مکتوب خادم
مُحْسِنِ اُمَّتْ
السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاته..
اللہ تعالی نے ”غزوہ أُحد“ میں اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی خاص حفاظت فرمائی..
غزوہ أُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محفوظ رہنا ایک معجزہ
تھا..جو اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء فرمایا..آپ اس جنگ کے
حالات پڑھیں..نقشہ دیکھیں، صورتحال جانیں تو..آپ اس بات کی تصدیق کریں گے..غزوہ أُحد
میں دراصل جنگ بگڑ گئی تھی..مسلمان ہر طرف سے گھیرے میں آگئے..ان کی صفیں بکھر گئیں
اور ان کا ہجوم ٹوٹ گیا..تلواروں، تیروں کی لڑائی میں جس لشکر کی صفیں ٹوٹ جائیں وہ
بہت کمزور ہو جاتا ہے..اور اپنے سے کم افراد والے منظم لشکر سے بھی شکست کھا جاتا ہے..
یہاں تو مشرکین کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی..اور
مسلمانوں کی صفیں بکھر چکی تھیں..قریش مکہ کے جنگ بازوں نے اپنا پورا زور ایک ہی رخ
پر ڈال دیا کہ..کسی طرح حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیں..یہ حملہ،
یہ زور اور یہ یلغار معمولی نہیں تھی..مگر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
حفاظت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے..جن خوش قسمت ترین افراد کو
استعمال فرمایا..ان کا نام ہے ”شہداء اُحد“..
سبحان اللہ..شہداء اُحد نام لکھتے ہوئے بھی جسم کے رونگٹے
کھڑے ہوگئے..رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ..زمانے کے وہ بہادر ترین، وفادار ترین اور صابر
ترین افراد جو اُسوقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ڈھال بن گئے..جنہوں نے اپنے جسموں
کے ٹکڑوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حفاظتی قلعہ کھڑا کر دیا..وہ جانباز جنکی
بجلیاں برساتی آنکھوں اور آگ برساتے غصے اور جذبے نے مشرکین کو ناکام کر دیا..
غزوہ اُحد کا آخری حصہ بس اِسی بات کی جنگ تھی کہ..مشرکین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنا چاہتے تھے..جبکہ مسلمان ہر حال میں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی حفاظت کرنا چاہتے تھے..اسی ایک نقطے پر ایسی تاریخی جنگ ہوئی کہ زمین
لرز اٹھی..اور شیطان تک نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا..مگر پھر میدان میں فاروق اعظم
رضی اللہ عنہ کی آواز گونجی..او دشمنو !..اللہ ہمارا مولیٰ ہے..تمہارا کوئی مولیٰ نہیں..اور
ہمارے آقا الحمدللہ زندہ سلامت موجود ہیں..اور یوں مشرکین کو فتح نما شکست اور مسلمانوں
کو شکست نما فتح نصیب ہوئی..
بات لمبی ہے..مکتوب میں جگہ کم ہے..اللہ کرے یہ اشارے سمجھ
میں آجائیں..دراصل ”شہداء اُحد“ پوری اُمت کے مُحسن ہیں..اُمت کو چاہیے کہ انہیں سلام
پیش کرتی رہے..اُن کے لئے ایصال ثواب کرتی رہے..اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات
لامحدود ہیں..پھر حضرات ”شہداء اُحد“ کا دوسرا احسان یہ کہ انہوں نے شہادت کے بعد بھی
اس اُمت کے لئے پیغام بھیجا کہ..ہم جیسا مقام چاہیے تو جہاد میں ہرگز کوتاہی نہ کرنا..اس
پیغام کی تفصیل احادیث مبارکہ..اور کتب تفسیر میں موجود ہے..٢٦..٢٧ رمضان کی بھرپور
محنت کا ایصال ثواب..سیدالشہداء رضی اللہ عنہ اور شہداء اُحد کے لئے..رضی اللہ عنہم..مغرب
سے جمعہ شریف، مقابلہ حسن زاد شفاعت مرحبا!
والسلام
خادم....لااله الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