بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

شُکرانے کے نوافل

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی ہماری ساری ”صلاحیتیں“..دین اسلام کی خدمت کے لیے قبول فرمائیں..آمین...

الحمدللہ....ربیع الاول میں ”سیرت النبی“ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجتماعات کا.....جماعت کی طرف سے اہتمام کیا گیا.... موضوع ماشاءاللہ بہت دلچسپ تھا..سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم....سورۃ محمد کی روشنی میں... آپ جانتے ہیں کہ..قرآن مجید کے چھبیسویں پارے میں ایک ”سورۃ مبارکہ“ ہے..اس کا نام ”سورۃ محمد“ بھی ہے..اور ”سورۃ قتال“ بھی..

اس ”سورۃ مبارکہ“ میں ”سیرت مبارکہ“ بھی ہے..”جہاد مقدس“ بھی ہے..”شہداء کرام“ کا مقام بھی ہے..انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے..اور انفرادی، اجتماعی اور عالمی مسائل کا حل بھی....اللہ تعالی کی توفیق سے...دین کے دیوانوں نے...بے غرض، بے لوث اور انتھک محنت کی...پورے ملک میں ”الحمدللہ“....چار سو ترپن (453) اجتماعات ہوئے..دسیوں ہزار افراد نے..ان اجتماعات میں شرکت کی..اور ”سورۃ محمد“ اور سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے مستفید ہوئے....ہمارے اہل علم، اہل جہاد اور اہل اخلاص خطباء نے...بغیر کسی معاوضے، فیس اور پروٹوکول کے دور دراز علاقوں کے اسفار کیے..اور ملک کے کونے کونے تک سچے دین..سچے نصاب اور سچی دعوت کی خوشبو پھیلائی...یقیناً یہ جماعت پر اللہ تعالی کا عظیم فضل اور احسان ہے..پوری جماعت کو شکرانے کے نوافل ادا کر کے....اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے...شکر کرنے سے عمل قبول ہوتا ہے..اور نعمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے....”سیرت طیبہ“ کے ان ”اجتماعات“ کی بعض ”قابل ذکر“ باتیں پیش خدمت ہیں:-

(۱) اللہ تعالی کے بندوں کو..اللہ تعالی سے جوڑنا..حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑنا....اور دین اسلام سے جوڑنا...یہ جماعت کی محنت کا ایک بنیادی اصول ہے..الحمدللہ یہ تمام ”اجتماعات“ دین، جہاد اور سیرت کے نام پر کامیاب ہوئے..کسی شخصیت کے نام پر نہیں..

(۲) لوگ کہتے ہیں یہ ”سوشل میڈیا“ کا دور ہے..سوشل میڈیا کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا..الحمدللہ یہ تمام بھرپور اجتماعات ”سوشل میڈیا“ کے بغیر ہوئے....انمیں سینکڑوں افراد کو ”توبہ“ نصیب ہوئی....شرکاء کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زائد رہی...مساجد کے پاکیزہ ماحول میں یہ خوش نصیب مجمعے..سوشل میڈیا پر کروڑوں ”فالورز“ پانے سے زیادہ مؤثر ہیں..وہاں جن ”فالورز“ پر فخر کیا جاتا ہے..ان کا تو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ....کون ہیں؟ کہاں ہیں؟کس حالت میں ہیں؟ حامی ہیں یا دشمن..آپ کے ہیں یا کسی اور کے؟ اصلی ہیں یا کرائے کے؟ سن رہے ہیں یا مذاق اڑا رہے ہیں؟

(۳) ان اجتماعات سے قبل ہی..”دعوت ایمان“ کا ”علمبردار“ شعبہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قائم ہو چکا تھا....اس لیے الحمدللہ ”دعوت ایمان“ بھی بھرپور طریقے سے گونجتی رہی...

...ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ...

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مبلغ اسلام...مرحبا!

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی ہمیں ”عالی مقصد“ اور ”بلند ہمت“ زندگی نصیب فرمائیں..

