“ پڑھتے ہیں تو ہم نے اللہ تعالی کی ”تقدیس“ کی..یعنی اللہ تعالی کے کمالات، برکات اور ”تقدس“ کا اقرار کیا..یہ وہ دو کام ہیں جو فرشتے بھی کرتے ہیں....فرشتوں نے کہا تھا:

”وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ“ (البقرہ ۳۰)

ترجمہ: اور ہم (فرشتے) آپ کی تسبیح، حمد اور تقدیس میں لگے رہتے ہیں:

اس لیے جب ہم پڑھتے ہیں..”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“ تو ہم وہ کام کرتے ہیں جو فرشتے کرتے ہیں....یوں ہم فرشتوں کے ساتھ شامل ہو گئے..جبکہ کفار اکیلے رہ گئے..کافروں کی ترقی سے مرعوب لوگوں کو یہ باتیں بری لگ رہی ہوں گی...مگر کیا کروں یہ سچ ہے..اور حقیقت ہے..کافر بیچارے بس اسی چھوٹی سی دنیا میں کچھ اچھل کود لیتے ہیں..باقی اتنے بڑے بڑے عالم ہیں..عالم برزخ، عالم آخرت وغیرہ..وہاں وہ زیرو ہوں گے زیرو..اور قبر کا عالم اور آخرت کا عالم اتنا یقینی ہے کہ دنیا سے بھی زیادہ یقینی......اور اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں...

اب اگلی بات سمجھیں....”سبوح“ پڑھنا..اللہ تعالی کی تسبیح ہے..”قدوس“ پڑھنا اللہ تعالی کی ”تقدیس“ ہے..مگر ”تسبیح“ اور ”تقدیس“ میں کوئی فرق بھی ہے یا دونوں ایک ہی ہیں؟....جواب یہ ہے کہ دونوں ایک بھی ہیں..اور دونوں میں بہت سے فرق بھی ہیں..ایک یوں ہیں کہ..دونوں میں اللہ تعالی کی عظمت، پاکی، کمال اور تنزیہ کا بیان ہے..اور یہ دونوں نام پاکیزگی، نور، طہارت، قوت اور کمال سے لبریز ہیں..مگر دونوں میں کئی فرق بھی ہیں..وہ فرق اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ..

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


 



بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ..اور..بابری مسجد*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ”سورج“ کو ”غروب“ ہونے کے بعد دوبارہ ”طلوع“ فرماتے ہیں...اللہ تعالی ”بابری مسجد“ بھی مسلمانوں کو واپس عطاء فرمائیں گے...بے شک وہ ہر کمزوری اور عاجزی سے پاک ہیں..

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

”بابری مسجد“ میں توحید والی اذان گونجتی تھی...اللہ تعالی شرک سے پاک ہیں..”مشرک“ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ان کا ”رب“ کون ہے؟ ان کا خدا کون ہے؟ کبھی کسی کو بنا لیتے ہیں..کبھی کسی کو..ہر طاقتور ان کے نزدیک خدا ہے..ہر بڑا مالدار ان کے نزدیک بھگوان ہے..ایسے خود غرض پجاریوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ”مسجد شریف“ کو گرا دیں...مسجد تو اللہ تعالی کی تسبیح کرتی ہے..تقدیس کرتی ہے..مسجد میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں..اور روح القدس بھی..اور یہ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو ”سُبُّوح“ ہے..”قُدُّوس“ ہے..”رَبُّ الْمَلَائِکَة“ ہے..”رَبّ الرُّوح“ ہے..

یا اللہ بابری مسجد واپس لوٹا کر...ہماری ارواح کو بھی سکون عطاء فرما دیں...

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

اللہ تعالی کے راستے میں ”جہاد فی سبیل اللہ“ ہوتا ہے تو..زمین پاک ہوتی ہے..کفر و شرک کے غلیظ اثرات دھلتے ہیں..ظلم ختم ہوتا ہے..مساجد بنتی ہیں..دین آباد ہوتا ہے..دنیا پُرامن ہوتی ہے..لیکن جب مسلمان...جہاد چھوڑنے کا گناہ کر بیٹھیں تو.....عزت، نصرت اور رحمت ان سے روٹھ جاتی ہے...اور وہ کفار و مشرکین کے لیے تر نوالہ بن جاتے ہیں..شہادت سے ڈرنے والے...اور اس فانی دنیا کو اپنا مقصود بنانے والے مسلمان..اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی مساجد کی حفاظت کر سکیں..ایسے ہی حالات میں ”بابری مسجد“ بھی چپکے سے روٹھ گئی..اب ہماری ذمہ داری ہے کہ.....جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے...وہ ادا کریں اور بابری مسجد کو واپس لائیں..

مودی، ایڈوانی اور مشرکین کی کیا مجال کہ وہ.....اللہ تعالی کے وفادار بندوں کا مقابلہ کر سکیں..وہ بندے جو اللہ تعالی کی تسبیح بھی کرتے ہیں اور تقدیس بھی..اور اس سے ملاقات کا شوق بھی رکھتے ہیں..

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

ہم مسلمان....الحمدللہ ”سخت جان“ ہیں..ہمیں مٹاتے مٹاتے بہت سے ہاتھی اور لشکر مٹ گئے..ہم نہ اپنے شہداء کا خون بھولتے ہیں..اور نہ اپنی مساجد کی بنیادیں..الحمدللہ سب کچھ یاد ہے...آسمان کے تیور بدل رہے ہیں..زمین اپنا رنگ لینے کو ہے..پہاڑ جھانک جھانک کر نئے لشکر کا انتظار کر رہے ہیں..مؤمنین کے ساتھ مؤمنات نے بھی عَلَم اٹھا لیا ہے..جہادی گھوڑا واپس تشریف لا رہا ہے..کمانوں میں تیر سیدھے ہو چکے ہیں..تلواروں کا زنگ اتر رہا ہے..اور شہادت کے طلبگار رات کے سجدوں میں پکار رہے ہیں:-

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“...”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله



بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*دو دریا*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ہمیں.....جسم اور روح کی پاکیزگی عطاء فرمائیں..

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

زبان اور منہ کے ذریعہ جو چیز بھی.....انسان کے جسم میں جاتی ہے..وہ سارے جسم پر اثر ڈالتی ہے..اور ”روح“ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے...اس لیے کہتے ہیں:-

”زبان پاک تو دل پاک، دل پاک تو روح پاک“

منہ میں زہر لے لیں...سارا جسم زہر سے بھر جائے گا..منہ میں دواء یا علاج لیں تو اس کا اثر سارے جسم پر پڑے گا.......کئی حضرات اور خواتین لکھتے ہیں کہ ”معمولات“ پورے نہیں ہوتے..ذکر اللہ میں دل نہیں لگتا...ان سے عرض کیا جاتا ہے کہ..بولنا کم کر دیں..کھانا کچھ کم کر دیں..زیادہ بولیں گے تو زبان سے غلطیاں ہوں گی....جھوٹ، غیبت، فحش گوئی وغیرہ...یہ ایسا ہو گیا جیسے منہ سے حرام غذا کھا لی..”حرام غذا“ کا بُرا اثر جسم پر بھی پڑے گا، روح پر بھی اور دل پر بھی.....اس لیے ”زبان“ کو پاک رکھیں..پھر پاکیزگی کے مزے لوٹیں..

یہ آجکل مکتوب میں...جن کلمات کی بات چل رہی ہے..وہ نور اور پاکیزگی سے بھرے ہوئے ہیں..

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

`سُبُّوحٌ` کے معنی ہر عیب اور کمزوری سے پاک `قُدُّوسٌ` کے معنی ہر غلطی، برائی اور کوتاہی سے پاک..`رب` کے معنی پیدا کرنے والا، تربیت فرمانے والا، مالک، خالق اور رازق..اسمیں بھی پاکی ہی پاکی..`مَلَائِکَة` فرشتے..وہ بھی پاک `الرُّوح` حضرت روح القدس جبرئیل علیہ الصلٰوۃ والسلام وہ بھی نور اور پاکیزگی کا مجموعہ......یہ پانچ الفاظ ہوئے..ہر لفظ میں نور بھی ہے اور پاکیزگی بھی.....جبکہ انسان کے اندر ناپاکی...پانچ راستوں سے آتی ہے...(۱) دیکھنے سے (۲) سننے سے (۳) بولنے اور چکھنے سے (۴) سونگھنے سے (۵) چھونے اور ملنے سے.....حرام دیکھنا، حرام سننا، حرام بولنا، حرام سونگھنا اور حرام چھونا..

بس پھر اندھیرا ہی اندھیرا...ناپاکی ہی ناپاکی..گھٹن، بے چینی اور شیاطین کے حملے....ایسے حالات میں روشنی، نور اور پاکی کا بھی سامان کریں..اور نور اور پاکیزگی کا یہ جام پیئیں...

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

اب ایک بات یاد رکھیں..”سُبُّوحٌ“ بھی اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے..اور ”قُدُّوسٌ“ بھی.... یعنی یہ دونوں ”اسماء الحسنی“ میں سے ہیں..اور ”سُبُّوحٌ“ اور ”سبحان“ میں فرق ہے..اسی طرح ”سُبُّوحٌ“ کا معنی الگ ہے..اور قُدُّوسٌ کا معنیٰ الگ..دونوں کا نور بھی الگ..مٹھاس بھی الگ..اور تأثیر بھی الگ..آپ اکیلے”یاسُبُّوح“ کا ورد کر سکتے ہیں..”یاقُدُّوس“ کا ورد بھی کر سکتے ہیں..مگر حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نور کے ان دو دریاؤں کو اکٹھا فرما کر دے دیا..اور یہ تسبیح سکھا دی:-

...”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله



بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

*عجائبات سے بھرپور دعاء*

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی کا ذکر.....یعنی اللہ تعالی کی یاد...بہت عظیم اور بھاری نعمت ہے...یہ نعمت انسانوں میں سے صرف ان کو ملتی ہے...جو اس کو مانگتے ہیں...اس کو چاہتے ہیں..اور اس کی قدر کرتے ہیں...حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء سکھائی ہے :-

..”اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ“..

ہاں بے شک اللہ تعالی کی مدد، نصرت اور اعانت کے بغیر نہ کوئی اس کا ذکر کر سکتا ہے..نہ شکر اور نہ اچھی عبادت..کل کے مکتوب میں...ایک منور، معطر، مؤثر، قیمتی، طاقتور اور عجائبات سے بھرپور ”دعاء“ کا تذکرہ ہوا تھا...

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“

..ترجمہ: اللہ تعالی ”نہایت پاک“...بڑے مقدس ہیں...فرشتوں اور سب سے بڑی روح کے رب ہیں....(حضرت جبرئیل امین علیہ الصلٰوۃ والسلام کے رب ہیں).....

صحیح مسلم...ابو داؤد اور مسند احمد کی روایت ہے کہ….ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ....حضور اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء...اپنے رکوع اور سجود میں پڑھا کرتے تھے..

ایک روایت میں ”تین بار“ پڑھنے کا ذکر بھی ہے..مگر وہ ”راوی“ کا اضافہ ہے....

اس عظیم الشان ”دعاء“ کو پڑھنے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ....مرد حضرات اگر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں...یا سنت اور نفل نماز پڑھتے ہوں تو....ہر رکوع اور ہر سجدے میں....رکوع اور سجدے کی مسنون تسبیح تین بار پڑھ کر....اس دعاء کو پڑھیں..ایک بار...تین بار...سو بار، ہزار بار...جتنا دل لگے، جتنا دل چاہے..محبوب حقیقی سے جتنی توفیق ملے..جتنی اجازت ملے..جتنا وقت ہو...جبکہ ”مؤمنات مسلمات“ اپنی ہر نماز میں پڑھ سکتی ہیں...اہل تجربہ مشایخ نے اس دعاء کے حیرت انگیز فوائد کا تجربہ کیا تو انہوں نے اپنے ”سالکین“ کے لیے اس کے کچھ طریقے اور کورس بھی مقرر کر دیئے..مثلاً روزانہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار بار..یا روز فجر کے بعد ایک سو بار...یا چالیس دن تک روزانہ ایک سو ستر بار...یا چالیس دن ہر نماز کے بعد ایک ہزار بار......وغیرہ......یاد رکھیں یہ نصاب وغیرہ صرف پابندی، ترتیب اور نظم و ضبط حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں..یا یہ کسی کا تجربہ ہوتے ہیں..اس لیے ان کا اہتمام ضروری نہیں..اصل بات تو یہ ہے کہ..اللہ تعالی کا ذکر نصیب ہو جائے..حضرت محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نصیب ہو جائے.....بس اسی سے دنیا اور آخرت کی ہر خیر خود بخود مل جاتی ہے....

”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح“.....کی مزید تشریح اگلے مکتوب میں ان شاء اللہ..مغرب سے جمعہ شریف..مقابلہ حسن مرحبا!

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله



 بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

 *مؤمنات کے لئے قیمتی تحفہ* 

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی ہر ”مسلمان“ کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائیں.....آج چند باتیں بطور خلاصہ عرض کرنی ہیں....پھر موقع ملا تو اگلے دنوں میں ان کی کچھ تفصیل..ان شاءاللہ

(۱) الحمدللہ ثم الحمدللہ...”المؤمنات“ کی رکنیت جاری ہے..اللہ تعالی کا فضل دیکھیں کہ ماشاءاللہ چند ہی ہفتوں میں ”پانچ ہزار“ سے زائد رکنیت ہو چکی ہے..ہر طرف عجیب پرکیف ایمانی مناظر اور جذبے ہیں..کئی بہنوں اور بیٹیوں نے لکھا کہ ”رکنیت“ کرتے ہی عجیب کیفیت نصیب ہو گئی..زندگی کو مقصد مل گیا..بے شک ”جماعت“ کی بڑی برکات ہوتی ہیں...اب ان شاءاللہ...ضلعی تشکیلات ہوں گی..ہر ضلع کے لیے ایک ”منتظمہ“ مقرر ہوں گی..کام تقسیم ہوگا..فکر متحد ہوگی تو ان شاءاللہ ایمان کی بہاروں والا یہ لشکر چل پڑے گا...

(۲) پانچ ہزار کی رکنیت..اور وہ بھی اس قدر جلد اور منظم..اس پر دل..اپنے محبوب مالک کا بے حد شکر گزار ہے..دل چاہتا ہے کہ اس خوشی کے موقع پر کوئی قیمتی تحفہ....” المؤمنات“ کو پیش کیا جائے..الحمدللہ تحفہ کا انتخاب خوب رہا...ایسے کلمات جو نور، پاکیزگی اور ہدایت سے لبریز ہیں..ایسے پرتاثیر کلمات جو انسان کی روح کو پاک اور طاقتور کر دیتے ہیں..اور اسے نور و سرور کے سمندر میں غوطہ زن کر دیتے ہیں....امید ہے آپ میں سے اکثر کو یاد ہوں گے...مگر ضرورت ان سے فائدہ اٹھانے کی ہے..وہ کلمات حدیث صحیح میں.. ام المؤمنین والمومنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمائے ہیں کہ...حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجود میں پڑھا کرتے تھے..

سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوح(صحیح مسلم)

روحانیت کے نور سے لبالب بھرا یہ جام امت کی اکثریت سے چھوٹ گیا...”جماعت المؤمنات“ اس سے نفع اور فائدہ اٹھائے....

(۳) ان ”معجزاتی کلمات“ کا ترجمہ اور کچھ فوائد اور خواص ان شاءاللہ مکتوب یا کالم میں آجائیں گے..آپ صرف ایک دن ہر نماز کے رکوع و سجود میں ان کو شامل کریں..اور ویسے بہت کثرت اور توجہ سے سارا دن یا رات پڑھتی رہیں آپ کو ایسا حال نصیب ہوگا کہ خود سے پوچھیں گی..میں کون ہوں؟ میں کہاں پہ ہوں؟..

(۴) ایک نیا شوشہ...راجہ رنجیت سنگھ..اور راجہ داہر کی فکری اولاد نے...”نبراسکا یونیورسٹی“ کا چھوڑ دیا ہے...وہ یہ کہ امریکہ کی نبراسکا یونیورسٹی نے..پاکستان میں جہادی ماحول بنایا...حالانکہ یہ ایسا جھوٹ ہے کہ..شاید شیطان کو بھی نہ سوجھتا..مگر ہمارے کئی کالم نویسوں، کئی وزیروں اور بعض دانشوروں کو سوجھ گیا ہے..عجیب بات ہے کہ کسی یونیورسٹی کے ایک نصاب نے..لاکھوں مجاہدین کھڑے کر دیے..ایک سپر پاور کو شکست دے دی....اللہ تعالی ان کالم نویسوں کے شر سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائیں..موقع ملا تو اس گمراہ نظریے پر کبھی تفصیل سے بات کریں گے ان شاءاللہ......

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مقام الْعَمّ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

..”اللہ الباقی“...انا للّٰہ وانا الیہ راجعون...محترم جناب حافظ خلیل اللہ صاحب علوی....انتقال فرما گئے ہیں...وہ حضرت ابا جی رحمة الله عليه کے سب سے چھوٹے بھائی...حمزہ شہید رحمة الله عليه کے والد..اور بندہ کے عم مکرم (یعنی چچا) تھے..ان کی نماز جنازہ ان شاءاللہ آج نماز ظہر کے بعد..جامع مسجد عثمان و علی (رضی اللہ عنھما بہاولپور) میں ادا کی جائے گی...بعد ازاں ”مرکز الصابر“ کے مقبرہ میں..ان کی ”تدفین“ ہوگی..

آس پاس والے ”اہل محبت“ سے ”نماز جنازہ“ میں شرکت..اور دور والوں سے ”ایصال ثواب“ کی درخواست ہے..حضرت آقا محمد مدنی صلی الله علیه وسلم کا فرمان گرامی ہے:-

”عم الرجل صنو ابیہ“ (صحیح مسلم)

”آدمی کا چچا اس کے والد کی مانند ہوتا ہے“

اہل علم نے اس ”حدیث صحیح“ کی تشریح میں..چچا کے عظیم رتبے، مقام اور حقوق کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے..خود حضور اقدس صلی الله علیه وسلم کا معاملہ اپنے چچا حضرت سیدنا حمزہ رضی الله عنه اور حضرت سیدنا عباس رضی الله عنه کے ساتھ بہت عجیب محبت اور اکرام سے لبریز تھا.. یہانتک کہ آپ صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا:-

”من آذیٰ عمی فقد آذانی“ (ترمذی)

جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی..اس نے مجھے تکلیف پہنچائی..

اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ:-

”العم والد“ (الجامع الصغیر)

”یعنی چچا والد ہے“

دوسری روایت میں اس کی تشریح یوں سمجھا دی گئی کہ..جس کا والد وفات پا چکا ہو..اس کے لیے ”چچا“ والد کے قائم مقام ہے....اسی لیے اہل دل فرماتے ہیں کہ..”چچا“ اللہ تعالی کی انمول نعمت اور رحمت ہے..اللہ تعالی میرے پیارے چچا جان کی مغفرت فرمائیں..ان کو صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ جمع فرمائیں..آج کے مکتوب کا ثواب بھی انہیں نصیب فرمائیں....اور ان کے اہل و اولاد کو صبر و اجر عطاء فرمائیں..

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله




12.10.2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

آج، کل، آئندہ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته...

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں.....قتال اور جنگ کا بھی بار بار تذکرہ فرمایا ہے..اور صلح اور معاہدے کا بھی کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے....دراصل مؤمن....جب تک ایمان پر اور جہاد پر رہتا ہے تو وہ....اللہ تعالی کے نزدیک ”غالب“ ہے..کامیاب ہے..اس کا ”جہاد“ دشمنوں کو صلح اور معاہدے پر مجبور کرتا ہے..اور اس کی صلح....اس کی جہادی تیاری اور طاقت کو بڑھاتی ہے....اس بارے قرآن مجید کے احکام واضح ہیں مثلاً

(۱) مسلمان خود ڈر کر یا گھبرا کر کفار کو صلح کی طرف نہ بلائیں..الحمدللہ ”مجاہدین القدس“ نے دو سال کی سخت ترین جنگ کے باوجود کبھی ہتھیار رکھنے اور امن کی بھیک مانگنے کی بات نہیں کی......سلام ہو ان کی عظیمت اور استقامت کو..

(۲) کفار اگر صلح کے لیے جھکیں تو مسلمان ان کے ساتھ صلح کر سکتے ہیں..”قدسی مجاہدین“ نے پہلے بھی اس حکم پر عمل کیا....اب بھی کر رہے ہیں..سلام ہو ان کی اطاعت کو...

(۳) صلح میں دھوکے کا خدشہ ہوتا ہے..اس خدشے کا علاج اللہ تعالی پر ”توکل“ ہے..وہ کل بھی ایمان والوں کے ساتھ تھا..آج بھی ہے..اور ہمیشہ رہے گا...ایسے ”توکل“ پر اللہ تعالی کی ”محبت“ کا وعدہ ہے..اور اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے......

بس آج یہی تین نکات کافی ہیں جو قرآن مجید کی صریح اور واضح آیات میں موجود ہیں......اہل غزہ کے مسکراتے چہرے دیکھ کر دل خوش ہے..وہاں معصوم بچوں کی فاتحانہ کلکاریاں..دل پر مرہم رکھ رہی ہیں..حماس کے قائدین کا پرعزم اور باوقار لہجہ.....ہم سب مسلمانوں کے لیے عزت و شرف کا مقام ہے....آگے کیا ہوگا؟ اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا...ہاں ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ (الانفال ۱۹)

اے کافرو! اگر تم واپس لڑنے آجاؤ گے تو ہم بھی لوٹ آئیں گے........اور پھر تمہارے بڑے بڑے لشکر بھی مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے........کیونکہ اللہ تعالی ایمان والوں کے ساتھ ہیں...اللہ تعالی جو فرماتے ہیں...وہی سچ ہے..اللہ تعالی زمین کے مالک ہیں..یہ زمین کسی کافر کی جاگیر یا میراث نہیں ہے..ہماری سعادت ہے ہم الحمدللہ کل بھی ”قدسیوں“ کے ساتھ تھے آج بھی ان کے ساتھ ہیں اور آئندہ بھی ان کے ساتھ رہیں گے ان شاء اللہ...سلامتی، رحمت اور برکت ہو امت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر.....

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله


 



08.10.2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

ماشاءاللہ

”جّماعتُ المُؤمِنَات٘

بسم اللہ و علیٰ برکۃ اللہ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته....

اللہ اکبر......اللہ اکبر کبیرا......اللّٰه، ‌اللّٰه ‌رَبِّيْ لَا أُشْرِكُ بِهٖ شَيْئًا.....

الحمدللہ کثیرا....سبحان اللہ بکرۃ و اصیلاً...الحمدللہ حمدا طیباً مبارکاً.....

ماشاءاللہ....لا حول ولا قوۃ الا باللہ..حسبنا اللہ ونعم الوکیل......

ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ......”جماعت المؤمنات“

ماشاءاللہ، بارک اللہ، تبارک اللہ......”جماعت المؤمنات“....

الحمدللہ، الحمدللہ ثم الحمدللہ.....”جماعت المؤمنات“

اللھم بارک و تقبل وانصر......”جماعت المؤمنات“..

-:امت حضرت سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک:-

”جماعت المؤمنات“

مضبوط عقیدہ...پختہ عمل...ناقابل شکست حیاء اور پاکدامنی..بلند دینی عزائم..با مقصد زندگی..

”جماعت المؤمنات“

دین اسلام پر مکمل اطمینان...مکمل یقین..دین کی عظمت کا جنون..اسلام کے غلبے کا جوش..سنت پر فخر..

”جماعت المؤمنات“

پانچ نکاتی نصاب (۱)کلمہ (ایمان)(۲) اقامت صلوٰۃ (۳) معاونت و دعوت جہاد فی سبیل اللہ (۴) امر بالمعروف و نہی عن المنکر (۵) حیاء اور تقویٰ.....آج بروز چہار شنبہ..۱۴ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ بمطابق..8 اکتوبر..بعد نماز عصر....

.. آغاز رکنیت”جماعت المؤمنات“..

سورہ النساء کی چمک..سورہ النور کا نور..سورہ التوبہ کی روشنی..صراط مستقیم کی تڑپ..

”جماعت المؤمنات“

حیوانی خواہشات سے نجات....ایمانی جذبوں کا طوفان..کفر و نفاق کا منہ توڑ جواب..

”جماعت المؤمنات“

ببركۃ بسم الله..بقوۃ بسم الله..وبجلال بسم الله..وبكمال بسم الله، وبعظمۃ بسم الله..

”جماعت المؤمنات“

یا اللہ صرف آپ کے لیے..آپ کی خاطر..آپ کی مدد سے..آپ کی رضا کے لیے..آپ کے دین کی سربلندی کے لیے..آپ کے دین کی دعوت کے لیے..آپ سے ملاقات کے شوق میں..

...”جماعت المؤمنات“...

افتتاحی مجلس کے لیے..اس جماعت میں شمولیت کے لیے..اس جماعت کی کامیابی کے لیے..

” دو رکعت نماز اور دعاء“

ان شاءاللہ..الحمدللہ.....کفر و نفاق کی جھاگ مٹ جائے گی..حق چھا جائے گا..آرہی ہے..

”جماعت المؤمنات“

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله