بسم
اللہ الرحمن الرحیم
<مکتوب
خادم>
تَوَكَّلُـوْآ
اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ
السلام
علیکم ورحمةالله وبرکاته..
اللہ
تعالی اپنے بندوں کو کسی ناممکن چیز کا حکم نہیں فرماتے...جب اللہ تعالی نے ہمیں
”توکل“ کا حکم فرمایا ہے تو ثابت ہوا کہ...”توکل“ کی صفت پانا ایک انسان کے لئے
ممکن ہے... عرض ہوا تھا کہ” تَوَكَّلُـوْآ
“ کا ”صیغہ“ قرآن میں دو جگہ آیا ہے...آج دوسری جگہ کو سمجھ لیں...
(۲) وَ قَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ
اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُـوْۤا اِنْ كُنْتُمْ
مُّسْلِمِیْنَ(یونس ٨٤)
ترجمہ:
اور موسی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے فرمایا...اے میری قوم اگر تم اللہ تعالی پر ایمان
رکھتے ہو تو اسی پر ”توکل“ کرو اگر تم مسلمان ہو....
اسمیں
”مقام توکل“......ظلم کا مقابلہ ہے...بنی اسرائیل فرعون کی طرف سے شدید ظلم، ذلت
اور رسوائی کا شکار تھے...حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے کے بعد بھی
صورتحال نہ بدلی تو بنی اسرائیل سخت پریشان ہوئے...تب حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ان سے فرمایا کہ….مجھے یقین ہے کہ میرا رب جلد تمہارے دشمن کو ہلاک
فرما دے گا اور تمہیں زمین کا مالک بنائے گا...مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ تم مایوس
نہ ہو...ظاہری حالات اور اسباب دیکھ کر دل نہ چھوڑو بلکہ...اللہ تعالی پر سچا
توکل.....یعنی اعتماد اور بھروسہ کرو.....اس لئے کہ اللہ تعالی کی مدد اس کے سچے
فرمانبرداروں کو ہی ملتی ہے...اور سچے فرمانبردار وہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالی پر
”توکل“ یعنی ”یقین“ رکھتے ہیں.......یہ آیت مبارکہ اور اس مضمون کی دیگر آیات....غامدی
صاحب اور وحید الدین خان صاحب کے نظریات کا مکمل توڑ ہیں....یہ حضرات کہتے ہیں
کہ...جب کفر اور ظلم کا اقتدار قائم ہو جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ سر جھکا کر
اسے قبول کر لیں...اور اسی میں رہتے ہوئے...اپنے لئے کوئی باعزت مقام تلاش کریں...یعنی
کافروں کی غلامی اور نوکری کو عزت سمجھنا شروع کر دیں...اور کسی طرح کا کوئی خروج...کوئی
بغاوت کر کے خود کو خطرے میں نہ ڈالیں......جب کہ یہاں حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ
والسلام فرعون کے قائم شدہ، تسلیم شدہ اقتدار کو توڑنے کے مشورے فرما رہے ہیں....اور
قوم کو خروج پر تیار فرما رہے ہیں...”شان توکل“ اس آیت میں یہ بیان ہوئی ہے
کہ..... ”توکل“ مسلمان کی نشانی...فرمانبرداروں کا شعار... اور ایمان کی روح
ہے.......
والسلام
خادم.....لااله
الاالله محمد رسول الله