مبلغ اسلام، داعی ایمان...محترم ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب..حفظہ اللہ تعالی..کے پاکستان تشریف لانے پر قلبی خوشی محسوس ہو رہی ہے..والحمدللہ رب العالمین..نہ اُن سے کوئی رابطہ ہے..نہ ملاقات..مگر ”کلمہ طیبہ“ کے رشتہ سے وہ ہمارے معزز بھائی ہیں..ہم انہیں مرحبا، خوش آمدید اور ”اہلاً وسھلاً“ کہتے ہیں..وہ اُمت مسلمہ کا قابل فخر سرمایہ ہیں..اللہ تعالی نے ان کو بے پناہ صلاحیت سے نوازہ ہے..اور ان سے دین کا بڑا کام لیا ہے..اور وہ کام ہے ”دعوت ایمان“.....یاد رکھیں! انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام...اور ملائکۃ اللہ کے علاوہ..کوئی بھی غلطیوں اور گناہوں سے ”معصوم“ نہیں ہے..ہم حضرات ائمہ اربعہ کا اکرام کرتے ہیں..حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور دیگر محدثین کا اکرام کرتے ہیں..حالانکہ کئی مسائل میں اختلاف بھی ہوتا ہے..ڈاکٹر ذاکر صاحب سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں..جن پر اہل علم انہیں متنبہ کرتے رہتے ہیں...آجکل اکثر دین دار لوگ فضول بحثوں اور جدل و جدال میں مبتلا ہیں..اور ان مسائل میں زندگیاں کھپا رہے ہیں..جن کا قبر، حشر اور آخرت میں سؤال تک نہ ہوگا...جبکہ ڈاکٹر ذاکر صاحب کی خوش نصیبی دیکھیں کہ انہوں نے....”دعوت ایمان“ کو اپنا اصل موضوع بنایا..اور دشمنان اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے..اور لاکھوں افراد کے ”قبول اسلام“ کا ذریعہ بنے..مرنے کے بعد تو یہی چیزیں کام آئیں گی...اور اس زمانے میں عملی جہاد فی سبیل اللہ کے بعد ”دعوت ایمان“ سے بڑا اور کوئی کام نہیں..اسی لئے ڈاکٹر صاحب کو انڈیا میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ہجرت پر مجبور ہوئے..فرماتے ہیں کہ..پندرہ ممالک نے انہیں شہریت دینے کی پیشکش کی...یعنی ایک سچے ”داعی“ کے لئے دوسو ممالک کی سرزمین پر صرف پندرہ ملک کھلے ہیں..جبکہ سچے مجاہدین کو..کوئی ایک ملک بھی اپنی شہریت نہیں دے گا..پناہ البتہ چند ایک دے دیتے ہیں..بے شک دین کے لئے جس نے جتنی قربانی دی..وہ اللہ تعالی کے ہاں اس کا بدلہ ضرور پائے گا.....

پاکستان حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی..بیس سال میں پہلی بار کسی حکومتی فیصلے سے اسلام، عزت اور بہادری کی خوشبو آئی...ورنہ ”مشرف“ کے ”نامبارک“ دور سے یہ مُلک..بد امنی، بزدلی اور محتاجی کی ڈھلوان پر لڑھک رہا ہے..اب ضرورت اس بات کی ہے کہ..ملحد اور کفر پرست طبقے کے دباؤ میں آکر ”ڈاکٹر صاحب“ کو ”محدود“ نہ کیا جائے..مکمل سیکورٹی میں ان کے ”فقید المثال“ اجتماعات رکھے جائیں..اسمیں آپ کو اجر و ثواب بھی ملے گا اور ترقی بھی ان شاءاللہ..آخر ”بے فائدہ“ سیاسی جلسوں اور اجتماعات کو بھی تو سیکورٹی دی جاتی ہے..بہت افسوس ہو رہا ہے کہ..غیروں اور گیدڑوں کے دباؤ میں آکر...عالم اسلام کے عظیم داعی سے ملک کی عوام کو محروم رکھا جا رہا ہے...بہادری کر بیٹھے ہو بابا تو پھر اسے نبھا بھی لو..

تیس لاکھ افراد کا مجمع بٹھاؤ..اور ڈاکٹر صاحب کو کھڑا دو..جب وہ دنیا کے ہر پادری، پنڈت، گرو، ملحد کو للکاریں گے اور سچے دین کی دعوت دیں گے تو..ہمارے ملک میں خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے گی...مغرب سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن مرحبا!

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مختصر تفسیر

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی کا ”نور“ جسے مل جائے...وہ دین کو سمجھتا ہے..دین پر عمل کرتا ہے..آخرت کی بھرپور تیاری کرتا ہے..اور اپنی زندگی کو..دنیا کی خاطر ضائع نہیں کرتا..

کئی دنوں سے..سورہ الانعام کی آیت (۱۲۲) پر بات چل رہی ہے..اندازہ ہوا کہ ”مکتوب“ میں مکمل تفسیر نہیں  آسکے گی..اس لئے آج تین نکتوں کو عرض کر کے..اس موضوع کو کسی حد تک پورا کرتے ہیں..پہلے یاددہانی کے لئے آیت کریمہ کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے..

ترجمہ: کیا وہ شخص جو مُردہ تھا..پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا..اور اسے نور عطاء فرما دیا..جسے وہ لوگوں کے درمیان لے کر چلتا ہے..(کیا یہ شخص) اس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہے..ان سے نکل نہیں سکتا..بس اسی طرح کافروں کے لئے ان کے کام پسندیدہ بنا دیئے جاتے ہیں (الانعام ۱۲۲)

(۱) نور سے مُراد..ایمان ہے، ایمان پر استقامت ہے..دین ہے..دین پر قوت ہے..قرآن مجید ہے..شریعت پر عمل کا ذوق ہے..علم ہے..معرفت ہے..قوت فیصلہ ہے..اسلام پر اطمینان ہے..اسلام پر فخر اور خوشی ہے..ایمان پر مضبوطی ہے..ایمان کے لئے دعوت اور جہاد ہے..اور ایمان کا دوام ہے..قرآن مجید میں جہاں جہاں ”نور“ کا لفظ آیا ہے وہ سب پڑھیں تو پھر بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی..

(۲) اس آیت مبارکہ میں ”پکے مسلمانوں“ کا ذکر ہے..جو پکے مؤمن ہیں..اور انکی علامت یہ ہے کہ..اُن کے پاس نور ہوتا ہے..یعنی ایمان کی روشنی اور ایمان کی طاقت..اور اس کا پتا تب چلتا ہے جب وہ لوگوں کے درمیان چلتے ہیں..تب ان پر ایمان کا نور نظر آتا ہے..اور وہ لوگوں سے شرما کر..یا لوگوں سے ڈر کر ”ایمان“ سے پیچھے نہیں ہٹتے..نہ وہ کافروں سے متاثر ہوتے ہیں..نہ ماحول سے..نہ شہوتوں سے..بلکہ ایمان...اور اس کے تقاضوں پر ڈٹے رہتے ہیں..اور اپنے نور کو پھیلاتے ہیں..اور کسی کی نقلی روشنی کو اپنے اوپر اثر انداز نہیں ہونے دیتے...

(۳) اور اس آیت مبارکہ میں ”پکے کافروں“ کا ذکر ہے..جو اپنے برے اعمال کی وجہ سے کبھی ”نور“ نہیں پا سکتے..اور اس کی وجہ یہ ہے کہ..انہوں نے کفر کو..اور کفریہ اعمال کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے..

اسمیں اشارہ دیا کہ..مسلمان کبھی بھی..گناہوں کو مرغوب نہ بنائیں..مسلمان گنہگار ہو سکتا ہے..مجرم ہو سکتا ہے..مگر وہ کبھی بھی برائیوں، گناہوں اور غفلتوں پر خوش اور مطمئن نہیں ہو سکتا..اگر خدانخواستہ ہونے لگے تو پھر نعوذ باللہ اس پر بھی ہدایت کے دروازے بند ہو سکتے ہیں..

بس اسی پر ”آیت مبارکہ“ کی تقریر مکمل کرتے ہیں..اللہ تعالی ہمیں پکا مؤمن..نور والا مؤمن بنائے..ایمان کی دعوت دینے والا...نور کو ساتھ لے کر پھرنے والا..اور ایمان کی خاطر جہاد کرنے والا..

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی نے ”ختم نبوت“ کا تاج...اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنا دیا ہے..اب ”دین اسلام“ کے بعد کوئی دین نہیں..حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں..اور ”مسلمانوں“ کے بعد..کوئی امت نہیں..یاد رکھیں..ہم مسلمان ”آخری امت“ ہیں..ہمارے بعد ”قیامت“ ہے..اور جب تک ہم ساری دنیا پر غالب نہیں ہو جائیں گے ”قیامت“ نہیں آئے گی...

”یہودیت“ ختم ہو جائے گی...روئے زمین پر ایک یہودی بھی نہیں رہے گا..”عیسائیت“ ختم ہو جائے گی..روئے زمین پر ایک عیسائی بھی نہیں بچے گا.....”صلیب“ ٹوٹ جائے گی..اور اسے خود حضرت عیسی علیہ الصلٰوۃ والسلام توڑیں گے....یاد رکھیں..یہ سب کچھ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں آیا ہے...”سورہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آغاز میں حتمی اور قطعی اعلان ہو چکا ہے کہ....حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر...کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا..خواہ یہودی ہو..عیسائی ہو، بدھشٹ ہو.....یا مشرک اور مجوسی....اب اس امت کا کام ہے کہ..دنیا کے ایک ایک انسان تک....دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنچا دے..آج دنیا میں کتنے ادارے..کتنی مشنریاں..اور کتنے ملک...باقاعدہ ”کفر“ کی دعوت چلا رہے ہیں..مگر ایک بھی ”اسلامی ملک“ ایسا نہیں..جہاں کے حکمران..اسلام کی دعوت دیتے ہوں..بلکہ ہمارے ممالک میں تو اسلام قبول کرنے پر طرح طرح کی قانونی پابندیاں لگائی جاتی ہیں..اسلام کی دعوت دینا..اس دعوت کو پھیلانا..اور اس دعوت کی خاطر جہاد کرنا..ہر ”اسلامی ریاست“ کی پہلی ذمہ داری ہے..ہمارے یہ حکمران اگر اسلام کی دعوت دیتے تو اللہ تعالی ان کو......امن، عزت اور اجر عطاء فرماتے..انہوں نے ”دعوت“ اور جہاد سے منہ موڑا تو ان پر.......خوف، بدامنی، محتاجی اور ذلت مسلط کر دی گئی..اور خود ان میں سے اکثر کے دلوں سے......دین نکل گیا.....

مسلمانو! سورہ یس پڑھو.....دعوت ایمان کی حقیقت سمجھ لو گے...اور تم پر......اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کے خزانے کھل جائیں گے....وہ دیکھو....شہر کے دور کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آرہا ہے.....اور کہہ رہا ہے....اے لوگو! پیغمبروں کی بات مان لو...دین میں داخل ہو جاؤ........کون ہے جو سورہ یس کے اس منظر کو دہرائے؟..........اور رب تعالی کے ہاں”مُكْرَمِیْنَ“ میں سے بن جائے.........قرآن مجید....کوئی ”منظر“ بلاوجہ تو نہیں دکھاتا..

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

دعوت ایمان..حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا کام

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی چاہیں تو سب ”انسانوں“ کو خود ہی ”ہدایت“ عطاء فرما دیں..لیکن دنیا ایک ”امتحان گاہ“ ہے..اللہ تعالی اپنے محبوب اور خاص الخاص بندوں کو....”دعوت ایمان“ پر لگاتے ہیں..دنیا میں اللہ تعالی کے سب سے خاص، پسندیدہ اور محبوب بندے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں...ان سب کو اللہ تعالی نے ”دعوت ایمان“ کے لئے بھیجا..اور ان سے ”دعوت“ کا کام لیا..ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں..ایک ”دعوت ایمان“ ہے..اور ایک ”دعوت اصلاح“ ہے..مسلمانوں کو نماز، روزے، جہاد وغیرہ اعمال کی دعوت دینا..یہ ”دعوت اصلاح“ ہے..جبکہ ”کفار“ کو ایمان اور اسلام کی دعوت دینا..یہ ”دعوت ایمان“ ہے..انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ”دعوت ایمان“ کے لئے بھیجے گئے..یہ ان کا اصل کام تھا..اصل ذمہ داری تھی..پھر اس کے بعد ”دعوت اصلاح“ بھی ان کی ”ذمہ داری“ تھی..”تبلیغی جماعت“ نے جب مسلمانوں کی اصلاح کے لئے کام شروع کیا تو اس وقت یہی ”اعتراض“ اٹھا کہ....اسے ”تبلیغی جماعت“ نہ کہا جائے...”اصلاحی جماعت“ کہا جائے..اکابر نے جواب دیا کہ...بانی جماعت نے کوئی نام رکھا ہی نہیں تھا انہوں نے تو بس کام شروع فرما دیا..بعد میں لوگوں نے ”تبلیغی جماعت“ مشہور کر دیا..اور وہی چل پڑا..ورنہ اصل تبلیغ تو یہ ہے کہ ”غیر مسلموں“ کو ایمان کی دعوت دی جائے..یہی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے..اسی کے لئے چاروں کتابیں نازل ہوئیں..اور اسی کے لئے اس امت پر ”فریضہ جہاد“ فرض کر دیا گیا..تاکہ دعوت کا کام رکے نہیں..قوت اور تیزی سے پورے عالم میں پھیلے..اس لئے قتال فی سبیل اللہ اور ”دعوت ایمان“ آپسمیں مکمل جڑے ہوئے ہیں..”فتح القدیر“ میں ہے:

”الجہاد دعوۃ الکفار الی الدین الحق و قتالھم ان لم یقبلوا“

” جہاد کا معنی ہے کافروں کو ”دین حق“ کی طرف دعوت دینا اور اگر وہ نہ مانیں تو ان سے قتال کرنا “

مجاہدین فی سبیل اللہ کو.....حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام والی محنت مبارک ہو..دعوت ایمان..اور جہاد فی سبیل اللہ....دونوں میں کوئی سستی نہ آئے..کبھی دونوں اکٹھے..کبھی دونوں الگ الگ...(اسکی تفصیل اگلے مکتوب میں ان شاءاللہ)

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

اے ”کلمہ طیبہ“ والو!!

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..

اللہ تعالی کا محبوب دین.......دین اسلام.....

...وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا...(المائدہ(۳)

اللہ معافی، اللہ معافی، اللہ معافی......کتنے لوگ اس دین سے محروم ہیں...انکی ”زبانیں“ ہیں مگر وہ کلمہ نہیں پڑھتیں...لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ....آج کسی کی آنکھیں نہ ہوں وہ خود کو ”محروم“ سمجھتا ہے...کسی کے بازو نہ ہوں وہ خود کو ”محروم“ سمجھتا ہے...کسی کے پاس اپنا مکان،سواری نہ ہو...وہ خود ”محروم“ سمجھتا ہے..

حالانکہ ان چیزوں کے بغیر زندگی گزر جاتی ہے..گزارہ چل جاتا ہے..مگر دین کے بغیر نہ زندگی اچھی..نہ موت اچھی...نہ انجام اچھا..اور نہ آخرت اچھی..مگر بے شمار لوگ ”دین“ کے بغیر خود کو ”محروم“ بھی نہیں سمجھتے..کیونکہ کوئی احساس دلانے والا نہیں..کوئی آواز لگانے والا نہیں..کوئی پکارنے والا نہیں..کوئی اس درد میں رونے والا نہیں..کوئی اس کام کے لئے پتھر کھانے والا نہیں..کوئی اس کے لئے جان لگانے والا نہیں..اس صورتحال کا بہت نقصان ہوا..اور بہت نقصان ہو رہا ہے..جس ”غیر مسلم“ کو ”دین اسلام“ کی دعوت دی جائے..پھر وہ قبول کر لے تو اس کے دنیا و آخرت میں مزے..اور اگر ٹھکرا دے تو پھر اس پر ذلت، پستی اور عذاب کا نزول شروع ہو جاتا ہے..ہم نے دعوت بند کر دی تو ان کا اسلام میں آنا بھی کم ہو گیا..اور ان میں سے نہ ماننے والوں پر ذلت و عذاب میں بھی کچھ ڈھیل آگئی..چنانچہ وہ کافر ہو کر.. اللہ تعالی کے باغی اور دشمن ہو کر..بظاہر اتنے معزز ہو گئے کہ مسلمان ان کی شکلیں اپنا رہے ہیں..ان کے طور طریقے اپنے اندر لا رہے ہیں..کنویں سے پانی نکلنا بند ہو جائے تو پھر....بدبودار کیچڑ نکلتی ہے..دین کی پاکیزہ دعوت بند ہو گئی تو اب ہر طرف گندگی اور غلاظت کی دعوت ہے..اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے عظیم الشان، حسن و جمال کے پیکر نبی کے امتی.........کافروں کے ناپاک طریقے اپنا رہے ہیں..

او کلمہ طیبہ والو!......او سورہ بقرہ والو!...اٹھو..اور ایک ایک گھر تک اسلام کی دعوت پہنچا دو.....

والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

<مکتوب خادم>

ایک حدیث

ایک واقعہ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته..
اللہ تعالی اس شخص کے سارے گناہ مٹا دیتے ہیں..وہ ”صدق دل“ سے ”ایمان“ قبول کر لے..حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
ان الاسلام یھدم ما کان قبلہ(صحیح مسلم)
ترجمہ: بلا شبہ اسلام پچھلے سارے گناہ گرا دیتا ہے....
   (حدیث مبارکہ) 
حدیث شریف میں آیا ہے کہ.....آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران بچوں کو قتل کرنے سے سخت منع فرمایا.....کسی نے عرض کیا:
”او لیس ابناؤھم اولاد المشرکین“
یا رسول اللہ! کیا یہ بچے مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں؟....
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اولیس خیارکم اولاد المشرکین
ترجمہ: کیا تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟
یعنی مشرکین کی اولاد میں ”ایمان والے“ پیدا ہو سکتے ہیں..بڑے بڑے عظیم صحابہ کرام کے والدین مشرک تھے...
   (ایک واقعہ)
ہمارے ایک استاذ محترم ”نو مسلم“ تھے...اسم گرامی تھا حضرت مولانا عبدالرحیم منہاج...وفات پا چکے ہیں..رحمۃ اللہ علیہ..وہ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے..عیسائیت پڑھی اور ”پادری“ بن گئے..پندرہ سال ”پادری“ رہے..اللہ تعالی کی نظر کرم ہوئی..اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا..تھوڑا عرصہ تو اسلام  قبول کرنے کے باوجود دین سے دور رہے..پھر نظر کرم ہوئی تو دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہو گیا..خصوصا نماز باجماعت..تکبیر اولی کے ساتھ..فرماتے ہیں ایک دن وضو میں کچھ تاخیر ہو گئی..میں وضو کے آخر میں تھا کہ اقامت شروع ھو گئی..میرے دل سے آہ نکلی اور میں تیزی سے وضو پورا کر کے تکبیر اولی پانے کے لئے لپکا..اسی ہنگام میں پتہ نہیں چلا اور سامنے وضو خانے کی ایک دیوار آگئی..میرے ہاتھ اس پر پڑے تو ٹیڑھی ہو کر گرنے لگی..میں اسے چھوڑ کر دوسرے راستے سے مسجد داخل ہو گیا..
نماز کے بعد شور مچ گیا کہ دیوار کیسے ٹیڑھی ہوئی...میں ڈر کے مارے خاموش بیٹھا رہا..
نو مسلم کا پاک صاف دل..پھر اس میں نماز کا جذبہ اور دیوانگی..ایسے میں کوئی دیوار کیا..پہاڑ بھی سامنے آجائے تو وہ بھی زمین پر بچھ جائے گا... آج مسلمانوں نے ”دعوت ایمان“ کا عمل چھوڑ دیا ہے...حالانکہ یہ ”فرض“ عمل ہے..اور اس کی برکت سے وہ لوگ اسلام میں آتے ہیں..جو ہم سے زیادہ اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں..اور ہم سے زیادہ طاقت کے ساتھ جہاد کر سکتے ہیں..کیونکہ وہ بہت کچھ کھو کر اسلام کو پاتے ہیں..اور اسلام لاتے ہی بالکل پاک صاف ہو جاتے ہیں..
والسلام

خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله